خبریں

لاک ڈاؤن: سرکاری مدد کے فقدان میں سیکس ورکرس کی مشکلات میں اضافہ

کو رونا انفیکشن کے مدنظر ہوئے لاک ڈاؤن نے ہزاروں مزدوروں کے لیےروزگارکا بحران کھڑا دیا ہے، ان کی روزمرہ کی زندگی مشکل ہو گئی ہے۔ ان میں سیکس ورکرس بھی شامل ہیں۔

علامتی تصویر۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

علامتی تصویر۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی کو رونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ملک گیر  لاک ڈاؤن کا سماج کے لگ بھگ ہر طبقے پر اثر پڑا ہے۔ مزدوروں، کسانوں سمیت چھوٹے کاروباری روزگار کے بحران  سے جوجھ رہے ہیں لیکن سماج کا ایک ایسا طبقہ بھی ہے، جس کی پریشانیوں پر سرکار اور سماج دونوں کی ہی نظر نہیں ہے۔

یہ ہیں ملک کے سیکس ورکرس، جن میں خواتین، مردوں  سے لے کر ٹرانس جینڈر تک شامل ہیں لیکن ان کی خبرلینے والا کوئی نہیں ہے۔ سرکار کی پالیسیوں اور امدادی پروگراموں  تک میں انہیں شامل نہیں کیا جاتا۔لاک ڈاؤن سے ان سیکس ورکرس کی زندگی ٹھہر گئی ہے۔ لاک ڈاؤن کے بیچ ان کے سامنے روزگارکا کا بحران  تو بنا ہی ہوا ہے،  ان کے پاس پیسہ ہے، نہ وسائل ، نہ راشن اور نہ ہی سرکاری مدد۔

دہلی میں گزشتہ  دس سالوں سے سیکس ور کر کے طور پر کام کر رہیں مدھو بتاتی ہیں،‘لاک ڈاؤن کا فیصلہ سرکار کا ہے تو سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماج کے ہر طبقے  کی ضروریات کا خیال رکھے۔ ہم سماج میں سب سے نچلے طبقے کے لوگ ہیں، عام  دنوں میں ایک دن میں جتنے لوگ آتے تھے، ان سے کمائی ہوتی تھی اور پھر انہیں پیسوں سے گھر میں راشن اور ضروری سامان آتا تھا۔ میرے گھر میں دو بچہ ہیں، ان کی ضروریات بھی ہیں۔ ہمارے پاس راشن کارڈ بھی نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ کبھی بنوانے کی کوشش نہیں کی لیکن راشن کارڈ بنوانے کے لیے جو کاغذ چاہیے، وہ نہیں ہے۔’

کبھی نمک سے، تو کبھی ایک وقت کھانا کھانے کو مجبور

لاک ڈاؤن کے بیچ سیکس ورکرس کی ایک بڑی تعداد بھوک مری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ان کے پاس کھانے کے لیے کھانا اور راشن خریدنے کے لیے پیسہ نہیں ہے۔

مدھو کہتی ہیں،‘کبھی نمک روٹی، تو کبھی نمک چاول کھاکر دن کاٹ رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے چھوٹی بیٹی کی طبیعت خراب ہو گئی تھی، اتنے پیسے بھی نہیں ہے کہ دوا کریں۔ کام دھندا سب بند ہے، امید کر رہی ہوں کہ جلدی سے سب ٹھیک ہو جائے اور کام دوبارہ شروع کر سکوں۔’

ایک دوسری  سیکس ورکر پشپا بتاتی ہیں،‘کیا کھا رہے ہیں، مت پوچھیے۔ ایسے دن بھی ہیں، جب صرف ایک وقت کھانا کھایا جا رہا ہے۔ رسوئی کا راشن تو بہت پہلے ختم ہو چکا۔ ایک ادارہ  ہے،اے آئی این ایس ڈبلیو جن سے بیچ بیچ میں راشن ملتا رہا ہے۔ سرکار کو وقت ملے تو کبھی ہمارے گھروں کی حالت دیکھ کر جائے کہ کس طرح ہمارے بچہ بھوک میں جی رہے ہیں۔’

منسٹری آف وومین اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ملک میں لگ بھگ 30 لاکھ سیکس ورکرس ہیں۔ وہیں، ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان  میں لگ بھگ دو کروڑ سیکس ورکر ہیں، جو کسی نہ کسی طرح  سے اس دھندے سے جڑی ہیں۔

دہلی کے جی بی روڈ جیسے ریڈ لائٹ ایریا میں سیکس ورکر کے طور پر  کرنے والی خواتین  کی تنگ  کوٹھریوں میں بے شک صاف صفائی اور مناسب روشنی کا انتظام  نہیں ہے، لیکن ان کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں  وہاں راشن اور ضروری سامان دستیاب  کرا رہی ہیں۔

