خبریں

دہلی اقلیتی کمیشن کے صدر کے خلاف سیڈیشن کا معاملہ درج

دہلی اقلیتی کمیشن کے صدرظفرالاسلام خان پر متنازعہ بیان سوشل میڈیا پرپوسٹ کرنے کاالزام ہے۔ انہوں نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ پر تنازعہ بڑھنے پر عوامی  طور پر معافی مانگ لی تھی۔

دہلی اقلیتی کمیشن  کے صدرظفرالاسلام خان(فوٹو: فیس بک)

دہلی اقلیتی کمیشن  کے صدرظفرالاسلام خان(فوٹو: فیس بک)

نئی دہلی:  دہلی اقلیتی کمیشن کے صدرظفرالاسلام خان کے خلاف سیڈیشن کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔ظفرالاسلام خان پرالزام ہے کہ انہوں نے 28 اپریل کو متنازعہ  سوشل میڈیا پوسٹ کیا تھا۔ہندستان ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے 30 اپریل کوظفرالاسلام خان کے خلاف سیڈیشن کے تحت معاملہ درج کیا۔

دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے جوائنٹ کمشنرنیرج ٹھاکر نے کہا کہ ظفرالاسلام خان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 124اے اور 153اے کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

واضح ہو کہ دہلی کے وسنت کنج کے ایک مقامی باشندہ  کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی گئی۔ یہ شکایت صفدرجنگ انکلیو کے اےسی پی کے ذریعےا سپیشل سیل کے انسداد دہشت گردی  دستے کے دفتر تک پہنچی۔شکایت گزارنے اپنی شکایت میں الزام  لگایا ہے کہ 28 اپریل کو دہلی اقلیتی کمیشن  کے صدرظفرالاسلام خان نے ٹوئٹر اور فیس بک پر ایک پوسٹ کیا، جس کا مواد بہت متنازعہ  تھا، جس کا مقصد سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنا اور سماج میں تفریق  پیدا کرنا ہے۔

شکایت کے ساتھ ظفرالاسلام خان کےمبینہ  متنازعہ  سوشل میڈیا پوسٹ کاا سکرین شاٹ بھی لگایا گیا ہے۔شکایت میں کہا گیا ہے کہ مبینہ  طور پرظفرالاسلام خان نے بھگوڑے ذاکر نایک کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عرب اور مسلم کمیونٹی  میں قابل احترام نام ہے۔

حالانکہ ظفرالاسلام خان نے اس درج ایف آئی آر پر کوئی پرردعمل نہیں دیا ہے۔انہوں نے کہا، ‘میں نے ابھی تک ایف آئی آر نہیں دیکھی ہے۔ اس کو دیکھنے کے بعد ہی میں اس پر کچھ کہہ پاؤں گا۔’بتا دیں کہ انہوں نے اپنے مبینہ  متنازعہ  اور بھڑکاؤ سوشل میڈیا پوسٹ کے لیے 28 اپریل کو معافی مانگ لی تھی، جس میں انہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ہو رہے استحصال کو اپنی جانکاری میں  لینے کے لیے کویت کوشکریہ  کہا تھا۔

انہوں نے بیان جاری کرکے کہا، ’28 اپریل کو میرے ٹوئٹ  جس میں میں نے کویت کو ہندوستانی مسلمانوں پر ہو رہے استحصال کو اپنی جانکاری میں  لینے کے لیے شکریہ کہا تھا، جو شمال مشرقی  دہلی میں ہوئے تشدد کےبارےمیں تھا، اس سے کچھ لوگوں کو ٹھیس پہنچا ہیں۔ میرا ارادہ کسی کو ٹھیس پہنچانے کا نہیں تھا۔’

انہوں نے کہا، ‘مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلط وقت پر ٹوئٹ کیا۔ میں نے اس وقت ٹوئٹ کیا، جس وقت پورا ملک میڈیکل ایمرجنسی کا سامنا کر رہا ہے، اس وقت میرا یہ ٹوئٹ غیر حساس تھا، میں ان سبھی سے معافی مانگتا ہوں، جن کے جذبات کو ٹھیس پہنچاہے۔ میرا ارادہ کسی کے جذبات  کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا۔’

ظفرالاسلام خان نے کہا، ‘میرا ٹوئٹ مختصر تھا، لیکن جس کی وجہ سے ایک نیریٹو بنا لیا گیا۔ لوگوں نے کچھ ایسا بھی سمجھ لیا جو میں نہیں کہنا چاہتا تھا۔ ایک طبقےنے حقائق کو ان دیکھا کیا اور میرے بارے میں غلط رائے بنائی۔ میرا کبھی ایسا ارادہ نہیں تھا، نہ ہی میں نے ایسے کچھ کہا تھا جیسا مطلب نکالا گیا۔’

انہوں نے کہا، ‘میں نے میڈیا کے ایک حصہ کو سنجیدگی سے لیا ہے جس نے میرے ٹوئٹ کو توڑمروڑکر پیش کیا اور مجھے ان چیزوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جو میں نے کبھی نہیں کہا۔ ضرورت پڑی تو آگے قانونی قدم اٹھائے جائیں گے۔’

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)