خبریں

گرفتاری سے پہلے تیلتمبڑے کا ملک کے نام خط، کہا-امید ہے آپ اپنی باری آنے سے پہلے بولیں گے

 میں دیکھ رہا ہوں کہ میراہندوستان برباد ہو رہا ہے، میں آپ کو اس طرح کے خوفناک لمحے میں ایک امید کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔ آج بڑے پیمانے پر تشدد کو بڑھاوا مل رہا ہے اور لفظوں کے مطلب بدل دیے گئے ہیں ،جہاں ملک کو تباہ کر نے والے محب وطن بن جاتے ہیں اور عوام کی بے لوث خدمت کرنے والے غدار۔

سماجی  کارکن  اورقلمکار آنند تیلتمبڑے۔ (فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر)

سماجی  کارکن  اورقلمکار آنند تیلتمبڑے۔ (فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے حال ہی میں جانےمانے قلمکار اور کارکن آنند تیلتمبڑے کی ضمانت عرضی  خارج کر دی تھی ، جن پر بھیما کورےگاؤں  پروگرام میں مبینہ طور پرتشدد بھڑ کانے کے الزام  میں یواے پی اے  کے تحت کیس درج کیا گیا ہے۔کورٹ نے تیلتمبڑے اور کارکن گوتم نولکھا کو سرینڈر کرنے کے لیے ایک ہفتے کاوقت دیا تھا جو کہ آج 14 اپریل کو ختم ہو رہی ہے۔ انتظامیہ  کی اس طرح کی کارروائی اور عدلیہ  کی ان دیکھی  کو لےکررہنماؤں، کارکنان اور قلمکاروں نے تنقید  کی ہے۔

گزشتہ 13 اپریل کو آنند تیلتمبڑے نے اس کو لےکر ملک  کے نام ایک کھلاخط لکھا ہے، جس کاترجمہ یہاں پیش  کیا جا رہا ہے۔

§

مجھے پتہ ہے کہ بی جے پی-آر ایس ایس کے اتحاداور ان کی فرماں بردار میڈیا کے اس پرجوش ہنگامے  میں یہ پوری طرح سے گم ہو سکتا ہے لیکن مجھے ابھی بھی لگتا ہے کہ آپ سے بات کرنی چاہیے کیونکہ مجھے نہیں پتہ کہ اگلا موقع  ملےگا یا نہیں۔

اگست 2018 میں جب پولیس نے گووا انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کی فیکلٹی ہاؤسنگ کمپلیکس میں میرے گھر پر چھاپہ مارا، میری پوری دنیا ہی تباہ  ہو گئی۔

اپنے برے سے برے سپنے میں بھی میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میرے ساتھ یہ سب ہوگا۔ حالانکہ مچھے یہ پتہ تھا کہ پولیس میرے لیکچر کو لےکرآرگنائزرس خاص طور پریونیورسٹی سے میرے بارے میں جانچ پڑتال کر کےانہیں ڈراتی تھی۔ مجھے لگا کہ وہ شاید مجھے میرا بھائی سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں، جو سالوں پہلے گھر چھوڑ گئے تھے۔

جب میں آئی آئی ٹی کھڑگ پور میں پڑھا رہا تھا، تو بی ایس این ایل کے ایک افسر نے خود کو میرامداح  اورخیرخواہ  بتاتے ہوئے فون کیا اور مجھے مطلع کیا کہ میرا فون ٹیپ کیا جا رہا ہے۔ میں نے ان کاشکریہ اداکیا لیکن کچھ نہیں کیا۔ میں نے اپنا سم بھی نہیں بدلا۔

میں اس غیر مناسب دخل اندازی  سے پریشان تھا لیکن خود کو تسلی دیتا تھا کہ میں پولیس کو سمجھا سکتا ہوں کہ میں ایک‘عام’ آدمی  ہوں اور میرے رویے میں کوئی غیر قانونی عنصر نہیں ہے۔

پولیس نے عام طور پرشہری حقوق کے کارکنوں  کو پسند نہیں کیا ہے کیونکہ وہ پولیس پر سوال اٹھاتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ یہ سب اس وجہ  سے ہو رہا ہے کہ میں اس کمیونٹی  سے تھا۔ لیکن پھر میں نے خود کو دلاسا دیا کہ وہ  پائیں گے کہ میں نوکری میں پورا وقت  دینے کی وجہ سے اس ذمہ داری (شہری حقوق کے کارکن) کو نہیں نبھا پا رہا ہوں۔

