خبریں

پی ایم او نے سپریم کورٹ کے ایک متنازعہ تبصرے کے سہارے پی ایم کیئرس پر جانکاری دینے سے منع کیا

پی ایم او نے لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے فیصلے، اس کو  لے کر ہوئی اعلیٰ سطحی  میٹنگ، اس بارے میں وزارت صحت اورپی ایم او کے بیچ ہوئی خط و کتابت  اور شہریوں  کی ٹیسٹنگ سے جڑی فائلوں کو بھی عوامی کرنے سے منع کر دیا ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:وزیر اعظم دفتر(پی ایم او )نے کو رونا وائرس وباسے لڑنے میں عوام  سے مالی  مدد حاصل کرنے کے لیے بنائے گئے پی ایم کیئرس فنڈ سے جڑے دستاویزوں کوعوامی  کرنے سے منع کر دیا ہے۔اس کے ساتھ ہی پی ایم او نے لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے فیصلے، کووڈ 19 کو لےکر ہوئی اعلیٰ سطحی  میٹنگ، اس بارے میں وزارت صحت اورپی ایم او کے بیچ ہوئی خط و کتابت  اور شہریوں  کی کووڈ 19 ٹیسٹنگ سے جڑی فائلوں کو بھی عوامی کرنے سے منع کر دیا ہے۔

خاص بات یہ ہے کہ پی ایم او نے جس بنیاد پر ان جانکاریوں کو عام کرنے سے منع کیا ہے، ان میں سے کسی میں بھی جانکاری دینے سے براہ راست منع نہیں کیا گیا ہے۔ اس میں سے ایک سپریم کورٹ کا تبصرہ  ہے جو کہ کافی متنازعہ  رہا ہے۔گریٹر نوئیڈاباشندہ اورماحولیاتی کارکن وکرانت تو گڑ نے 21 اپریل 2020 کو ایک آر ٹی آئی دائر کر کے وزیر اعظم دفتر سے کل 12 نکات پر جانکاری مانگی تھی۔

حالانکہ پی ایم او نے آناً فاناً میں چھ دن بعد ہی 27 اپریل کو جواب بھیج کر جانکاری دینے سے منع کر دیا اور کہا کہ آر ٹی آئی کی  ایک ہی درخواست  میں کئی موضوعات  سےمتعلق ت سوال پوچھے گئے ہیں، اس لیے جانکاری نہیں دی جا سکتی ہے۔پی ایم او نے کہا، ‘آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت درخواست دائر کرنے والے کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ ایک ہی درخواست  میں مختلف موضوعات  سے جڑی جانکاری مانگے، جب تک کہ ان درخواستوں  کو الگ الگ سے نہیں مانا جاتا ہے اور اس کے مطابق ادائیگی کی جاتی ہے۔‘

پی ایم او کا یہ جواب سینٹرل انفارمیشن کمیشن  کے فیصلوں اور قانون کی کسوٹی پر کھرا اترتامعلوم  نہیں ہوتا ہے۔

پی ایم او کے سینٹرل پبلک انفارمیشن افسر(سی پی آئی او)پروین کمار نے یہ جواب دینے کے لیے سی آئی سی کے ایک آرڈر اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں بنچ  کے ایک تبصرےکا سہارا لیا ہے۔ حالانکہ ایسا معلوم  ہوتا ہے کہ کمار نے ان دونوں فیصلوں کے غلط معنی نکال لیے ہیں کیونکہ یہ دونوں فیصلے انفارمیشن  دینے سے کسی بھی طرح کی روک نہیں لگاتے ہیں۔

پہلی دلیل: سی آئی سی کی  ایک ہدایت

پی ایم او نے جانکاری  دینے سے منع کرنے کے لیے سی آئی سی کے سال 2009 کے ایک آرڈرکا سہارا لیا ہے جس میں کمیشن نے ایک آر ٹی آئی درخواست میں کئی سوال پوچھے جانے کے بارے میں اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ سال 2007 میں دہلی کے باشندہ راجیندر سنگھ نے سی بی آئی ہیڈ کوارٹرمیں آر ٹی آئی دائر کرکےکل 69 سوالوں پر جواب مانگا تھا۔

