خبریں

دہلی فسادات سے متعلق اطلاعات فراہم کر نے سے پولیس کا انکار، کہا-اس سے لوگوں کی جان کو خطرہ

نارتھ -ایسٹ دہلی میں ہوئے فسادات  کو لے کر پولیس پر اٹھ رہے سوالوں کو لے کر دی  وائر نے آر ٹی آئی  کے تحت کئی درخواست  دائر کر کے اس دوران پولیس کے ذریعے لیے گئے فیصلے اور ان کی  کارروائی کے بارے  میں جانکاری مانگی تھی۔

24 فروری 2020 کو شمال مشرقی دہلی میں شرپسند۔ (فوٹو : رائٹرس)

24 فروری 2020 کو شمال مشرقی دہلی میں شرپسند۔ (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: اس سال فروری میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں شدید طور پر زخمی  پانچ لوگوں کو کئی پولیس والے بے رحمی  سے پیٹ رہے تھے اور ان پر قومی ترانہ گانے کا دباؤ ڈال رہے تھے۔اس ویڈیو کو نارتھ -ایسٹ دہلی کے کردمپوری میں 24 فروری کو شوٹ کیا گیا تھا، جب قومی راجدھانی کا یہ حصہ ہندو مسلم فسادات  میں جل رہا تھا۔

دو دن بعد ان میں سے ایک 23 سالہ  فیضان کی ہاسپٹل میں موت ہو گئی۔ یہ واحد ایسا معاملہ نہیں تھا۔ تین دن تک چلے اس فساد میں دہلی پولیس پر بربریت کے کئی الزام  لگے ہیں۔اس دوران کم سے کم 52 لوگوں کی موت ہوئی اور 200 سے زیادہ لوگ زخمی  ہوئے۔ کئی لوگوں کی ملکیت برباد کی گئی اور بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنے ہی شہر میں پناہ گزین بننا پڑا۔

اس فساد میں ایک پولیس اہلکار اور کچھ ہندوؤں کی بھی موت ہوئی، لیکن زیادہ تر متاثر مسلمان ہی ہیں۔ مقامی  لوگوں اور ان جگہوں کا دورہ کرنے والے صحافیوں ، سماجی کارکنوں اور دوسرے ماہرین کا الزام  ہے کہ اگر وقت رہتے پولیس نے فوری کارروائی کی ہوتی تو اس فساد کو روکا جا سکتا ہے۔

پولیس پر اٹھ رہے مختلف سوالوں کی تصدیق  کرنے کے لیے دی  وائر نے کئی آرٹی آئی  درخواست دائر کرکے فسادات  کے دوران پولیس کے ذریعے لیے گئے فیصلے اور ان کی کارروائی کے بارےمیں جانکاری مانگی تھی۔لیکن پولیس نے آر ٹی آئی ایکٹ کی اطلاع دینے سے چھوٹ سے متعلق دفعات  کا ‘غیرقانونی’ استعمال کرتے ہوئے اور اس سے لوگوں کی جان خطرے میں ہونے کا حوالہ دےکر دہلی فسادات  سے متعلق  کئی اہم  جانکاریوں کا انکشاف  کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

اس کے علاوہ پولیس نے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت متعین  30 دن اور زندگی اور موت کے معاملے میں 48 گھنٹے کے اندر جواب دینے کی مدت  کی  بھی خلاف ورزی  کی اورتقریباً 60 دن میں یہ غیر متعلق  جواب بھیجا ہے۔

آر ٹی آئی کے تحت پوچھے گئے سوال:

  1. 24 فروری 2020 سے 27 فروری 2020 کے بیچ نارتھ -ایسٹ علاقوں میں ہوئے تشددمیں دہلی پولیس نے کل کتنے بلیٹ فائر کئے؟ تشدد متاثرہ علاقوں کی حلقہ وارجانکاری  دی جائے۔