لیکن جب مجھے اپنے ادارے کے ڈائریکٹر کا صبح کا فون آیا، تو انہوں نے مجھے بتایا کہ پولیس نےکیمپس میں چھاپہ مارا ہے اور مجھے ڈھونڈ رہی ہے، میں کچھ سیکنڈ کے لیے حیران  رہ گیا۔ مجھے کچھ گھنٹے پہلے ہی ایک آفیشل کام کے لیے ممبئی آنا پڑا تھا اور میری بیوی  پہلے ہی آ گئی تھیں۔

جب مجھے ان افراد کی گرفتاری کے بارے میں پتہ چلا، جن کے گھروں پر اس دن چھاپہ مارا گیا تھا، تو میں اس احساس سے ہل گیا تھا کہ میں صرف تھوڑی دوری سے گرفتار ہونے سے بچ گیا ہوں۔ پولیس کو میرے ٹھکانے کا پتہ تھا اور وہ مجھے تب بھی گرفتار کر سکتی تھی، لیکن ایسا انہوں نے کیوں نہیں یہ انہیں ہی پتہ ہوگا۔

انہوں نے سکیورٹی گارڈ سے جبراً ڈپلی کیٹ چابی لی اور ہمارے گھر کو بھی کھول دیا، لیکن صرف اس کی ویڈیوگرافی کی اور اس کو واپس لاک کر دیا۔

ہمارے سخت امتحان کی شروعات یہیں سے ہوئی۔ وکیلوں کی صلاح پر میری بیوی  نے گووا کے لیے اگلی فلائٹ لی اور بچولم پولیس اسٹیشن میں اس کارروائی کے خلاف شکایت درج کرائی کہ پولیس نے ہماری غیر موجودگی میں ہمارا گھر کھولا تھا اور اگر انہوں نے وہاں کچھ بھی پلانٹ کیا ہوگا تو ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ میری بیوی  نے خود ہی فون نمبر دیا تاکہ پولیس اس کی جانچ کر سکے۔

عجیب بات ہے کہ پولیس نے ‘ماؤوادی کہانی’ شروع کرنے کے فوراً بعد پریس کانفرنس کرناشروع کر دیا تھا۔ یہ صاف طور  پرفرماں بردار  میڈیا کی مدد سے میرے اور گرفتار کئے گئے دوسرے لوگوں کے خلاف عوام  میں تعصب کو ہوا دینا تھا۔ اس طرح کے ایک پریس کانفرنس میں 31 اگست، 2018 کو ایک پولیس افسر نے گرفتار کیے جا چکے لوگوں کے کمپیوٹر سے مبینہ طور پر برآمد ایک خط کو میرے خلاف ثبوت کے طور پر پڑھا۔

میرے ایک تعلیمی کانفرنس  میں حصہ  لینے کی اطلاع کے ساتھ اس خط کو بے ڈھنگے انداز میں لکھا گیا تھا، جو پیرس کے امریکی یونیورسٹی  کی ویب سائٹ پر آسانی سے دستیاب تھا۔ شروع میں میں مجھے اس پر ہنسی آئی ، لیکن اس کے بعد میں نے اس افسر کے خلاف ایک سول اورمجرمانہ ہتک عزت  کا مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا اور ضابطہ  کے مطابق منظوری کے لیے 5 ستمبر، 2018 کو مہاراشٹر سرکار کو ایک خط بھیجا۔

اس خط پر آج تک سرکار کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ حالانکہ ہائی کورٹ کے ذریعے پھٹکار کے بعد تب پولیس کے پریس کانفرنس پر روک لگائی۔

اس پورے معاملے میں آر ایس ایس کا رول چھپا نہیں تھا۔ میرے مراٹھی دوستوں نے مجھے بتایا کہ ان کے ایک کارکن، رمیش پتنگے نے، اپریل 2015 میں آر ایس ایس کے ماؤتھ پیس پنج جنیہ میں ایک مضمون  لکھا تھا جس میں انہوں نے ارندھتی رائے اور گیل اوم ویٹ کے ساتھ مجھے ‘مایاوی امبیڈکروادی’ بتایا تھا۔

