فکر و نظر

صفورہ زرگر کے خلاف جاری کردار کشی کی مہم کیا بتاتی ہے

دہلی پولیس نے اپریل کی شروعات میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ایم فل کی اسٹوڈنٹ صفورہ زرگر کو دہلی تشدد سے جڑے ایک معاملے میں گرفتار کیا تھا۔ صفورہ شادی شدہ ہیں اور ماں بننے والی ہیں، لیکن اس بیچ سوشل میڈیا پر ان کی شادی اور ان کے حاملہ ہونے کو لےکر بیہودہ دعوے کیے گئے ہیں۔

صفورہ زرگر۔فوٹو بہ شکریہ : فیس بک ،صفورہ زرگر

صفورہ زرگر۔فوٹو بہ شکریہ : فیس بک ،صفورہ زرگر

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی 27 سالہ اسٹوڈنٹ صفورہ زرگر ایک مہینے سے زیادہ  سے دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ وہ چار مہینے کی حاملہ  ہیں اور ان پر بےحد سخت یو اے پی اے قانون کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔سوال ہے کیوں؟ جواب ہے دہلی پولیس نے ان پر فروری میں دہلی میں ہوئے فسادات کی سازش کرنے کا الزام لگایا ہے۔ دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے 10 اپریل کو صفورہ کو دہلی میں ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔

ان پر دہلی کے جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے نیچے شہریت قانون (سی اےاے)کے خلاف مظاہروں  کی قیادت  کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔صفورہ کے وکیل نے ان کے حاملہ  ہونے کا حوالہ دےکر ضمانت عرضی  دائر کی تھی، جس کو خارج کر دیا گیا۔ پولیس نے صفورہ پر دہلی دنگا بھڑ کانے کی سازش کرنے کا الزام لگاتے ہوئے 21 اپریل کو ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا۔

یو اے پی اے ایک بےحد سخت قانون ہے، جس کا استعمال دہشت گردوں  کے خلاف اور ملک  کی سالمیت اور خودمختاریت کو خطرہ پہنچانے والی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کے تحت الزام کو کم سے کم سات سال تک کی جیل ہو سکتی ہے اور اس میں ضمانت ملنا ٹیڑھی کھیر ہے۔

بامبے ہائی کورٹ کے سینئروکیل مہر دیسائی کہتے ہیں، ‘یو اے پی اے لوگوں کو قصوروارٹھہرانے کے لیے نہیں ہے، اس کا استعمال انہیں پکڑکر رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ وہ بے قصورہو سکتے ہیں لیکن کافی وقت بیت جاتا ہے اور انسانی کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ عام معاملوں میں ثبوت کا بوجھ پولیس پر پڑتا ہے لیکن یو اے پی اے کے تحت بوجھ اس انسان  پر ہے جس پر الزام ہے اور وہ خود کو بےگناہ ثابت کرے۔’

کون ہے صفورہ زرگر

جموں میں پیدا ہوئی اور دہلی میں پلی بڑھی صفورہ زرگر جامعہ ملیہ کی اسٹوڈنٹ ہیں، جو اس یونیورسٹی سے سماجیات  میں ایم فل کی کر رہی ہیں، ساتھ ہی وہ جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی (جے سی سی) کی میڈیا کنوینر بھی ہیں۔وہ دہلی یونیورسٹی کے جیسس اینڈ میری کالج سے گریجویشن کر چکی ہیں اور یونیورسٹی کے وومین ڈیولپمنٹ سیل کی رکن تھیں اور ساتھ میں کیمپس سے چھپنے والی میگزین کی اشاعت سے بھی وابستہ  تھیں۔

صفورہ نے لگ بھگ دو سال تک مارکیٹنگ میں کریئر بنانے کے لیے محنت کی، لیکن اس کو بیچ میں ہی چھوڑکر جامعہ میں داخلہ لے لیا۔گزشتہ سال کے اواخرمیں مرکزی حکومت کے متنازعہ شہریت قانون(سی اےاے)کے خلاف ہوئے کئی مظاہروں  میں وہ شامل رہی ہیں۔

ایک حاملہ اسٹوڈنٹ ٹرول کے نشانے پر کیوں؟

سی اے اےمخالف مظاہروں  میں شامل رہی ہیں اورمبینہ طور پررائٹ ونگ کے نشانے پر بھی۔ گرفتاری کے بعد ان کے حاملہ ہونے اور شادی کو لےکر سڑک سے لےکر سوشل میڈیا تک فیک نیوز پھیلائی گئی۔بیہودہ اور بےحد فحش بیان بازیوں سے صفورہ کے کردار کی دھجیاں ادھیڑنے میں ٹرول نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