  2. 24 فروری 2020 سے 27 فروری 2020 کے بیچ نارتھ -ایسٹ علاقوں میں ہوئے تشددمیں دہلی پولیس نے کل کتنے آنسو گیس، ربر بلیٹ اور واٹر کینن کا استعمال کیا؟تشدد متاثرہ علاقوں کی حلقہ وار جانکاری دی جائے۔

  3. 24 فروری 2020 سے 27 فروری 2020 کے بیچ نارتھ -ایسٹ د علاقوں میں ہوئے تشدد میں دہلی پولیس کے کل کتنے جوانوں کی تعیناتی کی گئی تھی؟ تشدد متاثرہ علاقوں کی حلقہ وار اور دنوں کے لحاظ سے جانکاری دی جائے۔

  4. اس دوران تشددسے متعلق کل کتنے کال نارتھ -ایسٹ دہلی کے کن کن علاقوں سے آئے؟ ان کالس پر دہلی پولیس نے کیا کارروائی کی؟

  5. دہلی فسادات کے سبھی ملزمین کے نام، ایف آئی آر نمبر، تھانے کے نام کے ساتھ درج کرنے کی تاریخ کی جانکاری دی جائے۔

اس کے علاوہ اس تشددمیں مارے گئے اور زخمی ہوئے تمام افرادکے نام، پتے، عمر کی جانکاری مانگی گئی تھی۔ د ی وائر نے زخمی  ہوئے سبھی پولیس اہلکاروں  کے نام، ان کاعہدہ  اور زخم کی نوعیت سے متعلق  جانکاری مانگی تھی۔حالانکہ دہلی پولیس کی نارتھ –ایسٹ ضلع  کے پبلک انفارمیشن افسر اور ایڈیشنل ڈپٹی پولیس کمشنر ایم اے رضوی نے آر ٹی آئی کی دفعہ 8(1)(جی، جے اور ایچ) کا سہارا لیتے ہوئے ان سبھی نکات پر جانکاری دینے سے منع کر دیا۔

انہوں نے 30 مارچ کی تاریخ میں بھیجے آر ٹی آئی کے جواب میں کہا، ‘سبھی ایس ایچ او/این ای ڈی کے ذریعے دی گئی رپورٹ کے مطابق مانگی گئی جانکاری آر ٹی آئی ایکٹ 2005 کی دفعہ  8(1)(جی، جے اور ایچ) کے تحت نہیں دی جا سکتی ہے۔’

دہلی پولیس کا جواب

دہلی پولیس کا جواب

حالانکہ رضوی نے اپنے جواب میں اس کا ذکر نہیں کیا کہ آخر کس بنیاد پر مانگی گئی جانکاری اطلاع  دینے سے چھوٹ ملی دفعات  کے دائرے میں آتی ہے۔ایسا نہ کرنا آر ٹی آئی ایکٹ اور سینٹرل انفارمیشن کمیشن  کے کئی اہم احکامات کی شدید خلاف ورزی ہے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جانکاری دینے سے منع کرتے ہوئے اس کا ذکر کیا جائے کہ آخر کس بنیاد پر جانکاری نہیں دی جا رہی ہے۔

آر ٹی آئی کی دفعہ (1)(جی) کے تحت اگر جانکاری  کا انکشاف  کرنے سے کسی کی جان یاجسمانی تحفظ خطرے میں پڑ جائے یا تحفظ سے متعلق کاموں کے لیے بھروسے میں دی گئی کسی جانکاری یا مددکے ذرائع کی پہچان ہو جائے، تو ایسی جانکاری کا انکشاف  کرنے سے چھوٹ ملی  ہوئی ہے۔

وہیں دفعہ  8(1)(ایچ) کے تحت اگر کسی جانکاری کے انکشاف سے جانچ کی کارروائی یا مجرموں کا حزب متاثر ہوتا ہے تو ایسی جانکاری کو بھی دینے سے منع کیا گیا ہے۔اسی طرح دفعہ ا 8(1)(جے)کے تحت اگر کوئی ایسی جانکاری  ہے جو کہ نجی ہے اور جس کے انکشاف  کا عوامی مفادسے کوئی تعلق  نہیں ہے یا ایسی جانکاری دینے سے کسی کی پرائیویسی  میں دخل دینا ہوتا ہے تو اس طرح کی جانکاری  دینا بھی منع ہے۔

