خبریں

کورونا وائرس: سابق ہیلتھ سکریٹری نے کہا-ہندوستان سمیت دنیا نے تحقیق اور ترقی پر توجہ نہیں دی

سابق ہیلتھ سکریٹری کےسجاتا راؤ نے کہا ہے کہ غذائی قلت  اور صحت مند طرز زندگی  کے فقدان کی وجہ سے کافی تعداد میں لوگوں کے اندر  بیماری سے لڑنے کی طاقت کم ہے۔ ایسے میں بیماریوں کو لےکرمستقل تحقیق  پر توجہ  دینے کی ضرورت ہے، جس کی ہمارے ملک  میں کافی کمی ہے۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی:ملک اور دنیا میں کو رونا وائرس کے قہر کے بیچ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ متعدی امراض  کاوقت رہتے علاج ڈھونڈنے کے لیے تحقیق اور ترقی  پرخصوصی توجہ دینے کے ساتھ ہی ایک جامع  اور طویل مدتی پالیسی  بنانے کی ضرورت ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندوستان سمیت دنیا کے تمام ملک  پچھلی  ڈیڑھ دہائی میں اس سمت میں مناسب  قدم اٹھانے میں ناکام  رہے ہیں۔

اسی مدعے پر پیش ہے وزارت صحت اور خاندانی بہبود  کی سابق سکریٹری  کے سجاتا راؤ سے خبررساں  ایجنسی بھاشا کی طرف  سے لیے گئے انٹرویوکے اقتباسات:

وائرس انفیکشن  کے بڑھتے ہومعاملوں کو دیکھتے ہوئے صحت کے شعبے  میں تحقیق  اور ترقی  کی کیا صورت حال  ہے؟

پچھلے 10 سالوں میں 7-8 طرح کے مؤثر وائرس سامنے آئے جن میں سارس، زیکا، ایبولا، ایچ1این1, کووڈ 19 وغیرہ شامل ہیں۔ ہمارے ملک  میں بڑی آبادی کے برعکس  صحت کا نظام مضبوط نہیں ہے۔غذائی قلت  اور صحت مند طرز زندگی  کے فقدان کی وجہ سے کافی تعداد میں لوگوں کے اندر  بیماری سے لڑنے کی طاقت کم ہے۔ ایسے میں بیماریوں کو لےکرمستقل تحقیق  پر توجہ  دینے کی ضرورت ہے، جس کی ہمارے ملک  میں کافی کمی ہے۔

ابھی ہمارے ملک میں صحت کے شعبے پرجی ڈی پی  کا ایک فیصد خرچ ہوتا ہے اور تحقیق اور ترقی پر خرچ معمولی ہے۔آج وائرولوجی  سمیت بنیادی سائنس کے شعبے میں تحقیق اور ترقی کی ضرورت ہے۔ ہمیں نہ صرف  صحت  کے بجٹ کو دوگنا کرنا ہوگا، بلکہ تحقیق  پر الگ سےایک بڑا بجٹ مختص کرنا ہوگا۔

کے سجاتا راؤ، فوٹو: ہارورڈ یونیورسٹی

کے سجاتا راؤ، فوٹو: ہارورڈ یونیورسٹی

تحقیق اور ترقی  کو لےکر غلطی کہاں ہو رہی ہے؟ اس کے آگے کا راستہ کیا ہے؟

ہندوستان ہی نہیں، پچھلی  تقریباً ڈیڑھ دہائی میں دنیا بھر میں مختلف شعبوں  میں وائرس سمیت متعدی امراض کافی کم وقفےپر سامنے آئے ہیں۔ اس کے باوجود متعدی امراض  سے نپٹنے پر دنیا نے کوئی خاص توجہ  نہیں دی۔موجودہ بحران  کے وقت میں متعدی امراض  سے نپٹنے میں تحقیق اور ترقی کی کمی آج صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ہندوستان کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کومتعدی امراض  سے نپٹنے کے لیے ایک جامع اور طویل مدتی پالیسی  بنانے کی ضرورت ہے، جہاں اس شعبے میں لگاتار تحقیق پر توجہ مرکوز کیا جانا چاہیے۔

کووڈ 19 سمیت متعدی  امراض کی روک تھام کے لیے جانچ سب سے اہم  ہے۔ ایسے میں ہندوستان کس حالت  میں ہے اور آگے کیا کیا جانا چاہیے؟

چھوٹے سے ملک  جنوبی  کوریا میں بھی کو رونا وائرس ٹیسٹ کرنے والے 650 لیب ہیں۔ ہندوستان میں ابھی تقریباً 140 لیب میں کو رونا وائرس انفیکشن  کے جانچ ہونے کا انتظام  ہے۔ ہندوستان کو ایسے لیب کی تعداد بڑھانی ہوگی جو بیماریوں کی جانچ کرتے ہیں کیونکہ اس کی بنیاد پر ہی علاج  کیا جاتا ہے۔

الگ الگ شعبوں  میں ٹیسٹنگ کٹ پہنچانی ہوگی، تکنیکی ماہرین  کو تربیت دینی ہوگی ۔پی پی ای ، وینٹی لیٹر سمیت کئی دوسری  چیزوں کے امپورٹ  کے بجائے ہمیں ان کے مقامی پروڈکشن  پر دھیان دینا ہوگا۔ امید ہے کہ کو رونابحران  سے سیاسی قیادت  کے ساتھ ہی سماج بھی سبق لےگا۔

لاک ڈاؤن سمیت کو رونا وائرس سے نپٹنے کے لیے سرکار کو کوئی مشورہ؟

کو رونا وائرس کا اثر تقریباً 220 ضلعوں میں ہے۔ ایسے میں ان ضلعوں میں جانچ میں تیزی لانا چاہیے، وائرس کے ہاٹ اسپاٹ پر خاص دھیان دیا جانا چاہیے۔

آنے والے دنوں میں کیا حالات  ہوں گے؟

کووڈ 19 کا جہاں تک سوال ہے، اس کا ایک دم الگ جنیاتی کوڈ ہے، جس کو  ابھی تک سلجھایا نہیں جا سکا ہے۔ اس کی گتھی سلجھانے کے ساتھ یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ہم ایک بیماری کے لیے لاک ڈاؤن کر رہے ہیں لیکن ملک میں کئی دوسری  بیماریوں سے متاثر لوگ بھی ہیں۔ ان پر بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے، نہیں تو مشکل ہوگی۔ او پی ڈی خدمات  بند نہیں ہونی چاہیے، اس کا طریقہ بدلا جا سکتا ہے۔’

(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)