خبریں

کیا لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر دہلی پولیس مسلم کارکنان کو گرفتار کر رہی ہے؟

گرفتار کیے گئے لوگوں  میں کتنے مسلمان ہیں اور کتنے غیر مسلم اس کے متعلق کوئی واضح اعداد و شمار نہیں ہے لیکن جانکاروں کا ماننا ہے کہ ان میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ مقامی لوگوں نے بھی اسی طرح  کے الزا مات عائد کیے ہیں ۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

کورونا وائرس کے پیش نظر  ملک گیر لاک ڈاؤن کے باوجود مسلم سیاسی اورسماجی کارکنان کی گرفتاری کا سلسلہ جاری ہے۔ان کارکنان کی گرفتاری متنازعہ شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج اور دہلی کے شمال مشرقی ضلع میں تشدد کو انجام دینے کے الزام میں کی جا رہی ہے۔

اس سلسلے میں تازہ ترین گرفتاری گزشتہ ہفتےعمل میں آئی،جس میں دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالر اور اسٹوڈنٹ ایکٹوسٹ صفورہ زرگر کو دہلی کے جعفر آباد علاقے میں سی اے اے مخالف احتجاج کے لیے مسلم خواتین کو منظم کرنے  اور سڑک جام کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ زرگر ابھی پولیس کی حراست میں  ہیں  اور ان سے دہلی فساد  اور سی اے اے مخالف تحریک کے سلسلے میں تفتیش کی جارہی ہے۔

دراصل ،گزشتہ سال دسمبر میں پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں میں شہریت ترمیم بل کے پاس ہوکر قانون بننے سے قبل ہی ملک کے مختلف علاقوں میں اس کے خلاف مظاہرے شروع ہو چکے تھے اور یہ سلسلہ رواں سال کے مارچ  میں  ملک گیر لاک ڈاؤن سے قبل یک روزہ ”جنتا کرفیو“ سے کچھ دن پہلے تک جاری رہا۔ان مظاہروں کا ایک بڑا مرکز دہلی کی مختلف مسلم آبادیاں تھیں۔

شاہین باغ کے علاوہ  دہلی کے دوسرے علاقوں جیسے جامعہ ملیہ اسلامہ کیمپس ، جعفرآباداور حوض رانی سمیت دو درجن سے زیادہ مقامات پرمظاہرین سی اے اے ،این آر سی اور این پی آر کو مسترد کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مظاہرین کا ماننا تھا کہ یہ قوانین بنیادی طور پر آئین کے خلاف ہیں اور مسلمانوں کو پریشان کرنے اور ان سے ان کی شہریت چھیننے کی ایک سازش ہیں۔

ہندوستان کے مسلم شہریوں  کے علاوہ، حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی تنظیموں، ماہرین قانون  ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ سے  وابستہ تنظیموں اور ان کے ذمہ داران نے بھی اس سلسلے میں خدشہ کا اظہار کیاہے ۔ اس ضمن میں جامعہ کے اسٹوڈنٹس  اور الومینائی   جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی(جے سی سی) کے بینر تلے لگاتار سرگرم رہے اور کئی مہینوں تک جامعہ کیمپس کے مین گیٹ کے سامنے دن رات سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہرہ کرتے رہے۔ تاہم 21مارچ کو انہوں نے ایک پریس ریلیز جاری کر کے اعلان کیا کہ کورونا کے پیش نظر وہ اپنا مظاہرہ وقتی طور پر برخاست کر رہے ہیں البتہ جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے وہ اس کو پھر سے شروع کریں گے۔

اسی درمیان فروری کے آخر میں دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں مسلم مخالف فساد بھی ہوئے، جس میں 50 سے زائدافرادکی  جانیں گئیں اور ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ مرنے اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ ان کی دکانوں اور مکانو ں کے علاوہ، مساجد اور دوسری عبات گاہوں پر بھی حملہ ہوا۔

فساد کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے لیڈرکپل مشرا  نے پولیس کی موجودگی میں جعفرآباد میں متنازعہ شہریت ترمیم قانون کے خلاف  پرامن احتجاج کر رہی مسلم خواتین  کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی اور مقامی لوگوں کو تشدد کے لئے اکسایا۔لیکن اس سلسلے  میں ابھی تک مشرا کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ان پر کسی طرح کی کارروائی ہوئی ہے۔

