خبریں

بہار میں پہچان کے لیے دکانوں پر بھگوا جھنڈا بانٹنے کے الزام میں بجرنگ دل کے ممبروں پر کیس

بہار میں نالندہ ضلع کے بہار شریف کا معاملہ۔ پولیس نے بتایا کہ آئی پی سی کی مختلف دفعات میں کیس درج کئے جانے کے بعد ملزمین  کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی جا رہی ہے۔

بہار کے نالندہ ضلع کے بہار شریف میں دکانوں پر لگائے گئے بھگوا جھنڈے، جس کو بعد میں انتظامیہ  نے اتروا دیا۔ (فوٹو: ویڈیو گریب)

بہار کے نالندہ ضلع کے بہار شریف میں دکانوں پر لگائے گئے بھگوا جھنڈے، جس کو بعد میں انتظامیہ  نے اتروا دیا۔ (فوٹو: ویڈیو گریب)

پٹنہ: بہار کے وزیر اعلیٰ  نتیش کمار کے ہوم ڈسٹرکٹ نالندہ کے بہار شریف میں بازار میں ہندو دکانداروں کی شناخت کے لیے انہیں بھگوا جھنڈے بانٹنے کو لےکر پولیس نے بجرنگ دل کے دو ممبروں ا ور5 نامعلوم  لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔گزشتہ 20 اپریل کو بہار شریف کے بی ڈی او راجیو رنجن کی تحریری  شکایت کی بنیاد پر یہ ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ شکایت کے مطابق، بی ڈی او راجیو رنجن کو 18 اپریل کی دوپہر 12:15 بجے سرکل افسرنے اطلاع  دی تھی کہ لہیری تھانہ حلقہ  کے بھراوپر چوک کے پاس ہندوؤں کی پھل، سبزی، راشن اور دوسری  دکانوں پر بجرنگ دل، نالندہ کے ممبروں کے ذریعے بھگوا جھنڈا لگایا جا رہا ہے۔

الزام  ہے کہ ہندو کمیونٹی  کے لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی ضرورت کی چیزیں انہیں دکانوں سے خریدیں، جن پر بھگوا جھنڈا لگا ہو یا ہندوؤں کی ہوں۔دہلی کے نظام الدین واقع تبلیغی جماعت کے مرکز میں ہوئے اجتماع کے کو رونا وائرس انفیکشن  کے بڑے مرکز کے طور پر ابھرنے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک  کی خبریں ملک  کے کئی حصوں سے سامنے آئی ہیں۔

بہرحال شکایت کے مطابق، حکام  کی ہدایت پر معاملے  کی تصدیق کے لیے 12:25 بجے بی ڈی او بھراوپر چوک پہنچے تو دیکھا کہ بجرنگ دل (نالندہ) کے کندن کمار، دھیرج کمار اور پانچ نامعلوم  ممبر ہندو کمیونٹی  کے لوگوں کی سبزی، پھل اور کرانہ  دکانوں پر بھگوا جھنڈا لگا رہے ہیں۔ وہ ہندوؤں سے یہ بھی اپیل کر رہے تھے کہ وہ انہیں دکانوں سے سامان خریدیں، جہاں بھگوا جھنڈا لگا ہو یا وہ دکانیں ہندوؤں کی ہوں۔

بی ڈی او نے ماحول خراب ہونے کے خدشہ کا ا ظہار کرتے ہوئے لکھا، ‘ان کے اس طرح کے کام سےفرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خراب ہونے کا امکان ہے اور فرقہ وارانہ کشیدگی  ہو سکتی ہے۔’درخواست  میں ایک ٹوئٹر ہینڈل پر بھگوا جھنڈا لگانے کی تصویر پوسٹ کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ حالانکہ، ایف آئی آر ہونے کے بعد ٹوئٹر اکاؤنٹ ڈی لٹ کر دیا گیا ہے۔

درخواست کی بنیاد پر لہیری تھانے کی پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ147، 149، 188، 153(اے)، 295(اے) کے تحت معاملہ  درج کیا ہے۔ سب انسپکٹر بریندر رائے معاملے کی جانچ کر رہے ہیں۔لہیری تھانے کے ایس ایچ او ویریندر یادو نے بتایا،‘معاملے کی جانکاری  پر جب حکام  وہاں پہنچے تو دیکھا کہ 100 سے زیادہ  دکانوں پر بھگوا جھنڈے لگائے گئے ہیں۔ وہ  لوگ دکانوں پر زبردستی جھنڈا لگا رہے تھے۔ ان کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی جا رہی ہے۔’

اس واقعہ  کو لےکر بہار شریف کے بھراوپر چوک کے کئی دکانداروں سے بات کی، جنہیں جھنڈا دیا گیا تھا۔ دکانداروں نے بتایا کہ دو لوگ موٹر سائیکل سے آئے تھے اور 4-5 لوگ پیدل چل رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں بہت سارا بھگوا جھنڈا تھا، جس کو دکانداروں کا نام پوچھ کر بانٹ رہے تھے۔ اگر کوئی دکاندار مسلم نکلتا، تو اسے جھنڈا نہیں دیتے تھے۔