ہندو دیو مالا کے مطابق ‘مایاوی’ اس راکشش کو کہتے ہیں جس کو ختم کیا جانا چاہیے۔ جب مجھے سپریم کورٹ کے تحفظ  میں ہونے کے باوجود پونے پولیس نے غیر قانونی طورپر گرفتار کیا تھا، تب ہندتو بریگیڈ کے ایک سائبر گروہ نے میرے وکی پیڈیا پیج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی۔

 یہ پیج ایک پبلک پیج ہے اور سالوں سے مجھے اس کی جانکاری بھی نہیں تھی۔

آخرکار، وکی پیڈیا نے دخل دیا اور میرے پیج کو ٹھیک کیا گیا، حالانکہ اس میں ان کی کچھ منفی باتیں بھی جوڑی گئیں۔

سنگھ پریوار کے مبینہ ‘نکسلی ماہرین’ کے توسط سے ہر طرح  کی جھوٹی افواہوں کے ذریعے میڈیا نے حملہ کیا۔ چینلوں کے خلاف اور یہاں تک کہ انڈیا براڈکاسٹنگ فاؤنڈیشن کو بھی بھیجی گئی میری شکایت کا کوئی جواب نہیں آیا۔

پھر اکتوبر 2019 میں پیگاسس کہانی سامنے آئی۔ سرکار نے میرے فون پر ایک بہت ہی خطرناک اسرایلی اسپائی ویئر ڈالا تھا۔ اس کو لےکر تھوڑی دیر میڈیا میں اتھل پتھل ضرور ہوئی، لیکن یہ سنگین معاملہ بھی چینلوں سے غائب ہو گیا۔

میں ایک عام آدمی  ہوں جو ایمانداری سے اپنی روٹی کما رہا ہے اور اپنے مضامین  کے ذریعے اپنی جانکاری سے لوگوں کی ہرممکن مدد کر رہا ہے۔ پچھلی  پانچ دہائی  سے اس کارپوریٹ دنیا میں ایک ٹیچر کے طور پر، ایک شہری حقوق کے کارکن  کے طو ر پر اور ایک دانشور کے طور پراس ملک  کی خدمت  کرنے کا میرا بے داغ ریکارڈ ہے۔

بین الاقوامی سطح  پر شائع ہوئیں میری 30 سےزیادہ  کتابوں، کئی خطوط،مضامین،تبصرے، کا لم، انٹرویوز میں کہیں بھی مجھے تشددیا کسی بھی تباہ کن تحریک کی حمایت کرتے ہوئے نہیں پایا جا سکتا ہے۔ لیکن اپنی زندگی کے اس آخری مرحلے  پر مجھ پریو اے پی اے کے تحت سنگین جرائم کے الزام لگائے جا رہے ہیں۔

بالکل، میرے جیسا آدمی  سرکار اور اس کی ماتحت میڈیا کے پروپیگنڈہ  کاسامنا نہیں کر سکتا ہے۔ معاملے کی تفصیل پورے انٹرنیٹ پر پھیلی  ہوئی ہے اور کسی بھی آدمی  کے سمجھنے کے لیے کافی موادہے کہ یہ ایک پھوہڑ اور مجرمانہ سازش ہے۔

اے آئی ایف آرٹی آئی ویب سائٹ پر ایک نوٹ پڑھا جا سکتا ہے۔ آپ کی سہولیت کے لیے میں اسے یہاں پیش  کروں گا۔

مجھے 13 میں سے پانچ خطوط کی بنیادپر پھنسایا گیا ہے، جو کہ پولیس نے مبینہ طور پر معاملے میں گرفتار دو لوگوں کے کمپیوٹروں سے برآمد کئے ہیں۔ میرے پاس سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا۔ اس خط میں ہندوستان  میں ایک عام سا نام ‘آنند’ کا ذکر ہے، لیکن پولیس نے بے جھجھک  مان لیا کہ یہ میں ہی ہوں۔