اس کے برعکس دہلی فساد کی سازش کے الزام میں گزشتہ کچھ ہفتوں میں کئی سرکردہ مسلم سماجی اور سیاسی کارکنوں کی گرفتار ی ہو چکی ہے۔ زرگر کی گرفتاری سے قبل، جامعہ کے ایک دوسرے ریسرچ اسکالر اور اسٹوڈنٹ ایکٹوسٹ میران حیدر کو یکم اپریل کو اس سلسلہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ زرگر اور حیدر کا تعلق جے سی سی سے رہا ہے اور سی اے اے مخالف مظاہروں کی وہ قیادت کرتے رہے ہیں۔

میران حیدر، فوٹو بہ شکریہ : فیس بک

میران حیدر، فوٹو بہ شکریہ : فیس بک

دریں اثنا، بدھ کے روز انگریزی روزنامہ ’دی نیو انڈین ایکسپریس ‘میں شائع ایک خبر کے مطابق دہلی پولیس نے اس سلسلے میں  ان دونوں کے علاوہ پچاس سے زیادہ  اورجے سی سی ممبران کو طلب کیا ہے۔ دہلی پولیس کے جوائنٹ کمشنر (اسپیشل سیل) نیرج ٹھاکر نے نیو انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ،’’ابھی تک ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو شمال مشرقی دہلی فساد کے سلسلے میں نوٹس جاری کیا ہے، نہ کہ جامعہ کے معاملے میں۔“

غور طلب ہے کہ مہاتما گاندھی کی برسی پر30جنوری کو جب جامعہ کے اسٹوڈنٹس سی اے اے، این آر سی اور این پی کی مخالفت میں مارچ کر رہے تھے تو ان پر ایک غیر مسلم نوجوان (جس کا تعلق ہندو شدت پسند تنظیم سے بتایا جاتا ہے) نے فائرنگ کر دی جس میں جامعہ کا ایک طالب علم زخمی ہوا تھا۔اس سے قبل دسمبر کے مہینے میں جب مظاہرین مارچ کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو اس وقت بھی ان کو بری طرح مارا گیا تھا۔

زرگر اور حیدر سے قبل دو اور معروف سماجی کارکن خالد سیفی اور عشرت جہاں گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ ان  سب پر  تعزیرات ہند کی مختلف دفعات، جس میں سیڈیشن ، مجرمانہ سازش اور کئی سنگین جرائم کو انجام دینے کے الزام میں مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ ان کی ضمانت کی عرضیاں بھی خارج کی جا چکی ہیں۔

 دہلی فساد کے تعلق سے ابھی تک کتنے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اس سلسلہ میں کوئی آفیشیل اعداد و شمار موجود نہیں ہے۔الگ الگ مواقع سے الگ الگ اعداد و شمار بتائے جاتے رہے ہیں ۔ تاہم ذرائع کے حوالے سے روزنامہ انڈین ایکسپریس نے  سوموار خبر دی ہے کہ اس سلسلہ میں اب تک 802افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔کرائم برانچ جو کہ اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے، جس میں 42قتل کے معاملات ہیں،نے182 افرداد کو گرفتار کیا ہے جبکہ شمال مشرقی ضلع پولیس نے 620 افراد کو گرفتار کیا ہے۔182گرفتار ملزمین میں سے 50کی گرفتاری لاک ڈاؤن کے دوران عمل میں آئی۔


یہ بھی پڑھیں:دہلی فسادات سے متعلق اطلاعات فراہم کر نے سے پولیس کا انکار، کہا-اس سے لوگوں کی جان کو خطرہ


 گرفتار شدگان میں سے کتنے مسلمان ہیں اور کتنے غیر مسلم اس کے متعلق کوئی واضح اعداد و شمار نہیں ہے لیکن جانکاروں کا ماننا ہے کہ گرفتار کئے گئے لوگوں میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ مقامی لوگوں نے بھی اسی طرح  کے الزامات عائد کئے ہیں ۔کارواں میگزین میں ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق، فساد کے بعد علاقے میں مسلمانوں میں خوف و دہشت کا ماحول دیکھنے کو ملا۔

ان معاملات کی جانکار اور حیدرآباد کے نیشنل  یونیورسٹی آف لاء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر منیشا سیٹھی کا کہنا ہے کہ’’پولیس جس طرح سے گرفتار شدہ لوگوں کے نام ظاہر نہیں کر رہی ہے اس سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہ وہ کچھ چھپا رہی ہے۔‘‘وہ مزید کہتی ہیں کہ،’’ جس طرح سے جامعہ کے اسٹوڈنٹس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور سرکردہ مسلم کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ پولیس کے اصل نشانے پر مسلمان ہی ہیں۔ ‘‘ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ، ”ایسا لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ”اس پورے معاملے کو ایک بڑی سازش کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ان کارکنان کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جا سکے۔