سرجیت کمار بھراوپر چوک پر سبزی کی دکان لگاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ‘ان لوگوں نے مجھ سے میرا نام پوچھا اور پھر جھنڈا دےکر بولا کہ اسے میں دکان پر لگا لوں۔ میں نے یوں ہی اسے دکان پر لگا دیا۔ بعد میں افسر آئے اور جھنڈا اتارنے کو بولا تو میں نے جھنڈا اتار دیا۔’

دکانداروں نے بتایا کہ کو رونا وائرس سے انفیکشن کی وجہ سے مقامی میونسپل اکائی  کی طرف سے فٹ پاتھی دکانداروں کو آئی کارڈ جاری کیا گیا ہے۔ اس آئی کارڈ میں دکانداروں کا نام اور پتہ لکھا ہوا ہے۔دکانداروں کے مطابق، جھنڈا لےکر آئے لوگ دکانداروں کے گلے میں جھول رہے آئی کارڈ میں درج نام دیکھ کرجھنڈا دے رہے تھے۔ جن دکانداروں نے گلے میں آئی کارڈ نہیں ڈالا تھا اور جن کوحلیہ سے پہچان کرنا مشکل ہے کہ وہ ہندو ہیں یا مسلمان، تو ان سے نام پوچھا جاتا تھا۔


یہ بھی پڑھیں:کیا نتیش کمار کے اپنے ضلع میں مسلمان سماجی بائیکاٹ کا سامنا کر رہے ہیں؟


پنٹو کمار کی بھی اسی بازار میں سبزی کی دکان ہے۔ انہوں نے گلے میں آئی کارڈ ڈالا تھا۔ انہوں نے بتایا،‘آئی کارڈ میں میرا نام دیکھ کر مجھے جھنڈا دینے سے پہلے انہوں نے میری پہچان نہیں پوچھی تھی۔’پنٹو کمار نے کہا، ‘ہم لوگ دکاندار ہیں۔ یہاں ہندو اور مسلم سبھی دکان چلاتے ہیں۔ کسی کا کسی سے بیر نہیں ہے۔ ہم ہندو مسلمان کریں گے، تو پیٹ کیسے پالیں گے۔’

بہار شریف کے اس حلقہ میں لگ بھگ 2500 فٹ پاتھی دکانیں ہیں، جن میں ہندو مسلم سبھی شامل ہیں۔ فٹ پاتھی دکانداروں سے بات چیت میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ پچھلے 15-20 دنوں سے یہاں بازار کرنے آنے والے بہت سارے لوگ سامان لینے سے پہلے (مذہبی  پہچان یقینی بنانے کے لیے)دکانداروں کا نام پوچھتے ہیں۔

شکیل یہاں 10 سال سے سبزی بیچ رہے ہیں۔ انہوں نے فون پر بتایا، ‘ کچھ گراہک سامان لینے آتے ہیں، تو پوچھتے ہیں کہ میرا مکان کہاں ہے تو میں بتاتا ہوں کہ شیر پور محلے میں میرا گھر ہے، تو کہتے ہیں کہ اس سے سامان نہیں لینا ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو مجھ سے نام پتہ نہیں پوچھتے ہیں اور سامان خرید کر لے جاتے ہیں۔ پچھلے 15-20 دن سے بکری پر اثر پڑا ہے۔ اب پہلے کے مقابلے میں کم گراہک دکان پر آ رہے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘18 اپریل کو جب موٹر سائیکل پر کچھ لوگ بھگوا جھنڈا بانٹنے آئے تھے، تو انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں ہندو ہوں یا مسلمان۔ جب میں نے کہا کہ میں مسلمان ہوں، تو وہ جھنڈا دیے بنا آگے بڑھ گئے۔’اسی بازار میں محمد الیاس کی پھل کی دکان ہے۔ انہوں نے بتایا، ‘میں کافی وقت سے یہاں پھل کی دکان چلا رہا ہوں۔ لوگ مجھے جانتے ہیں، اس لیے میرا نام وغیرہ نہیں پوچھتے، لیکن یہ ضرور ہے کہ اب کم گراہک سامان لینے آتے ہیں۔ دکانداری پر بہت اثر پڑا ہے۔’

پنٹو کمار بھی بتاتے ہیں، ‘15-20 دنوں سے بازار میں دکانداروں کا نام پوچھ کر سامان لینے کا چلن بڑھا ہے۔’

راجدھانی پٹنہ سے تقریباً 70 کیلومیٹر دور واقع بہار شریف فرقہ وارانہ  طور پر حساس علاقہ مانا جاتا ہے۔ دو سال پہلے رام نومی کے وقت بہار شریف سے 20 کیلومیٹر دور سلاو میں فرقہ وارانہ تشددہوا تھا۔ سال1981 میں بہار شریف میں ہوا خطرناک فساد بھی تاریخ کے کالے ابواب میں درج ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی  ہیں۔)