ان خطوط کوماہرین  اور یہاں تک کہ سپریم کورٹ  میں ایک جج کے ذریعے بھی خارج کر دیا گیا ہے، جو پوری عدلیہ  میں واحد  جج تھے جنہوں نے شواہد  کی نوعیت پر بات کی، باوجود اس کے اس میں کچھ بھی ایسا نہیں لکھا تھا جو کہ کسی معمولی جرم  کے دائرے میں بھی آتا ہو۔

لیکن سخت یو اے پی اے قانون کے اہتماموں کا سہارا لیتے ہوئے مجھے جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔ یو اے اپی اے انسان  کوبے یارومددگار بنا دیتا ہے۔

آپ کی سمجھ کے لیے یہاں پر کیس کاتفصیل  دیا جا رہا ہے:

اچانک، ایک پولیس آپ کے گھر پر آتی ہے اور بنا کسی وارنٹ کے آپ کے گھر میں توڑ پھوڑ کرتی ہے۔ آخر میں، وہ آپ کو گرفتار کرتے ہیں اور آپ کو پولیس لاک اپ میں بند کرتے ہیں۔ عدالت میں، وہ کہیں گے کہ xxx جگہ میں چوری (یا کوئی اورشکایت) معاملے کی جانچ کرتے وقت(ہندوستان میں کوئی بھی جگہ)پولیس نے yyy سے ایک پین ڈرائیو یا ایک کمپیوٹر(کسی بھی نام کا) برآمد کیا جس میں کچھ ممنوعہ تنظیموں  کے ایک مبینہ ممبرکے ذریعے لکھے کچھ خط ملے، جس میں zzz کا ذکر تھا جو پولیس کے مطابق آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔

وہ  آپ کو ایک گہری سازش کے حصہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اچانک، آپ پاتے ہیں کہ آپ کی دنیا الٹ پلٹ ہو گئی، آپ کی نوکری چلی گئی ہے، فیملی  ٹوٹ رہی ہے، میڈیا آپ کو بدنام کر رہا ہے، جس کے بارے میں آپ کچھ نہیں کر سکتے۔

پولیس ججوں کو سمجھانے کے لیے ‘سیل بند لفافے’ میں تفصیلات دےگی کہ آپ کے خلاف ایک پہلی نظر کا معاملہ ہے، جس میں حراست میں پوچھ تاچھ کی ضرورت ہے۔

کوئی ثبوت نہیں ہونے کے بارے میں کوئی دلیل نہیں دی جائےگا کیونکہ ججوں کا جواب ہوگا کہ ٹرائل کے دوران اس پر دھیان دیا جائےگا۔ حراست میں پوچھ تاچھ کے بعد، آپ کو جیل بھیج دیا جائےگا۔

آپ ضمانت کے لیے بھیک مانگتے ہیں اور عدالتیں آپ کی عرضیوں  کو خارج کر دیں گی جیسا کہ تاریخٰ اعدادشماردکھاتے ہیں کہ ضمانت ملنے یا بری ہونے سے پہلے، قید کی اوسط مدت چار سے 10 سال تک ہے۔

اور ایسا ہی ہوبہو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ ‘ملک ’ کے نام پر، ایسے سخت قانون جو بے قصور لوگوں کو ان کی آزادی  اور تمام آئینی حقوق سے محروم  کرتے ہیں، آئینی طور پرقابل قبول  ہیں۔لوگوں کے اختلافات کو دبانے اور پولرائزیشن کے لیے سیاسی طبقے کے ذریعے شدت پسندی  اور راشٹرواد کو ہتھیار بنایا گیا ہے۔ بڑے پیمانے پر تشدد کو بڑھاوا مل رہا اور لفظوں  کے مطلب کو بدل دیا گیا، جہاں ملک کو تباہ کرنے والے محب وطن  بن جاتے ہیں اور عوام کی بے لوث خدمت کرنے والے غدار ہو جاتے ہیں۔جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میراہندوستان برباد ہو رہا ہے، میں آپ کو اس طرح کے خوفناک لمحے  میں ایک امید کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔ خیر، میں این آئی اے کی حراست میں جانے والا ہوں اور مجھے نہیں پتہ کہ میں آپ سے کب بات کر پاؤں گا۔

حالانکہ، مجھے پوری امید ہے کہ آپ اپنی باری آنے سے پہلے بولیں گے۔