خبریں

لاک ڈاؤن: کینسر اور دوسری بیماریوں کے مریض صفدرجنگ اور ایمس کے باہر پھنسے

قومی راجدھانی دہلی میں صفدرجنگ ہاسپٹل اور ایمس کے باہر ملک  کے کونے کونے سے آئے ایسے سینکڑوں لوگ بے یار ومددگار پھنسے ہوئے ہیں اور کو رونا وائرس کے قہر کے کم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ کینسر، کڈنی اور دل سے متعلق بیماریوں  اور ایسی ہی دوسری خطرناک  بیماریوں کے علاج کے لیے آئے تھے۔

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: قومی راجدھانی دہلی میں صفدرجنگ ہاسپٹل اور ایمس کے باہر ملک  کے کونے کونے سے آئے ایسے سینکڑوں لوگ بے یار ومددگار پھنسے ہوئے ہیں اور کو رونا وائرس کے قہر کے کم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ کینسر، کڈنی اور دل سے متعلق بیماریوں  اور ایسی ہی دوسری خطرناک  بیماریوں کے علاج کے لیے آئے تھے۔

راجدھانی کے سب سے بڑے سرکاری ہاسپٹلوں کے بیچ سے نکلنے والی سڑک عام طور پر بہت مصروف  رہتی ہے لیکن کو رونا وائرس کی وجہ سےیہاں سناٹا پسرا ہے جس میں ان غریب مریضوں کی تکلیف  گونج رہی ہے جو نجی ہاسپٹلوں میں علاج کا خرچ نہیں اٹھا سکتے اور گھروں سے کوسوں دور یہاں اٹکے ہوئے ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر دوسری ریاستوں  سے علاج  کی خاص سہولیات کا فائدہ اٹھانے کے لیے یہاں پہنچے تھے اور اب لاک ڈاؤن کے دوران سڑکوں اور دونوں ہاسپٹلوں کو جوڑ نے والے سب وے میں بنائے گئے کیمپ  اور رین بسیروں میں وقت گزارنے کو مجبور ہیں۔

مدھیہ پردیش کے پنا ضلع سے کسان وجئے سہائے اپنے 13 سال کے بیٹے کا علاج کرانے آئے ہیں جس کو بلڈ کینسر بتایا گیا ہے۔ حالانکہ علاج کے لیے ان کا انتظار بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

ملک  بھر میں 25 مارچ سے لاگو 21 دن کے بند میں پھنس گئے سہائے کی ترجیح اپنے گاؤں سے بی پی ایل کارڈ منگانے کی ہے جس سے انہیں دوائیں مل سکتی ہیں۔ لیکن وہ گھر بھی نہیں جا سکتے اور علاج تو ہو ہی نہیں پا رہا ہے۔

ساتویں جماعت میں پڑھنے والے اپنے بیٹے کو نہارتے ہوئے وجئے سہائے کہتے ہیں،‘میں 15 مارچ سے یہاں ہوں۔ ایمس کے ڈاکٹروں نے کچھ دوائیں لکھیں لیکن وہ بہت مہنگی ہیں۔ کچھ لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے پاس بی پی ایل کارڈ ہے تو مجھے دوائیں خریدنی نہیں ہوں گی۔ مجھے اب اپنا بی پی ایل کارڈ چاہیے، لیکن مجھے کیسے ملےگا؟’

پنا میں سہائے جب کھیتی نہیں کر رہے ہوتے ہیں تو مزدوری کرکے اہل خانہ  کا پیٹ بھرتے ہیں۔اسی بسیرے میں رہتے ہیں جموں سے آئے 22 سال کے امن جیت سنگھ۔ پچھلے سال اکتوبر میں سڑک حادثے کا شکار ہوئے سنگھ کو علاج کے لیے ایمس بھیجا گیا تھا۔ ان کا دایاں ہاتھ نہیں ہل بھی نہیں پا رہا ہے اور ڈاکٹر بھی ان کی دیکھ بھال نہیں کر پا رہے ہیں۔

اپنےوالد کے ساتھ یہاں آئے امن جیت سنگھ نے کہا، ‘یہاں نہ تو جانچ ہو رہی ہے اور نہ  ہی علاج ہو رہا ہے۔ ہمارے پاس پیسہ بھی نہیں بچا ہے۔ سب سے اچھا ہوگا کہ ہم اپنے گھر لوٹ سکیں، لیکن ایسا بھی نہیں کر سکتے۔’

دوردور سےقومی راجدھانی میں علاج کرانے کے لیے آئے سینکڑوں لوگوں کے پاس کوئی راستہ  نہیں بچا ہے کیونکہ وہ گھر واپسی کی حالت میں بھی نہیں ہیں۔

ایمس ہاسپٹل میں جہاں او پی ڈی بند ہے، وہیں صفدرجنگ میں صرف ایک او پی ڈی محدود طریقے سے چل رہی ہے۔ان ہاسپٹلوں میں مریض ڈائیلاسس، کیموتھراپی اور دوسری  ایمرجنسی  کے لیے کئی دنوں، ہفتوں اور اب تو کئی مہینوں سے انتظار کر رہے ہیں۔

اتر پردیش کے پیلی بھیت کی رہنے والی 34 سالہ ریکھا دیوی کو کینسر ہے۔ وہ ہولی سے پہلے ہی اپنے شوہرسرجیت شریواستو کے ساتھ علاج کرانے کے لیے یہاں آئی تھیں۔ ایک مہینے بعد بھی ریکھااسی حالت  میں ہیں۔ علاج کے معاملے میں ابھی کوئی شروعات نہیں ہوئی ہے اور گھر جانے کے سارے راستے بند ہیں۔ ایسے کئی  لوگ دوگنی تکلیف جھیل رہے ہیں۔ اب حالات عام  ہوں تو ان کے علاج کی امید بڑھے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)