اس پر سی بی آئی کے سی پی آئی اونے ان سوالوں کو متعلقہ محکموں کے پاس جواب دینے کے لیے بھیج دیا۔ اس میں سے ایک سی پی آئی اونے سنگھ کو جواب بھیجا اور کہا کہ آپ ہر سوال کے لیے دس روپے جمع کراکر جانکاری حاصل کر سکتے ہیں، کیونکہ آپ کے ذریعے پوچھے گئے سوال الگ الگ موضوعات سے جڑے ہیں۔

لیکن سنگھ نے اضافی فیس جمع نہیں کرائی اور جواب سے غیر مطمئن  ہوکر پہلی  اپیل دائر کی۔افسر نے سی پی آئی او کے جواب کو درست ٹھہرایا۔اس کے بعد یہ معاملہ اس وقت کے چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ  کے پاس پہنچا، جہاں اپیل کرنے والے نے مانگ کی کہ ان کے ذریعے مانگی گئی جانکاری  مہیا کرائی جائے اور اضافی فیس جمع کرنے کی مانگ کے لیے سی پی آئی او کوسزا دی جائے۔

دونوں فریقوں  کی شنوائی کے بعد کمیشن  اس نتیجے  پر پہنچا کہ پوچھے گئے سوالوں میں سے صرف ایک سوال الگ موضوع سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے اپیل کرنے والا اس ایک سوال کے لیے الگ سے 10 روپے جمع کرا دے، جس کے بعد سی پی آئی او ساری جانکاری درخواست گزار کو دےگا۔خاص بات یہ ہے کہ پی ایم او کی دلیل کے برعکس  کمیشن نے جانکاری دینے سے منع نہیں کیا بلکہ الگ الگ موضوع کے لیے اضافی 10 روپے کی رقم  لےکر جانکاری دینے کو کہا۔

وجاہت حبیب اللہ نے اپنے فیصلے میں کہا، ‘دفعہ7(1)کے تحت جانکاری حاصل کرنے کے لیے کئے جانے والے درخواست کے چاروں طرف مسائل ہوتے  ہیں۔ اس کے تحت ایک سی پی آئی او سے امید کی جاتی ہے کہ فیس کے ساتھ درخواست ملتے ہی جلدی  سے وہ  اس کا نپٹارا کریں گے۔ اس لیے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت درخواست گزار  کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ ایک ہی درخواست  میں کئی سارے سوالوں کے جواب پوچھ ڈالیں، جب تک کہ ان سوالوں کو الگ الگ نہیں مانا جاتا ہے اور اسی کے مطابق ادائیگی  کی جاتی ہے۔’

حالانکہ حبیب اللہ  انے اس کے آگے یہ بھی کہا کہ ایک اپیل (یا سوال) میں کئی ساری وضاحت یا ضمنی  سوال شامل ہو سکتے ہیں۔ ایسے درخواست  کو ایک اپیل مانا جانا چاہیے اور اسی بنیاد پرادائیگی  کی جانی  چاہیے۔

پی ایم او کی جانب سےدیا گیا جواب

پی ایم او کی جانب سےدیا گیا جواب

اس فیصلے کے بعد آنے والے کچھ سالوں تک اسی بنیاد پر کئی فیصلے دیےگئے۔ سابق چیف انفارمیشن کمیشنراےاین تیواری نے اپنے دو فیصلوں سوریہ کانت بی- تینگالی بنام اسٹیٹ بینک آف انڈیا اور ایس اوماپتی بنام اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں حبیب اللہ کے احکامات  کا سہارا لیتے ہوئے اسی طرح کا فیصلہ دیا تھا۔

حالانکہ سال 2011 میں اس وقت کے سینٹرل انفارمشین کمشنر شیلیش گاندھی نے پایا کہ آر ٹی آئی درخواست  میں سوال ایک موضوع تک محدود رکھنے یا ایک سے زیادہ موضوع ہونے پر اضافی رقم  دینے کا فیصلہ کرنے والے ان احکامات میں کسی‘قانونی بنیاد’ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

گاندھی نے ماضی  کے فیصلوں کو پلٹتے ہوئے کہا کہ آر ٹی آئی قانون یااصول یا کسی دوسری جگہ یہ طے  نہیں ہے کہ ‘ایک اپیل’ کیا ہوتی ہے، اس لیے لوگوں کے جانکاری مانگنے کے لیے اختیارات کومحدود نہیں کیا جا سکتا اور ان سے بے وجہ پیسے نہیں وصول کیے جانے چاہیے۔

