فکر و نظر

صحت سے متعلق امور کو بھی قومی و انسانی سلامتی کے نظریہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے

تین سالوں میں وزارت صحت نے  وبائی امراض سے متعلق قانون کو حتمی شکل دینے کے لیے صلاح ومشورہ کو بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اس کو پارلیامنٹ میں لانے کی بھی کسی کو توفیق نہیں ہوئی، جہاں اسکو  اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کرکے اس پر غور و خوض کیا جاسکتا تھا۔ جہاں حکومت کی تمام تر توجہ اقلیتی طبقہ کو زچ کرنا، اکثریتی فرقہ کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے نیشنل ازم کا راگ الا پ کر ووٹ بٹورناہووہاں  صحت سے متعلق قانون سازی کی کس کو فکر ہوتی۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

پچھلے مہینے جب وزیر اعظم نریندر مودی اپنے مشیروں کے ساتھ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ملک میں لاک ڈاؤن لاگو کرنے پر غور کررہے تھے، تو ان کو بتایا گیا کہ وبائی امراض سے نپٹنے سے متعلق قوانین میں اس طرح کے کسی قدم کی گنجائش نہیں ہے۔ یہی کچھ صورت حال پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان اور بنگلہ دیش میں بھی حکومت کو درپیش تھی۔ جنوبی ایشیا کے یہ تینوں ممالک ابھی بھی برطانوی دور اقتدار میں بنے 1897کے قانون Epidemic Diseases Act پر عمل پیرا ہیں۔ پچھلے 135سالوں میں وقتاً فوقتاًوبائی امراض کے پھوٹنے کے باوجود، حکومتوں نے اس قانون کو ازسر نو ترتب دینا گوارا نہیں کیا ہے۔

خیر اب ان ملکوں کی افسر شاہی تو کسی بھی پیچیدہ مسئلہ کا حل  نکالنے میں خاصی دور کی کوڑی لانے میں ماہر تو ہے ہی۔ جب معلوم ہوا کہ 1897کا مختصر سا ایک صفحے کا قانون لاک ڈاؤن ایئر پورٹ پر اسکریننگ کی اجازت نہیں دیتا ہے، تو افسران نے حل یہ نکالا کہ وبائی مرض کو قدرتی آفات قرار دے کراس سے نپٹنے سے متعلق قانون Disaster Management Actکو روبہ عمل لایا جائے۔ جس کے تحت مرکزی حکومت کو وسیع تر اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور وہ صوبائی حکومتوں کو احکامات جاری کرسکتی ہے۔ چونکہ آئین کی رو سے صحت عامہ کا شعبہ صوبائی حکومتوں کے زیر اختیار ہوتا ہے، اس لیے مرکزی حکومت بس ایڈوائزری ہی جار ی کرسکتی تھی۔

ایک گزٹ نوٹیفیکیشن کے ذریعے کورونا وائرس کو آفت نوٹیفائی کیا گیا۔ اب مشکل درپیش تھی کہ Disaster Management Actکے تحت آفات سے نپٹنے کا کام تو وزارت داخلہ کرتی ہے، جبکہ وبائی امراض تو وزارت صحت کے تحت آتے ہیں۔ طبی شعبے اور دیگر ممالک بھی  اس صورت حال میں وزارت صحت کے ہی رابطہ میں رہتے ہیں۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ داخلہ سکریٹری اجے کمار بھلہ نے باضابطہ ایک حکم نامہ جاری کرکے آفا ت سے نپٹنے سے متعلق اپنے تمام اختیارات سکریٹری صحت پریتی سودن کو منتقل کردیے۔

یاد رہے کہ 2004میں سونامی طوفان اور سال بھر بعد کشمیر میں آئے شدید زلزلہ کی وجہ سے ہندوستان او رپاکستان کی حکومتوں نے آفات سے نپٹنےکے لیے Disaster Management Actتشکیل دیا تھا اور نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی بناکر آفات سے نپٹنےکے لیے ایک  طریقہ کار وضح کر دیا تھا۔

سال 2014میں جب مودی برسراقتدار آئے  تو انہوں نے کتاب دستور میں موجود  فرسودہ قوانین کی شناخت اور ان کو کالعدم یاترمیم کرنے کی سفارش کرنے کی غرض سے  دو سینئر افسران  آر رام مانوجم اور وی کے بھسین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ تقریباً آٹھ ماہ کی عرق ریزی کے بعد ان افسران نے ایک مدلل رپورٹ پیش کی۔ جس میں بتایا گیا کہ کتاب دستور میں موجود 2781مرکزی قوانین یا ایکٹ ہیں، جن میں 380ایکٹ ایسے موجود ہیں، جو 1834اور 1949کے درمیان وجود میں آئے ہیں۔

ان افسران نے بتایا کہ 1741قوانین موجودہ دور میں افادیت کھو چکے ہیں۔ ان میں ایک قانون سرائے ایکٹ ہے، جس کی رو سے کسی بھی سرائے کے مالک موجودہ دور میں ہوٹل یا ریستوراں  پر لاز م ہے کہ مہمان یا گراہک  کو پینے کے لیے مفت پانی فراہم کرے،نیز گھوڑوں اور جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے اصطبل کا ہونا لازمی ہے۔ خلاف ورزی کرنے پر قانونی چارہ جوئی ہوسکتی ہے۔

