خبریں

آئین ججوں کی مقدس کتاب، انصاف کا پلڑا محروم طبقات کی طرف جھکا ہونا چاہیے: جسٹس دیپک گپتا

اپنے الوداعیہ میں جسٹس دیپک گپتا نے عدلیہ نظام میں انسانی قدروں کو قائم  کرنے کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ وکیل اپنے موکل سے بےتحاشہ فیس نہیں لے سکتے ہیں۔

جسٹس دیپک گپتا۔ (فوٹو: وکی پیڈیا)

جسٹس دیپک گپتا۔ (فوٹو: وکی پیڈیا)

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے بےحد معزز جج ،سیڈیشن قانون اوراکثریت کی حکمرانی کے خلاف بولنے والے جسٹس دیپک گپتا بدھ کو ریٹائر ہو گئے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے انہیں الوداعیہ دیا تھا۔الوداعیہ تقریب  میں جسٹس گپتا نے آزاد ہوکر فیصلے لکھنے، عدلیہ نظام میں غریبوں اور حاشیے پر پڑے لوگوں کا یقین بنائے رکھنے اور ایک جج کے طور پرآئین کو ہی اپنی مقدس کتاب ماننے کی بات کی۔

آئین کی ایک کاپی دکھاتے ہوئے جسٹس دیپک گپتا نے کہا، ‘جب ایک جج کورٹ میں بیٹھتا ہے تو ہمیں اپنےمذہبی عقائدکو بھولنا پڑتا ہے اورآئین کی بنیادپر فیصلے لینے ہوتے ہیں، جو کہ ہمارا بائبل، گیتا، قرآن، گرو گرنتھ صاحب سب ہے۔’سپریم کورٹ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی جج کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے الوداعیہ  دیا گیا۔

جسٹس گپتا نے عدلیہ نظام میں انسانی قدروں کو قائم کرنے کی بات کی۔ انہوں نے کہا، ‘ایک اچھا وکیل ہونے سے پہلے آپ کو ایک اچھا انسان بننا پڑتا ہے۔ آپ کو لوگوں کی پریشانی کے تئیں  حساس ہونا چاہیے۔’انہوں نے آگے کہا، ‘اگرآپ چاہتے ہیں کہ عدلیہ‘انسانی’ ہو، تو بار کو بھی انسانی ہونے کی ضرورت ہے۔ آپ اپنے موکل سے بےتحاشہ فیس نہیں لے سکتے ہیں۔’

جسٹس دیپک گپتا نے کہا کہ موجودہ وباجیسے کسی بحران کے وقت کورٹ کو غریبوں اور محروم طبقات کی ضرور حفاظت کرنی چاہیے کیونکہ ایسے وقت میں سب سے زیادہ یہی لوگ متاثر ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا، ‘جب کورٹ اپنا کام کرتی ہے اور شہریوں کے مفادمیں فیصلے دیتی ہے تو کبھی کبھی ٹکراؤ کی حالت پیدا ہو جاتی ہے، لیکن میری رائے میں ٹکراؤ ایک بہت اچھا اشارہ ہے کہ کورٹ صحیح سے کام کر رہے ہیں۔’

جسٹس گپتا نے کہا کہ امیر اور طاقتور اوربےآواز، غریب اورمظلوم کے بیچ لڑائی میں انصاف کا پلڑا کبھی بھی برابر نہیں ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘اگرحقیقی انصاف کیا جانا ہے تو انصاف کا پلڑا ہمیشہ محروم طبقات کی طرف جھکا ہونا چاہیے۔’انہوں نے کہا، ‘میرا ماننا ہے کہ جج زمینی حقیقت سے پرے نہیں رہ سکتے ہیں اور انہیں اس کی جانکاری ہونی چاہیے کہ ان کےآس پاس دنیا میں کیا چل رہا ہے۔ اگرانصاف کا پلڑا برابر کرنا ہی ہے تو اسے اس طرح برابر کیا جانا چاہیے غریب اورمظلوموں کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔’

جسٹس دیپک گپتا نے کہا، ‘ہو سکتا ہے کہ میں ایک کارکن جج رہا ہوں، لیکن میں نے اپنی حدیں کبھی نہیں پار کیں۔ مجھے اپنا دائرہ پتہ ہے۔ جب ہم توازن کےساتھ کام کرتے ہیں، ہمیں اپنے دائروں کے اندر ہی رہنا چاہیے۔’دیپک گپتا نے کہا، ‘کسی بھی صورت میں ادارے کی سالمیت کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرے ساتھی ججوں کی نگرانی میں یہ یقینی بنایا جائےگا کہ لوگوں کو وہ چیز حاصل ہو جو وہ کورٹ سے امید کرتے ہیں۔’

اپنے الوداعیہ میں جسٹس گپتا نے اپنے والدکو بھی یاد کیا اور بتایا کہ جب وہ 13 سال کے تھے، ان کے والد گزر گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والدنے ان میں پڑھنے کی عادت ڈالی اور اس کی اہمیت کا احساس کرایا کہ ایک اچھا وکیل ہونے کے لیے اچھا پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے۔

جسٹس دیپک گپتا نے اپنی بیوی پونم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، ‘وہ میرے لیے کامیابی  کا ستون رہی ہیں۔’ دیپک گپتا 17 فروری 2017 کو سپریم کورٹ کے جج بنے تھے۔انہوں نے سال 1978 میں دہلی یونیورسٹی سے لاء کی ڈگری حاصل کی اور ہماچل پردیش ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کی۔ اکتوبر، 2004 میں وہ یہاں پر جج بنائے گئے اور دو بار ہائی کورٹ کے کارگزارجسٹس بنے۔ انہوں نے تین سال تک ہماچل پردیش ہائی کورٹ کی بنچ کی قیادت کی۔

جسٹس گپتا نے تین سال سے زیادہ وقت تک کے لیے ہماچل پردیش کے اسٹیٹ لیگل سروس اتھارٹی کے کارگزارصدراور شملہ واقع  ہماچل پردیش جوڈیشل اکادمی کےصدرکے طور پربھی کام کیا۔ انہوں نے ہماچل پردیش میں عدالتوں کے کمپیوٹرائزیشن کی کمیٹی  کی بھی قیادت کی۔

مارچ 2013 میں انہوں نے تریپورہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پرحلف لیا۔ مئی 2016 میں ان کا ٹرانسفر کیا گیا اور وہ چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنائے گئے۔

(جسٹس دیپک گپتا کی مکمل تقریرپڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔)