خبریں

راجستھان: انتظامیہ نے کہا-مسلمان ہو نے کی  وجہ سے امتیازی سلوک کا الزام ثابت نہیں ہو سکتا

بھرت پور کے اربن امپرومنٹ ٹرسٹ کے سکریٹری امید لال مینا کے ذریعے تیار کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ خاتون کے شوہر عرفان خان نے کہا کہ ڈاکٹروں نے ذاتی طور پریہ نہیں کہا کہ آپ مسلمان ہیں اور ہم آپ کا علاج نہیں کریں گے۔

بھرت پور کا زنانہ ضلع ہاسپٹل(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

بھرت پور کا زنانہ ضلع ہاسپٹل(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: راجستھان کے بھرت پور ضلع کے ایک سرکاری ہاسپٹل کے ذریعےمبینہ طور پر ایک حاملہ خاتون  کو مسلمان ہونے کی  وجہ سے بھرتی نہیں کئے جانے اور ایمبولینس میں ہی نوزائیدہ کی موت ہونے کے ایک دن بعد انتظامیہ نے اپنی جانچ میں کہا ہے کہ اس الزام  کو ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے۔

بتا دیں کہ، خاتون  کے 34 سالہ شوہر عرفان خان کا کہنا ہے کہ بھرت پور کے ایک سرکاری ہاسپٹل میں ڈاکٹروں نے مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کی حاملہ بیوی  پروینہ  کو بھرتی کرنے سے انکار کر دیا ہے اور انہیں جئے پور جاکر علاج کرانے کو کہا۔عرفان کا کہنا ہے کہ ان کی بیوی  نے جئے پور جانے کے لیے ایمبولینس میں سوار ہونے کے کچھ ہی دیر بعد بچہ کو جنم دیا لیکن نوزائیدہ نے جلد ہی دم توڑ دیا کیونکہ ڈلیوری کے بعد دوبارہ بھرت پور کے آربی ایم زنانہ ہاسپٹل جانے پر انہیں ایک بار پھر لوٹا دیا گیا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، انتظامیہ کے ذریعے تیارکی گئی رپورٹ کے مطابق، نوزائیدہ  کے والد عرفان خان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کے نام اور پتے کو جاننے کے بعد، ہاسپٹل کے اسٹاف نےتبصرہ  کیا تھا کہ تبلیغی جماعت وہاں سے نکلی ہے (تبلیغی جماعت وہاں سے یہاں آ گئی ہے)۔

اتوار کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آیا تھا، جس میں خان یہ کہتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ نوزائیدہ  کی موت کے بعد اس نے سوچا کہ جو کچھ بھی اس کے ساتھ ہوا وہ اس لیے تھا کیونکہ وہ ایک مسلمان تھا لیکن یہ صرف ایک ‘نجی خیال’ تھا۔ انہیں یہ کہتے ہوئے بھی دیکھا جاتا ہے کہ اسٹاف  نے انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کی فیملی کا علاج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔

حالانکہ، بعد میں خان نے الزام  لگایا کہ انہوں نے ویڈیو میں جو بیان دیا وہ حکام کے ذریعے انہیں اس مدعے کو آگے نہیں بڑھانے کے لیے کہنے کے بعد دیا۔ انہوں نے یہ بھی الزام  لگایا کہ انہیں پولیس نے دھمکی دی اور دباؤ ڈالا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں ابھی بھی یقین  ہے کہ بھرت پور کے آربی ایم زنانہ ہاسپٹل کے اسٹاف نے ان کے مذہب کے بارے میں جاننے کے بعد انہیں جانے کے لیے کہہ دیا۔ انہوں نے آگے کہا کہ انہیں شک تھا کہ ہاسپٹل کے اسٹاف کو لگا کہ وہ تبلیغی جماعت سے جڑے ہوئے ہیں۔

اربن امپرومنٹ ٹرسٹ، بھرت پور کے سکریٹری  امید لال مینا کے ذریعے  تیار کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا مسلمان  ہونے کی  وجہ سے ان کا علاج کرنے سے انکار کر دیا اور ان کے ساتھ بدسلوکی  کی گئی تھی؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں نے ذاتی طور پر یہ نہیں کہا کہ آپ مسلمان ہیں اور ہم آپ کا علاج نہیں کریں گے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خان کی بیوی  کی بھابھی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ بھرت پور کے ہاسپٹل کے اسٹاف نے انہیں جئے پور ریفر کر دیا لیکن ان کے ساتھ بدسلوکی یا ہاتھاپائی نہیں کی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ ان کا علاج اس لئے نہیں کیا گیا کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔

حالانکہ، خان نے د ی وائر کو بتایا تھا کہ الزامات سے انکار کرنے کے لیے ان کی خاتون  رشتہ دار پر دباؤ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا، ‘ہاسپٹل کے میڈیکل اسٹاف نے ہماری خاتون  رشتہ دار کو دھمکایا اور ویڈیو بنایا، جس میں وہ اس بات سے انکار کر رہی ہے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں نے پروینہ کے علاج سے انکار کیا گیا۔’