خبریں

لاک ڈاؤن: دال، چاول، آٹا اور دوسری اشیائے خوردنی کی فراہمی متاثر

کو رونا وائرس سے تحفظ  کے مدنظرنافذ لاک ڈاؤن کی وجہ سے زیادہ تر مزدور اپنے گھر چلے گئے ہیں، اس لیے مختلف سامانوں کا پروڈکشن  کافی کم ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ سروس  کی کمی نے بھی اشیائے خوردنی کی سپلائی کومحدود کر دیا ہے۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: کو رونا وائرس سے نپٹنے کے لیے 21 دنوں کاملک گیر بندنافذ ہے، ایسے میں ملک  بھر میں کھانے پینے اور روزمرہ کی چیزوں جیسے آٹا، چاول، دال، بسکٹ اور نوڈلس وغیرہ کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ٹائمس آف انڈیا کے مطابق، کئی خردہ  اور کرانہ  دکانوں پر ضروری کھانے کے سامان نہیں ہیں۔ ان سب چیزوں کی مانگ خاصی بڑھ گئی ہے۔

کو رونا وائرس کی وجہ سے ان سب چیزوں  کا پروڈکشن کافی کم ہو گیا ہے اور ٹرانسپورٹ سروس کی کمی نے بھی سپلائی کومحدود کردیا ہے۔ دال اگانے والی ریاست جیسے راجستھان، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر پوری طرح سے بند ہیں، اس وجہ سے بھی قلت کا سامناکرناپڑ رہا ہے۔

رٹیل چین اسٹور ‘مور’ کے ڈپٹی ایم ڈی اورچیف ایگزیکٹو آفیسر(ہائپر مارکیٹ)موہت کمپانی نے کہا، ‘آٹے کی قلت ہے اور اس کے بعد پیکیٹ بند چیزوں جیسے نوڈلس اور بسکٹ کی کمی پڑ رہی ہے۔ سبھی ایف ایم سی جی  کمپنیوں کے آگے پروڈکشن اور سپلائی کا چیلنج ہے۔’

ہول سیل میٹرو کیش اینڈ کیری انڈیا کے سی ای او ارویند میدیرتا نے کہا، ‘کمی اس لیے آ رہی ہے کیونکہ ابھی ٹرانسپورٹ کے وسائل  ہی نہیں ہیں۔’وہیں، میگی نوڈلس بنانے والی کمپنی نیسلے انڈیا نے اس معاملے پرتبصرہ  کرنے سے انکار کر دیا۔برٹانیا، آئی ٹی سی، پیپسی کو اور پار لے جیسی کئی کمپنیوں کو پروڈکشن سے متعلق چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ایف ایم سی جی  کمپنیوں کے کارخانے 20 سے 30 فیصدی کی صلاحیت  پر ہی کام کر رہے ہیں کیونکہ زیادہ تراسٹاف اپنے گھر لوٹ گئے ہیں۔

برٹانیا کے ایم ڈی ورن بیری نے بتایا کہ اس وقت اسٹاف کی بھی کمی ہے۔ پچھلے ہفتے اسٹاف کی تعداد 20 سے 30 فیصدی ہی تھی۔ پارلےجی ابھی 25 فیصدی کی صلاحیت پر کام کر رہی ہے۔ لیبر اور ٹرانسپورٹ بڑے مسائل بن کر ابھر رہے ہیں۔کچھ ریاستوں میں حکو مت نے پیکٹ بند اشیائے خوردنی  اور مشروب  کے پروڈکشن پر روک لگا دی ہیں۔ اس وجہ سے چپس اور نمکین کی قلت ہو گئی ہے۔

یہ چیزیں فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈایکٹ 2006 کے تحت ضروری چیزوں کے زمرے میں آتے ہیں، مگر پھر بھی ریاستی حکومتوں نے روک لگا رکھی ہے۔ایک سینئر افسرکے حوالے سے اخبار نے لکھا ہے کہ مرکز کی ہدایت ریاستی حکومتوں  کو سیدھے طور پر نہیں پہنچ رہی ہیں۔ جیسے کہ مغربی  بنگال میں پیپسی کو کا پلانٹ بند پڑا ہے۔ دوسروں  میں 15 فیصدی کام ہی چل رہا ہے کیونکہ وہاں مزدور ہی نہیں ہیں۔

اسنیکس بنانے والوں  میں ایک اندور کے پرتاپ سنیکس کے سی ای او سبھاشش بسو نے کہا، ‘ملک بھر میں ہمارے 14 پلانٹ ہیں، بہت کم ہی ایسے ہیں جن میں کام چل رہا ہے وہ بھی صرف 10 فیصدی۔’بتا دیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سارے کام کاج ٹھپ ہیں اور لاکھوں مزدور اور اسٹاف اپنے گاؤں کی طرف کوچ  کر گئے ہیں۔مرکزی حکومت نے لاک ڈاؤن کے دوران ضروری خدمات کو جاری رکھنے کی چھوٹ دی ہے۔ جیسے راشن، دودھ، دوا جیسی ضروری چیزوں کی سپلائی پر روک نہیں لگائی ہے۔