جھوٹی خبریں پھیلائی گئی کہ صفورہ غیرشادی شدہ ہے اور جیل میں ہوئے میڈیکل ٹیسٹ سے پتہ چلا ہے کہ وہ حاملہ ہے جبکہ سچائی اس سے کوسوں دور ہے۔

فحش، بدتہذیبی،بیہودہ ٹرولنگ جو ہو سکتا تھا صفورہ کے خلاف ہر طرح کے پروپیگنڈہ کا استعمال کیا گیا۔گھٹیا میمس اور صفورہ کی تصویروں سے چھیڑ چھاڑ کر کےامیج خراب کرنے کی کوشش ہوئی۔ ان کے حمل میں پل رہے بچہ کے باپ کی پہچان کو لےکر اعلیٰ درجے کے جھوٹ گڑھے گئے۔

اس معاملے میں بی جے پی  کےمتنازعہ  رہنما کپل مشرانے بھی کم بدتہذیبی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہوں نے صفورہ کےمعاملے میں ٹوئٹ کر کےکہا کہ ان کی تقریر کو صفورہ کے حاملہ ہونےسے جوڑکر نہ دیکھا جائے۔ان کا اشارہ اس تقریرکی طرف  تھا، جس کے بعد مبینہ  طور پر دہلی میں دنگے بھڑکے تھے۔

سچائی یہ ہے کہ سال 2018 میں صفورہ کی شادی ایک کشمیری نوجوان سے ہوئی تھی۔ صفورہ اور ان کے اہل خانہ  پہلے سے ہی ان کے حمل  سے واقف تھے اور یہی وجہ تھی کہ ان کے وکیل نے صفورہ کے حمل کو دھیان میں رکھتے ہوئے اپریل میں ہی ان کی ضمانت کی عرضی لگائی تھی۔

صفورہ کے وکیل ریتیش نے دی وائر کو بتایا، ‘صفورہ معاملے میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا جس پر انگلی اٹھائی جانی چاہیے تھی۔ ایک خاتون  جو ایک اہم ادارے میں پڑھائی کر رہی ہے، شادی شدہ ہے اور حاملہ ہے۔ اس میں ایسا کیا ہے جو کسی کو ان کی کردار کشی  کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے؟’

ریتیش نے آگے کہا، ‘ان پر الزام لگا ہے، وہ معاملہ عدالت میں ہے، میں زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔’

صفورہ کو لےکر سوشل میڈیا پر اس طرح کے تمام میم اور پوسٹ شیئر کیے جا رہے تھے، جن میں کہا جا رہا تھا کہ صفورہ غیرشادی شدہ ہیں اور جیل میں میڈیکل ٹیسٹ کے دوران ڈاکٹرس کو ان کے حاملہ  ہونے کا پتہ چلا۔انہیں لےکر اعلیٰ درجے کی بے تکی اور گھٹیا پوسٹ شیئر ہو رہی تھیں، جن میں کہا جا رہا تھا کہ اپنے ھمل کو چھپانے کے لیے صفورہ میڈیکل ٹیسٹ کرانے پر آناکانی کرتی رہیں، لیکن اس دعوے میں دوردور تک کوئی سچائی نہیں ہے۔

سوشل میڈیا پر ہو رہی ایسی باتوں پر ہندی کی مشہور ادیبہ ممتا کالیا کہتی ہیں، ‘اگر صفورہ غیرشادی شدہ حاملہ  ہوتی، تب بھی کسی کو جج بننے کا حق نہیں مل جاتا۔ یہ کسی بھی خاتون  کی اپنی پسند ہے کہ وہ شادی سے پہلے ماں بننا چاہتی ہے یا شادی کے بعد۔’وہ آگے کہتی ہیں، ‘میری ہمدردی صفورہ کے ساتھ ہے۔ کسی کی شادی یا حاملہ ہونے کو لےکر جج بننے کا حق کسی کو بھی نہیں ہے۔خواتین کو بات بات پر کریکٹر سرٹیفیکٹ پکڑانے والے ان لوگوں پر بھی نکیل کسنے کی ضرورت ہے۔’

سوشل میڈیا پر چل رہی بیہودہ اور قابل اعتراض  باتوں میں صفورہ کے حمل کو شاہین باغ میں سی اے اےکےخلاف  ہوئے مظاہرہ  سے جوڑا گیا۔ایسے کئی پوسٹ آنکھوں سے ہوکر گزرے جن کے ذریعے یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ صفورہ غیرشادی شدہ ہے اور وہ شاہین باغ  کی مظاہرین میں سےہے۔

ان کے حاملہ ہونے  کی آڑ میں صفورہ کی کردار کشی کے بارے میں سماجی کارکن  کملا بھسین کہتی ہیں، ‘لوگ عورت کی عزت کرنا بھول گئے ہیں۔ مردوں کے لیے توعورت  یا تو عیاشی کا سامان رہ گئی ہے یا بے عزتی  کا۔’وہ آگے کہتی ہیں کہ صفورہ کے معاملے میں جو کچھ بھی ہوا، وہ ایک مہذب سماج میں قطعی برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ کو روناوبا کے اس دور میں ایک حاملہ خاتون جیل میں بند ہیں اور ہم اس پیدا ہونے والے بچہ کےباپ پر بحث کر رہے ہیں!

انہوں نے آگے کہا، ‘اس کی عزت،وقار کی دھجیاں ادھیڑی جا رہی ہیں، قیاس لگا رہے ہیں کہ وہ غیرشادی شدہ ہے۔ اس سے بڑی شرمسار کرنے والی بات کیا ہوگی کہ ہمارے اندر انسانی احساسات دم توڑ چکے ہیں جو ہم جیل میں بند ایک حاملہ خاتون  کی تکلیف کو محسوس کرنا تو دور اس کی کردار کشی  کرنے میں لگے ہیں۔’

مسلمان صفورہ کا جامعہ سے ہونا بھی جرم بن گیا

صفورہ ایک مسلم ہیں، جامعہ میں پڑھتی ہیں، جے سی سی سے بھی جڑی ہیں اور سی اےاے کے خلاف جامعہ میں ہوئے مظاہروں  میں بھی شامل رہیں۔ مبینہ طور پررائٹ ونگ رجحان والے لوگوں کے نشانے پر آنے کے لیے ان سبھی پہلوؤں کو بڑی وجہ مانا جا رہا ہے۔

صفورہ کی بہن سامیا کہتی ہیں، ‘ان پر جھوٹے الزام لگاکر انہیں پھنسایا گیا۔ پھر مذہب کی آڑ میں ایک پوری ٹرول آرمی ان کی کردار کشی میں مصروف رہی۔ صفورہ کا مسلمان ہونا اور جامعہ سے ہونا بھی ان کے لیے مصیبت کی وجہ بنا۔ وہی جامعہ جسے پچھلے کچھ سالوں سے سرکار کی عوا م مخالف پالیسیوں کے خلاف بولڈ ہوکر آواز اٹھانے والے ادارےکے طور پر دیکھا جاتا ہے۔’

سامیا نے صفورہ کے نام ایک کھلا خط بھی لکھا ہے، جس کو انہوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے۔

اسی معاملے پر اروشی بٹالیا کہتی ہیں، ‘ہمارے ملک میں مسلمانوں کی حالت کسی سے چھپی نہیں ہے۔ ایسے میں ایک مسلم خاتون ، جو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کیے ہوئے ہے، وہ آنکھ کی کرکری کی طرح لگےگی ہی۔’بٹالیا آگے کہتی ہیں، ‘ملک کے بڑے بڑےدانشور اورسماجی کارکنوں پر جھوٹے الزام لگاکر انہیں جیل میں ڈالا گیا ہے، صفورہ تو پھر بھی ایک عام اسٹوڈنٹ ہے، جو اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے ہوئی تھی۔ اور وہ جامعہ جیسے ادارے سے تعلق رکھتی ہے، جس کو یہ حکومت غداروں  اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ کاخطاب  دے چکی  ہے۔’

ممتا کالیا بھی صفورہ کے مسلمان  ہونے کو ان کے ساتھ ہوئے برتاؤ کے لیے ایک حد تک ذمہ دار مانتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ‘ہماری مرکزی حکومت شروعات سے ہی اقلیتوں  کوشک  کی نظر سے دیکھتی آئی ہے۔ وہ انہیں حقارت کی نظروں سے دیکھنے کی عادی ہے۔’