 لیکن ان سیکس ورکرس کا کیا جو کسی انجان جگہ یا سڑکوں سے اپنا کام کرتی ہیں؟ ان کا ریکارڈ این جی او کے پاس بھی نہیں ہوتا ہے اس لیے ان تک راشن یا اور کسی طرح کی مدد پہنچانا اور مشکل ہو جاتا ہے۔

گھروں سڑکوں سےکام کرنے والی  سیکس ورکرس پر دوہری مار

ملک  میں سیکس ورکرس کے حقوق  کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم آل انڈیا نیٹ ورک آف سیکس ورکرس ( اے آئی این ایس ڈبلیو) کا کہنا ہے کہ اس کمیونٹی کے لیے سرکار کا رویہ بےحد تشویشناک ہے۔

اے آئی این ایس ڈبلیو کی صدرکسم دی  وائر سے کہتی ہیں،‘طوائف خانوں یا ریڈ لائٹ ایریا میں کام کرنے والی سیکس ورکرس کے مقابلے گھروں سے کام کرنے والی سیکس ورکرس کی حالت زیادہ خراب ہے کیونکہ ان تک پہنچ بنانا بہت مشکل ہے۔ سیکس ورکرس کے حقوق  کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں  ان تک نہیں پہنچ پا رہی ہیں، جس کی وجہ ہے کہ ان کی زیادہ پختہ جانکاری نہیں ہے کہ وہ  کہاں سے کام کر رہی ہیں۔ ان تک این جی او کے ذریعے دستیاب کرایا جا رہا راشن بھی نہیں پہنچ پا رہا ہے۔’

وہ آگے بتاتی ہیں،‘ہماری تنظیم سے ملک  بھر سے لگ بھگ دو لاکھ سیکس ورکر جڑی ہیں، جن میں خواتین ، مرداور ٹرانس جینڈر سبھی ہیں۔ سرکار کو ان ورکرس کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔سرکار کی پالیسیوں  میں آپ کو سیکس ورکرس کہیں نظر نہیں آئیں گے۔تحریک یا مظاہرہ  کرکے مزدوروں اور کسانوں کو اقتصادی  اور دوسری  طرح کی مدد مل بھی جاتی ہے لیکن یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔’

ریشما بہار سے بیس سال پہلے دہلی آکر بسی تھیں اور یہاں سیکس ورکر کے طور پرکام کرتی ہیں۔ وہ کسم کی بات سے اتفاق رکھتی ہیں۔

وہ  کہتی ہیں،‘مزدوروں، کسانوں اور صفائی ملازمین  کو مظاہرہ  کرنے کے بعد سرکار سے تھوڑی بہت مدد مل جاتی ہے لیکن ہماری خبرکوئی نہیں لیتا۔ سماج اور سرکار کی نظروں میں ہمارا کوئی موجود نہیں ہے لیکن ہم بھی اپنا گھر پریوار چلا رہے ہیں، ہم بھی روزانہ کما کر کھانے والوں میں سے ہیں لیکن ہماری گنتی کہیں نہیں ہوتی۔’

راشن کارڈ نہ ہونے سے مشکلات میں اضافہ

مدھو اسٹریٹ بیسڈ سیکس ورکر ہیں، وہ کہتی ہیں،‘ہمارے پاس راشن کارڈ نہیں ہے، تو راشن نہیں ملتا۔ لاک ڈاؤن کے بیچ ایک بار بھی سرکار کو ہمارا خیال نہیں آیا۔ ہمیں الگ الگ این جی او کے ذریعے راشن اور ضروری سامان مل رہا ہے۔اقتصادی مدد بھی ملی ہے لیکن سرکار کی طرف سے کچھ نہیں۔’

مدھو کہتی ہیں،‘شوہر سالوں پہلے ہمیں چھوڑکر چلے گئے۔ دودو بیٹیاں ہیں۔ بڑی بیٹی بی اے فائنل ایئر میں ہے، اسی پیشہ کے ذریعے کما کما کر بیٹیوں کو پڑھا رہی ہوں۔ اتنے سالوں میں سرکار کی اتنی پالیسیاں  بنی ہیں  لیکن ہمیں  ایک پیسہ تک ان منصوبوں سے کبھی نہیں ملا۔ اس کا مطلب ہے کہ سرکار ہمارے بارے میں سوچتی تک نہیں ہے، ان کے لیے ہم جسم بیچنے والی دھندے والیاں ہیں!’

