خبریں

لاک ڈاؤن کے بیچ آیوشمان بھارت کے تحت بھرتی ہو نے والے مریضوں کی تعداد میں گراوٹ

کووڈ19انفیکشن کے بیچ خط افلاس سے نیچےجینے والوں کے لیے شروع کی گئی آیوشمان بھارت پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا بری طرح متاثر ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ تین مہینوں میں ملک بھر کے سرکاری اور نجی اسپتالوں  میں یوجنا کے تحت بھرتی ہونے والے مریضوں کی تعداد میں 20 فیصد کی کمی آئی ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

کو رونا وائرس کے مدنظر ملک گیر لاک ڈاؤن کے پچاس دن پورے ہونے والے ہیں۔اس دوران ملک بھر کے مختلف حلقوں میں عام لوگوں کی صحت سے متعلق خدمات تک رسائی محدود ہوئی ہے۔خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والےمرکزی حکومت کی جانب سے شروع کی گئی آیوشمان بھارت پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا اس وقت بری طرح متاثر ہے۔

واضح ہو کہ اس یوجنا کے شروع ہونے کے بعد نیشنل ہیلتھ ایجنسی  کو بند کرکے اس کی جگہ نیشنل ہیلتھ سروس  اتھارٹی(این ایچ اے)بنایا گیا تھا۔ملک بھر میں آیوشمان بھارت کو نافذ کرنے کے لیے یہ سب سے اعلیٰ اکائی ہے۔اس یوجنا کے پیکیج کے تحت 825 طرح کی بیماریوں کو کور کیا جاتا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، این ایچ اے ڈیٹا کی مانیں تو فروری سے اپریل کے بیچ سرکاری اور نجی اسپتالوں میں کووڈ 19سے الگ مہلک بیماریوں سے متعلق کارروائی میں 20 فیصدی کی گراوٹ دیکھی گئی ہے۔عام فہم لفظوں میں کہیں،تو اس یوجنا کے تحت نجی یا سرکاری اسپتالوں میں پہنچنے والے مریضوں کی تعداد تیزی سے گھٹی ہے۔ان مہینوں میں یوجنا کے تحت آنے والے مریضوں کی تعداد 193679سے گھٹ کر 151672 پر آ گئی ہے۔

این ایچ اے کی جانب سے دیےگئے اعدادوشمار کے مطابق، فروری سے اپریل کے بیچ کینسرسےمتعلق علاج کی کارروائی میں 57 فیصدی کی گراوٹ آئی ہے، کارڈیالاجی یعنی دل  سے متعلق بیماری میں76فیصداور آبسٹیٹرکس اورگاینوکالاجی سے جڑی کارروائیوں میں 26 فیصد کی کمی دیکھی گئی ہے۔

یوجنا کے تحت ایمرجنسی روم سے متعلق12 گھنٹے سے کم وقت کے لیے بھرتی کیے جانے والے معاملوں میں33 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ان سبھی کو 21 زمروں میں بانٹا گیا ہے، جس میں دوسری  کارروائیوں میں نارمل سرجری اور علاج، یورولاجی (پیشاب سے متعلق بیمار اور نیورولاجی(دماغ سے متعلق  بیماری) شامل ہیں۔

این ایچ اےکے شروعاتی اعدادوشمارکے مطابق، نجی اور سرکاری اسپتالوں، دونوں میں ہی کووڈ 19 سے ملتے جلتے سانس سے متعلق آثار والے معاملوں میں بھی 80 فیصدی کی گراوٹ آئی ہے۔اس یوجنا کے شروع ہونے پر امید کی جا رہی تھی کہ نجی اسپتالوں کو جوڑ نے سے ڈائیلاسس اور کیموتھیراپی کا بوجھ کم ہوگا۔ ان رجحانات کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد ایسے معاملوں میں تیزی سے اضافہ  ہوگا۔

اس یوجنا کے تحت 21 ہزار سے زیادہ اسپتالوں کو جوڑا گیا ہے، جن میں آندھراپردیش کے اپولو انٹرپرائزاور ایچ سی جی، مہاراشٹر کے ایچ سی جی اور واک ہارٹ اسپتال، بہار کا پارس گلوبل ہاسپٹل اور دہلی این سی آر کے سر گنگا رام، میدانتا اسپتال شامل ہیں۔این ایچ اے اور آیوشمان بھارت کے سی ای او اندو بھوشن نے بتایا،‘ہمارے یومیہ ٹریٹمنٹ میں 50 فیصدی کی کمی ہوئی ہے، جبکہ ڈائیلاسس اور کیموتھیراپی جیسی بےحد ضروری کارروائیوں میں دس سے بیس فیصد کی گراوٹ دیکھی گئی ہے۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘یہ تھوڑی راحت ہے، لیکن ہمیں امید ہے کہ یہ بڑھیں گے کیونکہ اس وقت کئی سرکاری اسپتالوں میں یہ خدمات دستیاب نہیں ہیں۔ ہمارے ساتھ جڑے نجی اسپتالوں کو انہیں سنبھال لینا چاہیے۔’لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران کئی نجی اسپتال بند ہیں، جو اس طرح کی گراوٹ کی ایک وجہ ہے۔

بھوشن آگے کہتے ہیں،‘ہمارے یہاں جیسی آبادی کو اس طرح کے نان کووڈ مگر مہلک بیماریوں  کا علاج ملنا مشکل ہے۔ ڈائیلاسس اور کیموتھیراپی جیسے ٹریٹمنٹ زیادہ تر نجی سیکٹر کے ذریعے دیے جاتے ہیں۔ ہمیں انہیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔’انہوں نے یہ بھی کہا کہ نجی اسپتالوں کے لیے یہ ویلفیئر (بھلائی)کے ماڈل پر کام کرنے کا وقت ہے نہ کہ فائدہ کمانے کا۔ امید ہے وہ ایسا ہی کریں گے۔

سانس سے متعلق امراض کے معاملوں میں آئی گراوٹ اعدادوشمار میں صاف دکھائی دیتی ہے۔ این ایچ اے کے ڈیٹا کے مطابق، فروری سے 27 اپریل تک نجی اسپتالوں میں سانس سے متعلق مہلک بیماریاں اور انفلوئنزا کے معاملوں میں 76 فیصدی کی کمی آئی ہے، سرکاری اسپتالوں میں یہ اعدادوشمار81 فیصد کا ہے۔

بھوشن کہتے ہیں،‘سرکاری اسپتالوں میں سانس سے متعلق مہلک بیماریاں اور انفلوئنزا کے معاملوں میں آئی گراوٹ وجہ کے بارے میں کچھ کہنا جلدبازی ہوگی، لیکن ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس وقت بہت سے مریض گھر سے باہر نکلنے کے بارے میں ڈرے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی، کچھ اسپتالوں نےاپنے یہاں کچھ کام اور خدمات کو کم بھی کیا گیا ہے۔’

بہار کے ایک اسپتال کے چیف کہتے ہیں،‘ڈر تو ہے۔ ہمارے یہاں مغرب کی طرح معاملہ نہیں ہے کہ لوگ اپنے آپ اسپتال چلے جائیں… ابھی ایسے کوئی بھی مریض اسپتال میں بھرتی نہیں ہونا چاہتے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اسپتال انفیکشن کا مرکز ہیں۔’