خبریں

’عرفان ہمیشہ ہر چیز میں لے ڈھونڈ لیتے تھے…میں نے بھی یہ سیکھ لیا ہے‘

ستپا سکدراپنے خط میں لکھتی ہیں،‘ایک کامیاب سفر کے بعد جہاں انہیں آرام کرنے کے لیے چھوڑکر آئے ہیں، وہاں ان کا پسندیدہ رات کی رانی کا پودا لگاتے ہوئے آنکھیں نم ہوں گی۔ تھوڑا وقت لگےگا، لیکن اس کی خوشبو پھیلےگی اوران سب تک پہنچے گی، جنہیں میں آنے والے وقت میں فین نہیں، بلکہ فیملی مانوں گی۔’

این ایس ڈی کے دنوں میں ایک پلے کے دوران ستپا اور عرفان(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/@sutapa.sikdar)

این ایس ڈی کے دنوں میں ایک پلے کے دوران ستپا اور عرفان(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/@sutapa.sikdar)

جب ساری دنیا اس کو  اپناذاتی نقصان سمجھ رہی ہے، تب میں اس کو کیسےاہل خانہ  کا بیان کہہ سکتی ہوں؟ میں خود کو اکیلا کیسے مان سکتی ہوں جب لاکھوں لوگ اس وقت میرے غم میں شامل ہیں۔میں سب کو بھروسہ دلانا چاہتی ہوں کہ ہم نے کھویا نہیں پایا ہے۔ ہم نے وہ سب پایا ہے جو انہوں نے ہمیں سکھایا اور اب ہم اس کو سچ میں عمل میں لائیں گے اور آگے بڑھیں گے۔ پھر بھی میں وہ سب شیئر کرنا چاہتی ہوں جو لوگ اب تک نہیں جانتے۔

یہ ہمارے لیے ناقابل یقین  ہے لیکن اگر عرفان کے لفظ  لوں، تو ‘یہ جادو بھرا’ ہے، بھلے ہی وہ ہیں یا نہیں، اور انہیں یہی پسند تھا، انہوں نے کبھی یک جہتی  سچائیوں کو پسند نہیں کیا۔بس ان سے ایک ہی شکوہ ہے؛انہوں نے مجھے زندگی بھر کے لیے بگاڑ دیا۔ ان کا ہر بات میں پرفیکشن چاہنے والا نظریہ مجھے کسی بھی معمولی  چیز پر ٹھہرنے ہی نہیں دیتا۔

وہ ہمیشہ ہر چیز میں ایک لے ڈھونڈ لیتے تھے…شور اور گڑبڑیوں میں بھی، اسی لیےمیں نے اس لے کے سروں کو گانا اور ان پر تھرکنا سیکھ لیا، میری بے سری آواز اور اناڑی قدموں سے ہی صحیح۔یہ مزیدار ہے کہ ہماری زندگی ایکٹنگ کی ماسٹرکلاس تھی، تو جب ڈرامائی طریقے سے اس ‘انچاہے مہمان’ کا آنا ہوا، تب تک میں شور میں بھی ایک تک، ایک تال میل دیکھنا سیکھ چکی تھی۔

ڈاکٹر کی رپورٹس اسکرپٹ کی طرح تھیں، جنہیں میں پرفیکٹ بنا دینا چاہتی تھی، اس لیے کبھی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی نہیں بھولتی تھی، جو ان کی پرفارمنس کے لیے ضروری تھی۔اس سفر میں کچھ بہترین لوگوں سے ملاقات ہوئی اور یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی لسٹ ہے لیکن پھر بھی چند لوگوں کا نام لینا چاہتی ہوں… شروعات میں ہمارا ہاتھ تھامنے والے ساکیت کے میکس ہاسپٹل کے ہمارے آن کولاجسٹ ڈاکٹرنتیش روہتگی، یو کے کے ڈاکٹر ڈین کریل اور ڈاکٹر شدراوی، میری عزیز اور اندھیرے میں روشنی کی کرن بنی کوکیلابین اسپتال کی ڈاکٹر سیونتی لمیی۔

یہ بتانا مشکل ہے کہ یہ سفر کتنا خوشگوار، خوبصورت، درد بھرا اور رومانی رہا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ ہمارے 35 سال کے ساتھ (ہماری شادی نہیں تھی، ساتھ تھا)سے الگ یہ ڈھائی سال ایک وقفہ  کی طرح تھے، جن کی اپنی شروعات اور انجام تھے، جہاں عرفان ایک آرکیسٹرا کنڈکٹر کا کردار نبھا رہے تھے۔

میں اپنی چھوٹی سی فیملی کو ایک ناؤ میں دیکھتی ہوں، میرے دونوں بیٹے بابل اور عیان اس کو آگے لے جا رہے ہیں اور عرفان انہیں راستہ بتا رہے ہیں، ‘وہاں نہیں، یہاں سے موڑو۔’لیکن زندگی کوئی فلم تو نہیں ہے اور یہاں کوئی ری ٹیک نہیں ہوتا، ایمانداری سے کہوں تو میں چاہتی ہوں کہ میرے بچہ اپنے دل  میں والد کی رہنمائی میں اس ناؤ کو چلاتے ہوئے سلامتی سے سبھی طوفانوں کو پار کر جائیں۔

میں نے اپنے بچوں سے پوچھا کہ اگر ممکن ہو تو کیا وہ اپنے والدکا سکھایا کوئی سبق بتا سکتے ہیں، جو ان کے لیے بہت ضروری رہا ہو۔بابل:غیر یقینی باتوں کے سامنے جھکنا سیکھنا اور دنیا پر اپنے بھروسے میں یقین کرنا۔عیان: اپنے دل کو قابو کرنا سیکھنا اور اسے خود کو قابو نہ کرنے دینا۔

ایک کامیاب سفر کے بعد جہاں آپ انہیں آرام کرنے کے لیے چھوڑکر آئے ہیں، وہاں ان کا پسندیدہ رات کی رانی کا پودا لگاتے ہوئے آنکھیں نم ہوں گی۔ تھوڑا وقت لگےگا، لیکن یہ کھلے گا، اس کی خوشبو پھیلےگی اور ان سب تک پہنچے گی، جنہیں میں آنے والے وقت میں فین نہیں، بلکہ فیملی  مانوں گی۔