اسی طرح کے کئی فرسودہ قوانین ہندوستان  اور پاکستان کی کتاب دستور میں ابھی بھی موجود ہیں۔ کمیٹی نے وبائی امراض سے متعلق ایکٹ کا بھی جائزہ لے کر سفارش کی کہ اس کو فی الفور کالعدم کرکے ایک نیا قانون وضع کیا جائے۔ یہ قانون وبا کی صورت میں سمندری جہازو ں کی تلاشی اور ان میں آنے یا جانے والے مسافروں کی جانچ کی اجازت تو دیتا ہے، مگر اس میں ہوائی جہاز یا اس میں سفر کرنے والے مسافروں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ کیونکہ 1897میں ہوائی سفر کی سہولیات میسر نہیں تھیں۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے چھ ماہ کی قید اور ایک ہزار روپے کا جرمانہ کا ذکرکیا گیا ہے۔

ایک صدی قبل یہ خاصی بڑی رقم تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ 1896میں ممبئی میں طاعون کی وبا پھیل گئی تھی۔جس کی وجہ سے حکومتی عملے کو قانونی طور پر بااختیار بنانے کے لیے اس ایکٹ کو  جلد بازی میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اب وہ کسی بھی گھر میں داخل ہوکر افراد خانہ کو ہسپتال  جانے پر مجبور کرسکتے تھے اور کسی بھی شخص کو روک کر اس کا طبی معائنہ کرسکتے تھے۔ 1891میں گو کہ یورپ میں ہسپانوی فلو پھوٹ پڑا، مگر جلد ہی اس نے ہندوستان میں قہر ڈھا دیا۔ نقل و حمل کے ذرائع محدود ہونے کے باوجود متحدہ ہندوستان میں اس وقت 20ملین افراد اس کی نذر ہوگئے۔

سال 2014میں افسران کی سفارش کے بعد تین سال کی عرق ریزی کے بعد وزارت صحت نے وبائی امراض و حیاتیاتی ہتھیاروں سے نپٹنے کی غرض سے قانون کا ایک ڈرافٹ تیا رکیا اور اس پر تبصرے اور امور صحت سے متعلق ماہرین کی رائے طلب کرنے کے لیے اس کو ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا۔مگر جہاں حکومت کی ترجیحات میں دفعہ 370ختم کرنا، مسلم خواتین کے طلاق کا قانون پاس کروانے اور  دیگر ایسے  قوانین پاس کروانے کے لیے عجلت دکھانا ہو، تو عام آدمی کے لیے قانون سازی کا وقت کہاں سے آئےگا۔ تین سالوں میں وزارت صحت نے  وبائی امراض سے متعلق قانون کو حتمی شکل دینے کے لیے صلاح ومشورہ کو بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اس کو پارلیامنٹ میں لانے کی بھی کسی کو توفیق نہیں ہوئی، جہاں اس کو  اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کرکے اس پر غور و خوض کیا جاسکتا تھا۔

جہاں حکومت کی تمام تر توجہ اقلیتی طبقہ کو زچ کرنا، اکثریتی فرقہ کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے نیشنلزم کا راگ الا پ کر ووٹ بٹورناہو، تو صحت سے متعلق قانون سازی کی کس کو فکر ہوتی۔ اس ڈرافٹ قانون میں بھی کئی خامیا ں ہیں۔ لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات کی صورت میں متاثر ہوئی آبادی کی معاشی بحالی اوران کے لیے غذا وغیرہ کی فراہمی کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔

کورونا وائرس نے فی الحال یہ تو ثابت کردیا کہ وبائی امراض کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات سے ایک بڑی آبادی معاشی بد حالی کا شکار ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں آفات سے نپٹنے کے لیےجس طرح دیگر ممالک کے ساتھ اشتراک کے لیے ایک میکانزم موجود ہے، وبائی امراض جو سرحدیں نہیں مانتی ہیں ،اس کے لیے اس طرح کا کوئی نظم نہیں ہے، جبکہ پچھلی دو دہائیوں میں دنیا میں فلو، سارس، نیپا جیسی بیماریوں نے قہر ڈھایا ہے۔ ہندوستان  او رپاکستان کے لیے لازم ہے کہ صحت کو ترجیج دےکر ایک جامع قانون پارلیامنٹ میں لائیں۔

ہندوستان میں صحت کا بجٹ مجموعی قومی پیداوار کا محض 1.6فیصد ہے، جبکہ 2017میں جاری ہیلتھ پالیسی میں حکومت کے لیے لازم کیا گیا تھا کہ اس کو 2.5صد تک لے جائے۔ پاکستان میں تو یہ اور بھی کم یعنی مجموعی قومی پیداوار کا 0.91فیصد ہے۔جبکہ ترکی میں جی ڈی پی یعنی قومی مجموعی پیداوار کا 4.4 فیصد صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔ کورونا وائرس نے یہ تو دکھایا ہے کہ جنگوں کی طرح وبائی امراض بھی معیشت کو تہہ و بالا کرسکتے ہیں۔ اس وائرس سے عالمی منڈیوں میں ایک اندازہ کے مطابق 18ٹریلین ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔

جنگوں اور قومی سلامتی کے ایشوز سے نپٹنے اور تیاری کے لیے حساس ادارے اور فوج متواتر سمیولیشن اور مشقیں کرتے رہتے ہیں۔ ہر ملک کے پاس تیل کے اسٹریٹجک ذخائر موجود ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ایمونیشن کے بھی ذخیرہ بنائے جاتے ہیں۔ صحت کے ایشوز سے نپٹنے کے لیے بھی اسی طرح کی چوکسی کی ضرورت ہے۔کیونکہ  اس وبا نے یہ تو عیاں کردیا  ہے کہ بڑی طاقتیں بھی صحت سے متعلق آلات و دوائیوں کا وافر اسٹاک نہیں رکھتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ صحت سے متعلق امور کو بھی قومی و انسانی سلامتی کے نظریہ سے دیکھا جائے۔