خبریں

جب مودی کے کہنے پر ملک دیا جلا رہا تھا، اسی وقت مہاجر مزدور بھو کے پیٹ جد وجہد کر رہے تھے

گجرات کے وڈودرامیونسپل کارپوریشن  کی ایک زیر تعمیر  عمارت کو ریلیف کیمپ  میں بدلا گیا ہے اور یہاں پر 316 لوگوں کو رکھا گیا ہے۔ یہ شہر کا پہلا ریلیف کیمپ  تھا جس میں لاک ڈاؤن کے بعد اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان جانے والے مہاجر مزدوروں کو رکھا گیا۔

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: کو رونا وائرس کے انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے کے لیےنافذ کئے گئے لاک ڈاؤن نے ہزاروں لاکھوں مزدوروں کے لیے شدید پریشانی کھڑی کر دی ہے۔ ریلیف  کیمپوں میں راشن کا انتظار کرتے کرتے صبح سے شام اور پھر رات سے صبح ہو جاتی ہے لیکن ان کواناج  کا ایک دانا نصیب ہونا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

ایسی ہی حالت گجرات کے وڈودرا میں رہ رہے مہاجر مزدوروں کی ہے۔گزشتہ  اتوار کی رات جب پوراملک وزیر اعظم نریندر مودی کے فرمان کےمطابق کو رونا وائرس سے لڑنے کے لیے اپنے گھر کی لائٹ بند کرکے مٹی کا دیا جلا رہا تھا اور آتش بازی کر رہا تھا، اسی وقت یہاں کے کچھ مزدور اپنے بھوکے پیٹ کے سکون کے لیے جد وجہد کر رہے تھے۔

ان میں سے کچھ مزدوروں نے بھی موبائل فون کا ٹارچ جلاکر مودی کے اپیل  کی پیروی کی  لیکن ایسا کرتے ہوئے بھی انہیں گھر کا خیال باربار ستاتا رہاتھا۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق یہاں رہ رہے ایک مہاجر مزدور ببلو چودھری نے بتایا کہ گزشتہ اتوار کو چار بجے شام میں انہیں صرف دو پوڑی اور سبزی ملی تھی، اس کے بعد وہ رات کے کھانے کا انتظام نہیں کر پائے۔

چودھری نے کہا، ‘رات کو کھچڑی ملنے والی تھی لیکن مجھے نہیں ملی کیونکہ کھچڑی ختم ہو چکی ہے۔ میں ایسے ہی سوگیا۔ میں ہر دن اپنی فیملی کو یاد کرتا ہوں لیکن اس مشکل وقت میں میں اپنے ملک کے ساتھ بھی کھڑا ہوں۔’ببلو چودھری ایک پرائیویٹ فرم میں ڈرائیور تھے۔گزشتہ 27 مارچ کو وہ اپنے گھر جانے کے لیے نکلے تھے لیکن وڈودرا کے گولڈین چوکڑی کےپاس انہیں روک لیا گیا اور انہیں ریلیف کیمپ میں لایا گیا۔

معاشی طورپر کمزورطبقہ(ای ڈبلیو ایس) کے لیے وڈودرامیونسپل  کی زیر تعمیر  عمارت کو ریلیف کیمپ  میں بدلا گیا ہے اور لاک ڈاؤن نافذہونے کے بعد سے یہاں پر 316 لوگوں کو رکھا گیا ہے۔ یہ شہر کا پہلاریلیف کیمپ   تھا جس میں لاک ڈاؤن کے بعد اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان جانے والے مہاجر مزدوروں کو رکھا گیا ہے۔

پہلے دو دن ان مزدوروں کو بنا بجلی کے رہنا پڑا تھا۔ دو دن بعد بجلی آئی اور بلب لگائے گئے۔ حالانکہ ابھی تک یہاں پنکھا نہیں لگا ہے۔ایک دوسرے مزدور نے اخبار کو بتایا، ‘جب سے میں یہاں آیا ہوں تب سے میں گھر جانا چاہ رہا ہوں۔ لیکن ہمیں پتہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے ختم ہوئے بنا ہم نہیں جا سکتے ہیں۔ ہمیں نہیں پتہ کہ دیا جلانے سے کیا ہوگا لیکن ہم سبھی چاہتے ہیں کہ یہ سب جلد سے جلد ختم ہو۔’

گزشتہ اتوار کو جب کیمپ  میں کھانا آیا تو وہ کافی نہیں تھا۔ کچھ کو کھانا ملا اور کچھ لوگوں کو بھوکے پیٹ سونا پڑا۔فیملی کے 18 لوگوں کے ساتھ یہاں رہ رہیں رینو پرساد نے دیا جلانے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کی چار سال کی بیٹی اور دو سال کا بیٹا بھوکا تھا۔