شیلیش گاندھی نے ڈی کے بھومک بنام سڈبی اور امیتاپانڈے بنام سڈبی معاملے میں تفصیل  سے اس کا جائزہ لیا کہ کیا اگر کسی درخواست میں مختلف موضوعات  سے متعلق  جانکاری مانگی جاتی ہے تو ہر جانکاری کے لیے اضافی  10 روپے کی ادائیگی کرنی  ہوگی یا کیا ایسا کوئی قانونی اہتمام  ہے جودرخواست گزارکو اپنی درخواست میں ایک سے زیادہ موضوعات پر جانکاری مانگنے سے روکتا ہے؟

گاندھی نے سال 2001 میں سپریم کورٹ کے ذریعے گرودیودتا وی کے ایس ایس ایس مریادت اور دیگر بنام مہاراشٹر معاملے میں دیے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ‘یہ کمیشن  سابق چیف انفارمیشن کمشنروں کے ذریعے آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 6(1) اور 7(1) میں دیے گئے لفظ ‘ایک اپیل’ کی ضاحت سے مؤدبانہ طور پرراضی نہیں ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنااہم ہے کہ سابق انفارمیشن کمشنروں نے اپنی وضاحت میں کسی قانونی بنیاد کا ذکر نہیں کیا ہے۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘اگر سپریم کورٹ کے ذریعےطے  قانون کی وضاحت کے ضابطوں کو یہاں نافذ کیا جاتا ہے تو ‘ایک اپیل’ کا فطری  اورعام  مطلب نکالا جانا چاہیے، جس کی بنیادپر اس کا مطلب بالکل نہیں ہوگا کہ ‘ایک طرح کی جانکاری’۔ آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ  6(1) اور 7(1) کو اگر عام لفظوں میں پڑھیں تو کہیں بھی ایسا نہیں لگتا ہے کہ کسی بھی آدرخواست یا اپیل کی کوئی حد طے کی گئی ہے۔’

انہوں نے کہا کہ ‘ایک موضوع’ کیا ہوتا ہے یہ آر ٹی آئی ایکٹ، اصول،ضابطوں اور یہاں تک چیف انفارمیشن کمشنروں کے فیصلے تک میں طے نہیں کیا ہے۔ ایسا کوئی پیرا میٹر طے نہیں کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر کوئی پی آئی او یہ طے کر سکےگا کہ مانگی گئی جانکاری کسی ایک موضوع  سے جڑی ہوئی ہے یا نہیں۔

اس کے بعد شیلیش گاندھی نے کہا کہ اس کو لے کر کوئی طے طریقہ متعین نہیں ہونے کی وجہ  ہو سکتی ہے کہ پی آئی او اپنی سمجھ کی  بنیادپر درخواست کے کچھ حصہ تک کی جانکاری دے دے اور باقی حصہ کے لیے یہ کہتے ہوئے کہ جانکاری الگ موضوع سے جڑی ہوئی ہے، درخواست گزارسے ایک اور آر ٹی آئی درخواست دائر کرنے کے لیے کہے۔

سابق انفارمیشن کمشنر نے کہا، ‘پبلک انفارمیشن افسرکے ذریعے یہ مطلب نکالنا لوگوں کے بنیادی جانکاری کے حق کومحدود کرنا اور بے وجہ پیسے خرچ کروانا ہوگا۔ ‘ایک زمرے کی جانکاری’ کی صاف تعریف  نہیں ہونے کی وجہ سے صرف من مانے طریقے سے جانکاری دینے سے منع کیا جائے گا اور اس کی وجہ سے معاملوں کی بھرمار ہو جائےگی۔’

اس طرح یہاں مذکورسینٹرل انفارمیشن کمیشن کے مختلف فیصلوں میں کہیں بھی ایک آر ٹی آئی درخواست میں ایک سے زیادہ  موضوعات کے بارے میں مانگی گئی جانکاری پر جواب دینے سے منع نہیں کیا گیا ہے۔ حالانکہ پی ایم او نے انہیں میں سے ایک آرڈر کا سہارا لےکر پی ایم کیئرس پر جانکاری دینے سے منع کر دیا۔

