خبریں

لاک ڈاؤن کے دوران 67 فیصدی مزدور بےروزگار ہو گئے: سروے

عظیم پریم جی یونیورسٹی کی جانب سے12 ریاستوں میں کئے گئے سروے میں کہا گیا کہ شہری حلقوں میں 10 میں سے آٹھ مزدور(80 فیصدی)اوردیہی حلقوں میں 10 میں سے لگ بھگ چھ مزدور(57 فیصدی)اپنا روزگار کھو چکے ہیں۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کو رونا وائرس وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جاری لاک ڈاؤن کے بعد سے دو تہائی(67 فیصدی)مزدوروں نے اپنا روزگار کھو دیا ہے۔دس سول سوسائٹی تنظیموں  کی مدد سے عظیم  پریم جی یونیورسٹی کی جانب سے12راجیوں میں کیے گئے ایک سروے کے شروعاتی تجزیے میں یہ نتائج سامنے آئے ہیں۔

خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہا، ‘روزگار، ذریعہ معاش اور سرکاری راحت اسکیموں تک پہنچ کے کووڈ 19 لاک ڈاؤن کے اثرات کااندازہ  کرنے کے لیے 4000مزدوروں کے فون سروے کے مطابق، شہری ہندوستان شدیدطور پر متاثر  ہے۔’

اس نے کہا، ‘شہری حلقوں میں 10 میں سے آٹھ مزدور (80 فیصدی) اوردیہی حلقوں میں 10 میں سے لگ بھگ چھ مزدور (57 فیصدی) اپنا روزگار کھو چکے ہیں۔’ابھی بھی اپنے روزگار میں لگے غیرزرعی سیلف امپلائیڈ مزدوروں کی اوسط ہفتہ وار آمدنی90 فیصدی کی گراوٹ کے ساتھ 2240 روپے سے 218 روپے ہو گئی تھی۔

ایک خاص وقت میں کام کرنے والے ابھی بھی کام کرنے والے مزدوروں کی لاک ڈاؤن کے دوران اوسط ہفتہ وار کمائی فروری میں 940 روپے سے لگ بھگ آدھی ہوکر 495 روپے ہو گئی۔سبھی تنخواہ پانےوالےمزدوروں میں سے آدھے(51 فیصدی)نے یا تو اپنی  تنخواہ میں کمی دیکھی یا کوئی تنخواہ  نہیں پائی۔

سروے کے مطابق، گھروں کے آدھے (49 فیصدی)لوگوں نے بتایا کہ ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا کہ وہ ایک ہفتے کے لیے ضروری سامان بھی خرید سکیں۔کووڈ 19 اور 25 مارچ سے جاری لاک ڈاؤن اور اس سے جڑے حفاظتی تدابیر نے معیشت پرشدید اثر ڈالا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کمزور اورمہاجرمزدوروں اور ان کے اہل خانہ خاص طور پرمتاثر ہوئے ہیں۔

بیان میں کہا گیا،‘ان اثرات کا مقابلہ کرنے اور اقتصادی اصلاحات کی راہ کو ہموار کرنے کے لیے فوری ،اوسط سے طویل مدتی جامع پالیسی کی ضرورت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ سروے کے نتائج سے پالیسی سے متعلق دخل اندازی کی حد اور نوعیت کے تعین میں مدد ملے گی۔’

سروے آندھرا پردیش، بہار، دہلی، گجرات، جھارکھنڈ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر (پونے)، اڑیسہ، راجستھان، تلنگانہ اورمغربی بنگال میں کیا گیا تھا۔اس میں کہا گیا، ‘لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد سے ہم نے روزگار اور کمائی کی  سطح کی پیمائش کی اور ان کا موازنہ فروری کے حالات سے کیا۔ ہم نے سیلف امپلائیڈ ، فوری اورمستقل تنخواہ/تنخواہ پانے والے ملازمین کو کور کیا۔ تفصیلی رپورٹ کچھ ہفتوں میں جاری کی جائےگی۔’

بیان کے مطابق،‘معیشت اور لیبربازاروں میں بڑے پیمانےپر رکاوٹیں ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران ذریعہ معاش غیر معمولی سطح پر تباہ ہو گیا۔ اس سے نکلنے کے لیے اپنائی  جانے والی تدابیر دھیمی اور بہت دردناک ہو سکتی ہیں۔ زمین پر راحت کی فوری تدابیر صورتحال  کی سنگینی کے تناسب میں نہیں دکھائی دیتے ہیں۔’

اس سروے کےنتائج کا ردعمل کےطور پر مطالعہ کرنے والی ٹیم نے بحران  سے متاثر لوگوں کی صورت حال  کی اصلاح کے لیے کچھ حل بھی سجھائے ہیں۔اس کے تحت سبھی ضرورت مندوں کو کم سے کم اگلے چھ مہینے تک مفت راشن دینے کا بندوبست کیا جانا چاہیے اور دو مہینے کے لیے فی ماہ کم سے کم 7000 روپے کے برابر نقد ٹرانسفر کا مشورہ دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی دیہی علاقوں میں منریگا کا دائرہ بڑھایا جانا چاہیے، تاکہ وہاں رہ رہے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کام مل سکے۔