وہ آگے جوڑتی ہیں،‘دو بیٹیاں ہیں، ان کی شادی بھی کرنی ہے، اس کے لیے بھی بچت کر رہی ہوں لیکن اب کام ہی چوپٹ ہے۔ کھانے کے لیے جدوجہد کرنی  پڑ رہی ہے۔ کیا گارنٹی ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد زندگی دوبارہ پٹری پر آ جائیگی۔’

عالمی سطح  پر سیکس ورکرس کے حقوق  اور ان کے صحت  کے لیے کام کرنے والی تنظیم  گلوبل نیٹ ورک آف سیکس ورک پروجیکٹس (این ایس ڈبلیوپی)کا کہنا ہے کہ کو رونا وائرس کو لےکر دنیا کے کئی ملکوں  کی طرح ہندوستا ن میں بھی لاک ڈاؤن ہے، جس سے سیکس ورکرس کی کمائی کا ذریعہ ختم ہو گیا ہے، وہ روزگار کو لےکر جوجھ رہے ہیں لیکن سرکاریں کچھ نہیں کر رہیں۔

اس تنظیم کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش نے اپنے ملک  میں سیکس ورکرس کے لیے کھانے کا انتظام کیا ہے لیکن ہندوستان  میں ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔

فیملی  سے چھپ کر سیکس ورکر کے طور پر کام کر رہی رہیں خواتین تناؤ میں

رما(بدلا ہوا نام)مشرقی  دہلی میں اپنی  فیملی  کے ساتھ رہتی ہیں، ان کے تین بچہ ہیں، جو اسکول جاتے ہیں۔ فیملی  میں بچوں کے علاوہ ماں ہے۔ ان سبھی کو رما کے کام کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔

فی الحال رما ذہنی  طور پر بےحد پریشان ہیں۔ وہ کہتی ہیں،‘میرے شوہر کی پانچ سال پہلے موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد سے میں نے گھر کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ ماں دمے کی مریض  ہیں۔ بچہ اسکول جاتے ہیں۔ ان کے لیے پیسہ چاہیے تھا اور یہی وجہ تھی کہ میں اس کام سے جڑ گئی۔’

وہ آگے کہتی ہیں،‘میں نے ماں اور بچوں کو بتایا ہے کہ میں کسی فیکٹری میں کام کرتی ہوں لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب بند ہے۔ رسوئی بالکل خالی ہے، ماں کو لگتا ہے کہ سیلری تو مل رہی ہوگی لیکن میری حالت  اب ایسی ہے کہ میں کسی کو کچھ بتا بھی نہیں سکتی۔’

رما کویہ ڈر یہ بھی ہے کہ کہیں گھر میں کسی کو ان کے کام کے بارے میں پتہ نہ چل جائے۔ وہ کہتی ہیں،‘عام طور پر لوگوں کی سیکس ورکرس کو عام انسان کے طور پر دیکھنے کی عادت نہیں ہے۔ لوگوں کے من میں ہمارے لیے نفرت ہمیشہ سے رہی ہے۔ ہر سیکس ورکر بے فکرہوکر یہ کام نہیں کر رہی ہے۔ یہی وجہ  ہے کہ ایک بڑی تعداد ان سیکس ورکرس کی بھی ہے، جو اپنے بچوں اورفیملی  کی خاطر سماج کی نظروں سے چھپ کر یہ کام کرتی ہیں۔’

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

سیکس ورکرس تک راشن پہنچانا بھی ہے چیلنج

پشپا یوں تو ایک سیکس ورکر ہیں، لیکن سماجی خدمات سے جڑی رہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں،‘میں پریم نگر میں رہتی ہوں، ایک این جی او کے ذریعے یہاں آس پاس کے سیکس ورکرس کے لیے راشن کا سامان میرے گھر آتا ہے اور ہم یہیں سے راشن بانٹتے ہیں۔ حالت  یہ ہے کہ جس دن میرے گھر راشن اکٹھا ہوتا ہے، 100 سے 150 لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہو جاتی ہے، جس میں سیکس ورکرس ہوتی ہیں۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ پولیس نے آکر مجھے بتایا کہ میں سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل  نہیں کر رہی ہوں اور اس طرح راشن بانٹ کر ماحول خراب نہیں کر سکتی۔’

وہ کہتی ہیں، ‘ایسی کئی سیکس ورکر ہیں، جن کے گھروں کے بارے میں ہمیں جانکاری نہیں ہے، ایسے میں ان تک پہنچ بنانا بہت مشکل ہے۔رابطوں کے ذریعے سبھی سیکس ورکرس کو یہاں بلاکر انہیں راشن دیا جاتا ہے لیکن پولیس کے رویے کو دیکھتے ہوئے راشن لینے کے لیے کم ہی لوگ پہنچ رہے ہیں۔ ہرایک سیکس ورکر تک پہنچ کر انہیں راشن مہیا کرانا ناممکن ہے اور سیکس ورکرس جب ایک طے شدہ جگہ  پر راشن لینے پہنچتے ہیں تو ان پر پولیس سوشل ڈسٹنسنگ کی خلاف ورزی کاالزام  لگا رہی ہے۔’