 ہیومن رائٹس واچ کی ایک تازہ ترین رپورٹ ’’شوٹ دی ٹریٹرس : ڈسکری مینیشن اگینسٹ مسلمس انڈر انڈیا نیو سٹیزن شپ پالیسی‘‘ میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق، ’’جب بھی حکومت نواز طاقتوں کی طرف سے سی اے اے مخالف مظاہرین پر حملہ ہوا پولیس اور دوسرے سرکاری اہلکار مسلسل معاملہ میں دخل دینے میں ناکام رہے۔جبکہ پولیس نے نئے شہریت قوانین کے ناقدین کو گرفتار کرنے میں نہ صرف تیزی دکھائی بلکہ ان کے پر امن احتجاج کو ختم کرنے کے لیےجبر و جان لیوا طاقت کا استعمال کیا۔“

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

اس رپورٹ کی مصنفہ جئے شری بجوریا نے مجھے بتایا کہ؛ جہاں ایک دہلی پولیس بی جے پی لیڈران اور ان کے حمایتیوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے میں پوری طرح ناکام رہی ہے۔ باوجود اس کے ان لوگوں نے نئی شہریت پالیسوں کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والوں پر تشدد کی وکالت کی اور نفرت کا ماحول بنایا۔ وہیں دوسری جانب پولیس نے ان لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور کارروائی کرنے میں کوئی تاخیر نہیں جو کہ پر امن طریقے سے اپنا احتجاج درج کر رہے تھے۔ ” رپورٹ میں ایسے کئی واقعات کا ذکر ملتا ہے، جن سے دہلی فسادات کے دوران دہلی پولیس کا  متعصبانہ اور مسلم مخالف رویہ ظاہر ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ یونین ٹریٹری (مرکز کے زیرانتظام)ہونے کی وجہ سے دہلی پولیس مرکز کی بی جے پی حکومت کے تحت آتی ہے اور دہلی پولیس کے کمشنر براہ راست مرکزی وزارت داخلہ کو رپورٹ کرتے  ہیں ۔ غور طلب ہے کہ اسی وزارت داخلہ نے مارچ کے مہینے میں کپل مشرا کو ”وائی پلس“ سیکوریٹی فراہم کی تھی، جب انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ یہ سیکورٹی انہیں محض24 گھنٹے کے اندر فراہم کر دی گئی تھی۔مشرا اپنے  متنازعہ بیانات ، مسلم مخالف ٹوئٹس اور نفرت انگیز تقاریر کے لئے مشہور ہیں۔

فروری میں دہلی انتخابات کے دوران انہوں نے درجنوں اشتعال انگیز ٹوئٹس کئے، جن میں ایک ٹوئٹ میں انہوں نے پولنگ کی تاریخ کو ”بھارت اور پاکستان جنگ“ قرار دیا تھا۔ ان کے علاوہ دوسرے اہم بی جے پی لیڈران  مثلاً انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما، وغیرہ بھی مسلمانوں کے خلاف تشدد کا ماحول بناتے رہے ہیں۔

 اس پورے معاملے میں دہلی پولیس کا موقف جاننے کے لئے ہم نے  دہلی پولیس کے پی آر او ایم ایس رندھاوا کو کئی بار فون کیا لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔دریں اثنا، دہلی پولیس نے ایک آر ٹی آئی(حق اطلاعات قانون) کے تحت دہلی فساد کے متعلق پوچھے گئے سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔ شمال مشرقی ضلع پولیس  نے درخواست گزار  اور دی وائر  کےصحافی دھیرج مشرا کے سوالات کے جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے  آر ٹی قانون کی دفعہ 8(1)(جی، جے اور ایچ ) کا حوالہ دیا ہے۔

آر ٹی آئی قانون کے ان دفعات کے مطابق مانگے گئے اطلاعات کا جواب اس صورت میں نہیں دیا جا سکتا ہے جب مطلوبہ اطلاعات فراہم کرنے سے کسی کی جان کو خطرہ لاحق ہو یا پھر اس سے جانچ کی کارروائی یا اس سے کیس پر کوئی منفی اثر پڑ سکتا ہو۔  درخواست گزار نے پولیس کے اس جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے میں اپیل دائر کیا ہے۔