خبریں

کورونا وائرس: مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے واقعات پر سابق نوکر شاہوں نے وزرائے اعلیٰ کو خط لکھا

تقریباً 101 نوکرشاہوں نے مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے اپیل  کی ہے کہ وہ ریاست میں کسی بھی کمیونٹی  کے سماجی بائیکاٹ کو روکنے کی ہدایت دیں۔ ساتھ ہی یہ یقینی بنایا جائے کہ سبھی ضرورت مندوں کو یکساں علاج اورہاسپٹل  کی سہولیات، راشن اور مالی امداد ملے۔

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سو سے زیادہ  سابق  نوکرشاہوں نے مختلف ریاستوں  کے وزرائے اعلیٰ کوخط لکھ کر ملک  کے الگ الگ حصوں میں مسلمانوں کے ‘استحصال ’ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے دہلی کے نظام الدین علاقے میں گزشتہ  مارچ مہینے میں تبلیغی جماعت کے ذریعے اجتماع کرنے کو ‘ایک بھٹکا ہوا اور قابل مذمت’ کام قرار دیا،اس کےساتھ ہی مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے ایک گروپ کے ذریعےمبینہ طور پر نفرت پھیلانے کے کام  کو بالکل غیرذمہ دارانہ  اورقابل مذمت بتایا۔

سابق نوکرشاہوں نے ایک کھلے خط میں لکھا ہے کہ اس وبا کی وجہ سےپیدا ہوئے ڈراورتحفظ  کا استعمال مختلف مقامات پر مسلمانوں کو عوامی مقامات سے دور رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ باقی لوگوں کومبینہ طور پر بچایا جائے۔انہوں نے کہا ہے کہ پوراملک غیر متوقع  صدمے سے گزر رہا ہے۔ خط کے مطابق، ‘اس وبا نے ہمیں جو چیلنج دیا ہے اس سے ہم متحد ہو کراورایک دوسرے کی مدد کرکے ہی لڑ سکتے ہیں اور اس سے نجات پا سکتے ہیں۔’

انہوں نے ان وزرائے اعلیٰ کی تعریف کی جو عام طور پر اور بالخصو ص اس وبا کےپس منظر میں مضبوطی سے سیکولر  بنے رہے ہیں۔ان 101 سابق  نوکرشاہوں نے کہا کہ وہ کسی سیاسی نظریے سے جڑے نہیں ہیں۔خط  میں کہا گیا ہے، ‘بہت دکھ کے ساتھ ہم ملک  کے کچھ حصوں میں خاص طور پر نئی دہلی کے نظام الدین میں مارچ میں تبلیغی جماعت کے ذریعےاجتماع کرنے کے بعد ہوئے مسلمانوں کے استحصال  کی خبر کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں۔’

پی ٹی آئی کے مطابق خط میں کہا، ‘کئی جگہوں پر مسلمان اسپتالوں اورہیلتھ سینٹروں  سے بھاگ رہے ہیں، افواہیں پھیلانے کی خبر آ رہی ہیں۔ یہ بے حد افسوس ناک  ہے۔’کہا گیا ہے کہ کئی جگہوں سے خبریں آ رہی ہیں کہ کو رونابحران  سے نپٹنے کے لیے سرکارکے ذریعے دیے جا رہے خصوصی راحت سہولیات سے بھی مسلمانوں کو محروم  کیا جا رہا ہے۔

نوکرشاہوں نے وزرائے اعلیٰ سے کہا، ‘ہم سب آپ سے ریاست  میں سبھی لوگوں سے سوشل ڈسٹنسنگ، چہرہ ڈھکنے اور ہاتھ دھونے جیسے احکامات کی پیروی کو یقینی بنوانے کی اپیل کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ان افواہوں کی تردید کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک  میں کسی خاص کمیونٹی  میں زیادہ انفیکشن  ہے۔’

سابق  نوکرشاہوں نے کہا کہ روایتی  طور پر ہندوستان  سے خوشگوار تعلق رکھنے والے کچھ مسلم ممالک  نے بھی حالیہ واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے ۔انہوں نے لکھا، ‘لاکھوں ہندوستانی  دوسرے ممالک میں رہتے ہیں اور نوکری کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے سلوک اور راحت کے کاموں سے یقینی بنانا ہوگا کہ ہندوستان  میں اقلیتوں  کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے ان ممالک  کی غللط فہمیاں دور ہوں گی اور بڑے پیمانے پر وہاں رہ رہے ہندوستانیوں  پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔’

نوکرشاہوں نے وزرائے اعلیٰ سے اپیل کی ہے کہ وہ سبھی انتظامیہ کو ریاست میں کسی بھی کمیونٹی  کے سماجی بائیکاٹ  کو روکنے کی ہدایت  دیں۔ ساتھ ہی یہ یقینی بنایا جائے کہ سبھی ضرورت مندوں کویکساں علاج اور اسپتال کی سہولیات، راشن اور مالی امداد ملے۔خط  لکھنے والوں میں سابق کابینہ سکریٹری کے ایم چندرشیکھر، سابق  آئی پی ایس آفیسر اے ایس دلت اور جولیو ربیرو، سابق انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ، دلی کے سابق گورنر نجیب جنگ اورسابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی وغیرہ  شامل ہیں۔

معلوم ہو کہ کو رونا وائرس کو لےکر تبلیغی جماعت کا معاملہ سامنے آنے بعد سے سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی افواہ اور نفرت کا اثر ملک  کے مختلف  حصوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔کہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے سبزی والے کو گلی میں گھسنے نہیں دیا جا رہا، کہیں ان سے آدھار کارڈ مانگا جا رہا، کہیں زبردستی لوگوں نے مسلمانوں کی دکانیں بند کرا دی ہیں  تو کہیں ہندو پھیری والوں کے ٹھیلے پر بھگوا جھنڈا لگا دیا جا رہا ہے، تاکہ اس کی پہچان کی جا سکے۔

ایسے واقعات سے پریشان ہوکر گزشتہ  دنوں اتر پردیش کے مہوبا کے مسلمان  سبزی فروشوں نے ڈی ایم کومیمورنڈم  سونپا اور کارروائی کی مانگ کی تھی۔این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق، دہلی کی ایک کالونی کے ایک وائرل ویڈیو میں ایک شخص  سبزی والے سے آدھار کارڈ مانگ رہا ہے۔ جب سبزی والا آدھار کارڈ نہیں دے پاتا ہے تو وہ شخص اس کو کالونی سے باہر نکال دیتا ہے اور کہتا ہے اگلی بار تب آنا جب پاس میں آدھار کارڈ ہو۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)