خبریں

ماہر قانون اور قلمکاروں سمیت 3500 لوگوں نے ’دی وائر‘ اور اس کے مدیر  کے خلاف درج کیس کی مذمت کی

اتر پردیش کی فیض آباد پولیس کے ذریعے درج ایک ایف آئی آر  میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘دی  وائر’ کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن نے اتر پردیش کےوزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے بارے میں ‘قابل اعتراض ’ تبصرہ  کیا تھا۔

فوٹو: د ی وائر

فوٹو: د ی وائر

نئی دہلی:  دی  وائر اور اس کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن کے خلاف اتر پردیش پولیس کے ذریعے ایف آئی آر درج کرنے کی تقریباً 3500 لوگوں نے مذمت کی ہے، جس میں ماہر قانون، ماہر تعلیم، ایکٹر،آرٹسٹ اورقلمکار شامل ہیں۔ان لوگوں نے د ی وائر اور اس کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن کے خلاف سبھی مجرمانہ کارروائی کو واپس لینے کی مانگ کی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، بیان میں کہا گیا ہےکہ  اتر پردیش حکومت لاک ڈاؤن کے دوران د ی وائر اور اس کے بانی مدیر کو نوٹس بھیجنے کے لیے پولیس کو 700 کیلومیٹر دور بھیجتی ہے، جبکہ ڈاک کی خدمات  جاری ہیں۔ان لوگوں نے مشترکہ  بیان میں اس کو میڈیا کی آزادی پر حملہ بتاتے ہوئے کہا کہ مرکز اور تمام ریاستی حکومتوں  سے اپیل ہے کہ وہ  میڈیا کی آزادی کو کچلنے کے لیے کو رونا وائرس (کووڈ 19)وبا کا سہارا نہ لیں۔

بیان میں  کہا گیا کہ میڈیکل ایمرجنسی جیسی  صورت حال  کو ایک حقیقی سیاسی ایمرجنسی  لگانے کے بہانے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔اس بیان پر دستخط  کرنے والوں میں سپریم کورٹ کے سابق جسٹس  مدن بی لوکور، مدراس ہائی کورٹ کے سابق جج کےچندرو اور پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج  انجنا پرکاش شامل ہیں۔

بحریہ کے دو سابق چیف ایڈمرل رام داس اور ایڈمرل وشنو بھاگوت کے ساتھ ہی اس پر دستخط  کرنے والوں میں سابق وزیر خزانہ  یشونت سنہا بھی شامل ہیں۔اس بیان میں کووڈ 19 اور مذہبی تقریب  کے بارے میں پوری طرح سے حقائق پر مبنی  خبر کے لیے دی  وائر اور اس کے بانی مدیر  کے خلاف یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی اتر پردیش حکومت  کے قدم اور پولیس کے ذریعے مجرمانہ الزام درج کرنے پر حیرانی کا اظہار کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا، میڈیا کی آزادی  پر یہ حملہ خاص طور پر کووڈ 19 بحران  کے دوران نہ صرف اظہار رائے کی آزادی بلکہ عوام  کے اطلاعات  کے حق  کو خطرے میں ڈالتا ہے۔دستخط کرنے والوں  نے اتر پردیش حکومت  سے دی  وائر کے مدیر سدھارتھ وردراجن اور دی  وائر کے خلاف ایف آئی آر واپس لینے اور سبھی مجرمانہ کارروائی کو  روکنے کی اپیل کی ہے۔

ان لوگوں نے میڈیا سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس وبا کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیں۔اس بیان پر سابق قومی سلامتی مشیر شیوشنکر مینن، سابق سکریٹری خارجہ  سجاتا سنگھ، پنجاب کے گورنرکے سابق مشیر اور رومانیہ میں ہندوستان  کے سابق سفیر جولیو ربیرو اور سابق سی ای سی ایم ایس گل سمیت کئی سابق  نوکرشاہوں  کے بھی دستخط ہیں۔

دوسرے دستخط کرنے والوں میں قلمکار وکرم سیٹھ، نین تارا سہگل، ارندھتی رائے، انیتا دیسائی، کے سچدانندن اور کرن دیسائی شامل ہیں۔اس بیان کو امول پالیکر، نصیرالدین شاہ، نندتا داس، فرحان اختر ، ملیکا سارابھائی، زویا اختر، کرن راؤ اور آنند پٹ وردھن جیسے اداکاروں  اورآرٹسٹ نے بھی اپنی حمایت  دی ہے۔

اس بیان پر دستخط  کرنے والوں میں کئی سینئر صحافی  اور دنیا بھر کی یونیورسٹی کے 1000 سے زیادہ پروفیسر بھی شامل  ہیں۔قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش کی فیض آباد پولیس کے ذریعے درج ایک ایف آئی آر  میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘دی  وائر’ کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیناتھ کے بارے میں ‘قابل اعتراض ’ تبصرہ  کیا تھا۔

وردراجن کے خلاف ایف آئی آر  میں ان کے  اس تبصرے کا بھی ذکر کیا گیا تھا جس میں ملک گیر  لاک ڈاؤن کے بیچ آدتیہ ناتھ کے ایودھیا میں رام جنم بھومی پر ایک مذہبی تقریب  میں حصہ لینے پر سوال اٹھایا گیا تھا۔اس میں کہا گیا ہے کہ ایک اپریل کو قانون کی مختلف دفعات کے تحت دو ایف آئی آر  درج کی گئیں،پہلی ایودھیا کے ایک شخص کی شکایت پر اور دوسری کوتوالی نگر پولیس تھانہ،فیض آباد کے ایس ایچ اوکے ذریعےکی گئی شکایت کی بنیاد پر۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)