جیل میں بند صفورہ کی دقتیں

دہلی کی تہاڑ جیل میں بند صفورہ کے وکیل ریتیش نے دی  وائر کو بتایا، ‘ایک حاملہ خاتون جیل میں بند ہے، اس کی حالت  کیا ہوگی، اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ان پر یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔’ریتیش کہتے ہیں، ‘صفورہ کو ہفتے میں صرف ایک بار اپنے شوہر سے پانچ منٹ کے لیے فون پر بات کرنے کی اجازت ہے۔ پانچ منٹ میں بھی فون کٹ جاتا ہے۔ وہیں، مجھے ابھی تک صفورہ سے ملنے نہیں دیا گیا ہے جو پوری طرح سے غلط ہے اور ہم اس پر مناسب قانونی قدم اٹھانے کی سوچ رہے ہیں۔’

کو رونا وائرس کے اس بحرانی دورمیں جب احتیاط کے طور پر ملک  کی کئی جیلوں میں بند قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں ایک حاملہ خاتون  کے ساتھ اس طرح کا سلوک بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہی جائےگی۔

خواتین کی مخالفت ان کی  کردار کشی  سے شروع  ہوتی ہےاور اسی پر ختم ہوتی ہے

صفورہ کو لےکر پھیلائی گئی باتوں میں ان کے کام یا پڑھائی لکھائی کو لےکر کوئی بات ہے، یہ پہلو اسی تصور کی  تصدیق ہے کہ عورتیں زندگی میں کچھ بھی حاصل کر لیں، ان کا تجزیہ  ان کے کردار سے کیا جائےگا۔ ساتھ ہی ان کے نجی فیصلوں کو لےکر بھی سماج کا رویہ قدامت پسند ہی رہےگا۔

کارکن  گیتا یتھارتھ کہتی ہیں، ‘جس طرح کی غیر مہذب اور فحش زبان کا استعمال صفورہ کے لیے کیا گیا اس سے لگتا ہے کہ سماج ابھی 21ویں صدی کے مطابق سوچ نہیں پا رہا ہے۔ سماج اب بھی خواتین کے حاملہ ہونے کو لےکر سہج نہیں ہے۔ قانون کی نظروں میں بھلے ہی بنا شادی کے عورت ماں بن سکتی ہے لیکن سماج ابھی اس سطح پر تیار نہیں ہوا ہے۔’

وہ آگے کہتی ہیں، ‘دوسری اہم بات یہ ہے کہ صفورہ شادی شدہ ہیں لیکن ٹرول کے گھٹیا پن کے بعد ان افواہوں کو آگے لے جانے والے لوگوں نے ایک بار بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کہ صفورہ کا میریٹل اسٹیٹس کیا ہے؟ بس ایک فیک نیوز ملی اور پھیلا دیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم فیک نیوز کو قبول  کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔’

گیتا کہتی ہیں، ‘تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہندوستانی مردسیکسوئل فرنٹ پر خواتین  کے بارے میں غیر مہذب  بولنے اور لکھنے کے عادی ہیں۔ کسی بھی خاتون  کی مخالفت کرنے کے لیےمخالفین کے پاس سب سے پہلا اور آخری لفظ جنسی تشدد ہی ہوتا ہے، جب وہ گندہ لکھ کر یا بول کر اپنی بھڑاس نکالنا چاہتے ہیں۔’

وہ کہتی ہیں، ‘سوشل میڈیا خواتین  کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ کسی بھی رہنما کے بارے میں کسی بھی طرح کا غیر مہذب تبصرہ کرنے پر فوراً ایف آئی آر ہو جاتی ہے لیکن خواتین کو ٹرول کرنے پر کوئی ایکشن نہیں ہوتا۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، کتنی ہی لڑکیوں نے ٹرول سے تنگ آکر سوشل میڈیا چھوڑ دیا ہے۔’

اس بیچ ایمنسٹی انڈیا نے صفورہ کی گرفتاری کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے، ‘حکومت ہند نے بڑی بےرحمی  سے ایک حاملہ خاتون کو گرفتار کیا ہے اور اس کو کو رونا کے اس بحرانی  دور میں قیدیوں سے پٹی پڑی جیل بھیج دیا ہے۔ ہم صفورہ کی جلد رہائی کی مانگ کرتے ہیں۔’

ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ  کے ضابطوں  کے مطابق حاملہ خواتین  کے لیے شنوائی شروع ہونے سے پہلے پولیس کو ان کی گرفتاری کی جگہ دوسرے آپشن  تلاش کرنا چاہیے۔وہیں، اس پورے معاملے پر صفورہ کے شوہر سبور احمد سروال دی وائر سے کہتے ہیں، ‘میں سامنے آکر زیادہ کچھ کہنا نہیں چاہتا ہوں۔ صفورہ بے قصورہے اور ہم یہ لڑائی ساتھ مل کر لڑیں گی۔’