حالانکہ اس اہتمام  میں ایک شرط یہ ہے کہ اگر ایسی کوئی جانکاری پارلیامنٹ یا اسمبلی  کو دی جاتی ہے تو اس کوعوام  کو دینے سے منع نہیں کیا جا سکتا ہے۔دی  وائر نے ایسی کوئی جانکاری نہیں مانگی ہے جو کہ ان تینوں اہتماموں  کے دائرے میں آتی ہو۔ دہلی پولیس سے ان کے کے ذریعے چلائی گئی گولی، ربر بلیٹ، واٹر کینن اور متاثرہ حلقوں  میں تعینات کئے گئے پولیس اہلکاروں  کی جانکاری مانگی گئی تھی، جو کہ کسی بھی طرح سے نجی جانکاری نہیں ہے، نہ ہی یہ جانکاری  جانچ کومتاثر  کرےگی  اور نہ ہی اس جانکاری سے کسی کی جان کو خطرہ ہوگا۔

اس کے علاوہ فسادات  کے دوران مدد کے لیے لوگوں کے ذریعے پولس کو کی گئی کال اور پولیس کےذریعے ان کالس پر کی گئی کارروائی کی تفصیل کسی بھی طرح دفعہ  8(1) کی تینوں دفعات کے دائرے میں نہیں آئے گی ۔ یہ جانکاری عوامی مفاد سے متعلق ہے۔ایف آئی آراپنے آپ میں ایک عوامی  دستاویز ہوتا ہے لیکن حیرانی کی بات ہے کہ پولیس نے یہ جانکاری دینے سے بھی منع کر دیا۔ ہلاک ہونے والوں  اورزخمیوں سے متعلق جانکاری  بھی نہیں دی گئی، جو کہ پہلے ہی دہلی کے کئی ہاسپٹل  عوامی  کر چکے ہیں۔

سپریم کورٹ نے سال 1994 میں آر راج گوپال بنام تمل ناڈو معاملے میں اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ایف آئی آر جیسےعوامی  دستاویز میں درج کی گئی نجی جانکاری پرائیویسی  کے دائرے میں نہیں ہے۔ اس میں واحد شرط یہ ہے کہ اگر ایف آئی آرجنسی استحصال یا اغوا سے متعلق ہے تو خاتون  کی پہچان اجاگر نہیں کی جاتی ہے۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ کی نو ججوں کی بنچ نے اپنے تاریخی پرائیویسی  کے حق  والے فیصلے میں برقرار رکھا ہے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے 2016 کے یوتھ بار ایسوسی ایشن بنام حکومت ہند معاملے میں اہم ہدایت  دی تھی  کہ سرکاری ویب سائٹوں کے ذریعے ایف آئی آر کی جانکاری خود ہی دی جانی چاہیے۔ اس لیے ایف آئی آر سے متعلق جانکاری کو آر ٹی آئی کے تحت منع کرنا ان احکامات کی خلاف ورزی ہوگی۔

جب دی  وائر نے پوچھا کہ جو جانکاری خودپولیس کو عوامی  کرنی چاہیے، ایسی جانکاری کا بھی انکشاف کرنے سے انہوں نے کیوں منع کیا، اس پر ایم اے رضوی نے کہا، ‘مجھے جو جانکاری  دینی تھی، وہ میں نے دے دی۔ اگر آپ خوش نہیں تو اپیل فائل کریں۔ اپیل میں ہم دیکھیں گے کہ آپ کو جانکاری  دینی ہے یا نہیں۔’

دھیان رہے کہ یہ ضرور ہے کہ آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ  8(1) میں مختلف چیزوں سے جڑی جانکاری سے انکشاف کی چھوٹ دی گئی ہے، لیکن اس کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اگر چھوٹ ملی ہوئی جانکاری بھی بڑے پیمانے پر عوامی مفاد سے متعلق  ہے تو یہ جانکاری عوام  کو دی جانی چاہیے۔

آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(2) کے تحت اگر مانگی گئی جانکاری دفعہ 8(1) کے تحت چھوٹ کے دائرے میں ہے تب بھی اگر محفوظ مفاد کے مقابلےعوامی مفادزیادہ  ہے تو ایسی جانکاری کا انکشاف  ضرور کیا جانا چاہیے۔سابق سینٹرل انفارمیشن کمشنر شیلیش گاندھی کہتے ہیں کہ جانکاری  دینے سے منع کرنے کی  کوئی بنیاد نہیں ہے اور جواب سے پتہ چلتا ہے  کہ یہ صرف جانکاری  نہ دینے کی کوشش ہے۔ یہ تصور کرنا بھی محال  ہے کہ کس طرح سے ایسی جانکاری کا انکشاف کرنے سے کسی کی جان خطرے میں پڑ جائےگی۔

انہوں نے کہا، ‘پبلک انفارمیشن افسر کوجانکاری  دینے سے منع کرتے ہوئے اس کی وجہ بتانی  چاہیے تھی  کہ کس بنیاد پر وہ  ان دفعات  کا ذکر کر رہے ہیں۔ انہوں  نے من مانے ڈھنگ سے جانکاری  دینے سے منع کیا ہے۔‘دہلی پولیس نے یہی رویہ اس بارے میں دائر کی گئیں دوسری  آر ٹی آئی درخواستوں کے ساتھ بھی اپنایا ہے۔

کامن ویلتھ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ایکسیس ٹو انفارمیشن پروگرام کے پروگرام ہیڈ وینکٹیش نایک نے دہلی دنگے میں مارے گئے لوگوں، گرفتار کئے گئے لوگوں کے نام، دہلی پولیس کنٹرول روم کے نوٹس بورڈ پر دکھائے گئے گرفتار لوگوں کی مصدقہ کاپی، دنگے کے دوران سبھی پولیس اسٹیشنوں میں حراست میں لیے گئے لوگوں کے نام، پولیس اسٹیشن وار درج ایف آئی آر اور دہلی پولیس ویب سائٹ پر ایف آئی آر اپ لوڈ نہ کرنے کے بارے میں لیے گئے فیصلے سے متعلق سبھی دستاویزوں کی کاپی  مانگی تھی۔

لیکن پولیس نے دی وائر کو جیسا جواب دیا ہے ویسا ہی نایک کو بھی بھیجا اور جانکاری دینے سے منع کر دیا۔نایک نے کہا، ‘دنگے میں مارے گئے لوگوں  کی جانکاری متعلق ہاسپٹل  نے دی ہے، جس کا کئی میڈیا رپورٹس میں ذکر کیا گیا ہے۔ میں نے یہ جانکاری اس لئے مانگی تھی، تاکہ اس کی تصدیق کی جا سکے کہ جو خبریں میڈیا میں چل رہی ہیں وہ صحیح  ہیں یا نہیں۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘جہاں تک گرفتار کئے گئے اور حراست میں لیے گئے لوگوں کا سوال ہے یہ جانکاری ویسے بھی سی آر پی سی کی دفعہ41سی کے تحت خود سے عوامی  کی جانی چاہیے۔ سی آر پی سی میں کہیں بھی اس ضروری کام کو کرنے پر روک کے لیے کسی بھی طرح کی چھوٹ نہیں ہے۔ حراست سے جڑی جانکاری نہ دیناآئین  کے تحت حاصل آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔’

آر ٹی آئی کارکن  نے کہا کہ آر ٹی آئی ایکٹ پبلک انفارمیشن افسرکو یہ اجازت نہیں دیتی ہے کہ کہ اگر کوئی جانکاری سی آر پی سی کے تحت خود سے عوامی کی جانی چاہیے تو ایسی جانکاری کاانکشاف کرنے سے وہ منع کر دیں۔دی وائر نے سبھی آر ٹی آئی کے بارے میں پبلک انفارمیشن افسرکے جواب کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے۔