کامن ویلتھ ہیومن رائٹس کے ایکسیس ٹو انفارمیشن پروگرام کے پروگرام ہیڈ وینکٹیش نایک کہتے ہیں کہ پی ایم او کے پاس جو بھی جانکاری تھی انہیں وہ دینی  چاہیے تھی  اور باقی حصہ کو متعلقہ محکمہ میں ٹرانسفر کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ‘اگر جانکاری  کئی دستاویزوں میں ہے تو فائلوں کی جانچ کی اجازت دی جانی چاہیے تھی۔’

دوسری دلیل: سپریم کورٹ کا ایک تبصرہ

اپنی دوسری دلیل میں پی ایم او نے کہا کہ درخواست گزارکا دھیان سال 2011 میں سپریم کورٹ کے ذریعے سی بی ایس ای بنام آدتیہ بندوپادھیائے اور دیگر معاملے میں دیےگئے فیصلے کی اور کھینچا جاتا ہے جہاں کورٹ نے کہا تھا:‘آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت سبھی جانکاریوں کاانکشاف کرنے کے لیے اندھادھند اور غیر عملی  مانگیں مفید نہیں  ہوں گی، کیونکہ یہ انتظامیہ  کی صلاحیت  پرالٹا اثر ڈالےگا اور نتیجہ کے طور پرایگزیکٹو جانکاری اکٹھا کرنے اور اسے فراہم  کرنے کے غیر ضروری  کاموں سے دب  جائےگی۔‘

اس میں آگے کہا گیا، ‘ملک  ایسی صورت حال  نہیں چاہتا ہے جہاں سرکاری دفتروں کے 75 فیصدی اسٹاف اپنا 75 فیصدی وقت ریگولر کام کے بجائے جانکاری اکٹھا کرنے اور اس کودرخواست گزارکو فراہم  کرنے میں لگا دیتے ہیں۔’

ویسے تو سپریم کورٹ کے اس تبصرےکو اینٹی آر ٹی آئی اور جانکاری  دینے سے منع کرنے کے لیے پبلک انفارمیشن افسر کو ایک اور ہتھیار دینے کےطور پر مانا جاتا ہے، لیکن باوجود اس کے کورٹ نے اپنے اس فیصلے میں بورڈ اگزام  کی کاپی کی جانچ اور اس کی کاپی آر ٹی آئی کے تحت دینے کے لیے سی بی ایس ای کو حکم دیا تھا۔

بعد میں اسی فیصلے کوبنیاد بناکر سال 2016 میں سپریم کورٹ نے سی بی ایس ای کو حکم دیا کہ وہ دو روپے پیج کے حساب سے طلبا کو آر ٹی آئی کے تحت کاپی مہیا کرائیں۔

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ سرکاری محکمہ  جانکاری دینے سے منع کرنے کے لیے کورٹ کے اس تبصرے کا سہارا لیتے رہتے ہیں، جبکہ کورٹ کے اس تبصرےکی صداقت کا کوئی بنیاد نہیں ہے۔ آر ٹی آئی کارکنوں اور سابق انفارمیشن کمشنروں  نے اس کی تنقید کی ہے۔

شیلیش گاندھی کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ  لگاتار آر ٹی آئی کونقصا ن پہنچا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ بنا کسی بنیاد کے یہ بات کہی گئی تھی۔ اس کی بالکل بھی ضرورت نہیں تھی۔ سپریم کورٹ کو یہ زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ لوگوں کے بنیادی حقوق  کو لےکر ایسے تبصرے کا استعمال کریں۔’

شیلیش گاندھی اور وکیل سندیپ جین کے ذریعے آر ٹی آئی ایکٹ پر سپریم کورٹ کے 17 فیصلوں کے تجزیے میں اس تبصرے کو پوری طرح سے خارج کیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ آر ٹی آئی درخواستوں  پر جواب دینے کے لیے صرف 3.2 فیصدی اسٹاف کو 3.2 فیصدی وقت تک کام کرنے کی ضرورت ہے۔

حالانکہ باوجود اس کے آئے دن سرکاری محکموں  کے پبلک انفارمیشن افسر اس کا سہارا لے کر عوام  کو جانکاری دینے سے منع کرتے رہتے ہیں۔