یہ پوچھنے پر کہ پولیس کی دخل اندازی کے بعد اب ضرورتمندوں کو راشن کیسے دیا جا رہا ہے؟ اس پر وہ بتاتی ہیں، ‘ہفتے میں دو دن راشن بانٹا جا رہا ہے، جس میں اب ہم سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل  کر رہے ہیں۔ پولیس کے بھی سمجھانے کے بعد اب ایک بار میں محدود تعداد میں لوگ پہنچ رہے ہیں جنہیں راشن نہیں مل پاتا انہیں اگلے دن دے دیا جاتا ہے۔’

پشپا کہتی ہیں،‘اس کے ساتھ ہی ایسی کئی سیکس ورکرس ہیں، جو ایچ آئی وی اور شوگر جیسی بیماریوں سے جوجھ رہی ہیں اور جنہیں مسلسل  علاج  اور دوائیوں کی ضرورت ہے۔ لاک ڈاؤن کی حالت  میں انہیں نہ دوائیاں مل پا رہی ہیں اور نہ ہی ان کا علاج ہو پا رہا ہے۔ کچھ ایسی ہی حالت ٹرانس جینڈر کمیونٹی  کی ہے بلکہ خواتین  اورمردوں کے مقابلے ٹرانس جینڈر کمیونٹی  کی پریشانیاں  زیادہ پیچیدہ  ہیں۔ ٹرانس جینڈر سیکس ورکرس کے سامنے اختیارات  بہت کم ہیں۔’

‘لاک ڈاؤن کے بعد بھی فوراً راحت نہیں ملنے والی’

لاک ڈاؤن کے بعد کے امکانات پر  اے آئی این ایس ڈبلیو کی صدرکسم کہتی ہیں، ‘ان سیکس ورکرس کے لیے مشکلیں یہیں ختم نہیں ہوگی۔ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد بھی کچھ وقت تک لوگوں میں کو رونا کا ڈر رہےگا، جو ان کے کام کو متاثر کرےگا۔ ان سیکس ورکر کے پاس آنے میں لوگ ڈریں گے، تو کچھ ہچکچاہٹ ان کے من میں بھی ہوگی کہ کہیں گراہک کے طور پر ان کے پاس آ رہا شخص بیماری لےکر تو نہیں آ رہا۔’

وہ کہتی ہیں،‘لاک ڈاؤن اور بڑھنے اور اس کے ختم ہونے کے بعد مشکلات  اور بڑھےگی۔ فکر  ان خواتین  کی زیادہ  ہیں جو کرایہ کے مکانوں میں رہتی ہیں، جن پر گھر کی ذمہ داری ہے، جن کے بچہ پڑھ رہے ہیں۔ وہ  کہاں سے کرایہ دیں گی؟ کیسے بچوں کی پرورش کریں گی؟ کئی سیکس ورکرس قرض کے پیسوں سے کام چلا رہی ہیں، جو انہوں نے سودپر لیے ہیں۔’

سیکس ورک کو روزگار کا درجہ ملے تو شاید سرکاری مدد ملے

کسم کہتی ہیں،‘ہمارے ملک  میں ایک طے شدہ  دائرے میں ہی سیکس ورک کو منظوری حاصل  ہے لیکن اس کو ابھی تک روزگار کا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔ آپ کسی کوٹھے پر جا سکتے ہیں، کسی ریڈ لائٹ سے کسی سیکس ورکر کو کسی کمرے یا ہوٹل میں لےکر جا سکتے ہیں لیکن جب اس کو روزگار کے طو رپر دیکھنے کی بات آتی ہے تو ہم سبھی منھ بنانے لگتے ہیں۔’

کسم کے مطابق یہی وجہ ہے کہ سیکس ورکرس کی اقتصادی  حالت بہت قابل رحم ہے۔ وہ  بتاتی ہیں کہ ان کی تنظیم  نے اس وبا کے بیچ 16 ریاستوں  کےتقریباً 150 سیکس ورکر کے اکاؤنٹ  میں تقریباً 3000 روپے کی رقم  جمع کرائی ہے۔

وہ کہتی ہیں،‘اکیلی سیکس ورکر تو پھر بھی کام چلالے گی  لیکن گھر پریوار چلانے والی سیکس ورکر کے لیے دقت ہے اس لیے ہماری مہم سیکس ورک کو روزگار کا درجہ دلوانا ہے۔ ایسی امید ہے کہ روزگار کا درجہ ملنے سے سیکس ورکرس کو سرکار سے اقتصادی  مدد ملنی شروع ہو جائےگی اور سرکاری منصوبوں  میں ان کو شامل کیا جائےگا۔’