خبریں

لاک ڈاؤن: گڑگاؤں میں بےروزگاری اور معاشی تنگی سے پریشان مہاجر مزدور نے خودکشی کی

بہار کاباشندہ تھا اورپچھلے 8-10 سالوں سے گڑگاؤں میں رہ کر پینٹر کا کام کرتا تھا۔جمعرات کو ڈھائی ہزار روپے میں اپنا موبائل بیچ کر گھر کا راشن اور بچوں کے لیے پنکھا لایا تھا۔ اس کے بعد اس نے خودکشی کر لی۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: ملک میں کو روناانفیکشن سے لاک ڈاؤن میں گڑگاؤں میں ایک پینٹر نے معاشی تنگی اور بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی  کر لی۔امر اجالا کے مطابق، مرنے والے کی پہچان 30 سالہ مکیش کمار کے طور پر کی گئی ہے۔جمعرات کو وہ ڈھائی ہزار روپے میں اپنا موبائل بیچ کر گھر کا راشن اور بچوں کے لیے پنکھا لایا تھا۔ اس کے بعد اس نے خودکشی کر لی۔حالانکہ، اس کو پولیس محض خودکشی قرار دے رہی ہے۔

بہار کے باراں گاؤں کاباشندہ مکیش کمار پینٹر کا کام کرتا تھا۔ وہ پچھلے 8-10 سال سے گڑگاؤں میں رہ رہا تھا۔ فی الحال وہ اپنی بیوی  پونم ا ور  چار بچوں کے ساتھ سرسوتی کنج واقع جھگی میں رہ رہا تھا۔پونم نے بتایا کہ پچھلے 4-5 مہینے سے مکیش بےروزگار تھا۔ گھر چلانے کے لیے یومیہ مزدوری کا کام کرتا تھا۔ اس کی وجہ سےاس پر کافی قرض بھی ہو گیا تھا۔ لاک ڈاؤن کے بعد وہ گھر پر ہی تھا، کام نہ ہونے کے وجہ سےان کے پاس پیسے بھی نہیں تھے۔ انہیں امید تھی کہ 14 اپریل کو لاک ڈاؤن کھل جائےگا، لیکن ایسا ہو نہیں پایا۔ اس وجہ سے مکیش ذہنی طور پر کافی پریشان تھا۔

پونم نے بتایا کہ جمعرات کو مکیش نے اپنا موبائل کسی کو ڈھائی ہزار روپے میں بیچ دیا اور ان پیسوں سے راشن اور بچوں کے لیے ایک پنکھا لے کر آیا۔ دوپہر کو اس کی بیوی  پاس ہی کی جھگی میں رہنے والے اپنےوالدین  کے پاس گئی، تو مکیش نے پھانسی لگاکر خودکشی کر لی۔

اطلاع  کے بعد سیکٹر 53 تھانہ پولیس کی ٹیم موقع پر پہنچی اور لاش کا پوسٹ مارٹم کراکر اہل خانہ  کو سونپ دیا۔پولیس نے ذہنی طور پر پریشانی کو موت کی وجہ کو مانتے ہوئے آئی پی سی کی دفعہ 174 کے تحت کارروائی کر کے خانہ پری کر دی۔متاثرہ فیملی  نے اس موت کو لےکر کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے پاس کھانے کا راشن ہوتا، تو مکیش زندہ  ہوتا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق،ضلع انتظامیہ کے افسروں نے بھی مکیش کے ذہنی  طور پر پریشان ہونے کو وجہ مانا۔ضلع کے حکام نے کہا، بیماری پھیلنے کی وجہ سےوہ تھوڑا پریشان تھا۔ کھانے کی فراہمی  کوئی پریشانی  نہیں تھی کیونکہ فیملی کے پاس ابھی بھی کچھ کھانا ہے، اور پاس میں ایک کھانا بانٹنے کامرکز ہے۔

حالانکہ، سرسوتی کنج میں رہنے والے فیروز کہتے ہیں کہ وہ لوگ باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ کچھ پولیس والے بہت ہی غصہ میں رہتےہیں۔ایک افسر نے کہا، ‘اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو پوری کی جائےگی۔ کھانا بانٹنے کی کوششوں کو بڑھایا جائےگا۔’