خبریں

اذان اسلام کا لازمی حصہ ہے، لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہیں: الہ آباد ہائی کورٹ

گزشتہ دنوں غازی پور،فرخ آباد اور ہاتھ رس کی  ضلع انتظامیہ  نے لاک ڈاؤن کے دوران مسجدوں کے اذان لگانے پر روک لگانے کا زبانی حکم دیا تھا۔ اس حکم کو رد کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ مؤذن مسجد سے اذان دے سکتے ہیں لیکن آواز بڑھانے والے کسی آلہ کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعہ  کو کووڈ 19 وبا کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن کے دوران اتر پردیش کی مسجدوں میں ایک مؤذن کے اذان دیےجانے کی اجازت دے دی لیکن یہ بھی کہا ہے کہ اس کے لیے کسی لاؤڈاسپیکر کا استعمال نہیں کیا جا سکےگا۔جسٹس ششی کانت گپتا اور جسٹس اجیت کمار کی بنچ نے کہا، ‘اذان اسلام کا ایک لازمی اور اہم حصہ ہو سکتا ہے، لیکن لاؤڈاسپیکر یا دوسرے کسی آواز بڑھانے والے آلہ کے ذریعے اذان دینے کو اس مذہب کا لازمی حصہ نہیں کہا جا سکتا ہے۔’

بتا دیں کہ گزشتہ دنوں غازی پور، فرخ آباد اور ہاتھ رس کی ضلع انتظامیہ نے لاک ڈاؤن کے دوران مسجدوں کے اذان لگانے پر روک لگانے کازبانی حکم دیا تھا۔ اس کے خلاف سابق مرکزی وزیر اور کانگریس رہنما سلمان خورشید، غازی پور لوک سبھا سیٹ کے ایم پی افضل انصاری اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ایس وسیم قادری نے ہائی کورٹ میں عرضیاں دائر کی تھیں۔

بنچ نے کہا، ‘ہماری رائے ہے کہ مسجد کی میناروں سے مؤذن لاؤڈ اسپیکر کے بغیر اذان دے سکتے ہیں اور انتظامیہ کو کووڈ 19 وباروکنے کےاحکامات کے بہانے اس میں کسی طرح کی رکاوٹ پیدا نہیں کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔انتظامیہ اس میں تب تک رکاوٹ پیدا نہیں کر سکتی جب تک کہ ایسے احکامات کی  خلاف ورزی  نہ کی جائے۔’

انڈین ایکسپریس کے مطابق، عدالت نے اپنے آرڈر میں یہ بھی کہا ہے کہ صرف وہی مسجدیں لاؤڈاسپیکر کا استعمال کر سکتی ہیں، جن کے پاس اس کی تحریری اجازت پہلے سے ہے۔ جن کے پاس نہیں ہے، وہ لاؤڈاسپیکر کے استعمال کے لیے درخواست کر سکتے ہیں۔بنچ نے یہ بھی صاف کیا کہ کسی بھی صورت میں ضلع انتظامیہ  رات دس بجے سے صبح 6 بجے کے بیچ کسی لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت نہیں دے سکتی ہے۔ ساتھ ہی لاؤڈاسپیکر کی اجازت والی مسجدوں کو بھی آلودگی سے متعلق ضابطوں  پر عمل کرنا ہوگا۔

اپنی عرضی میں غازی پور ایم پی  افضل انصاری نے کہا تھا کہ ضلع کی عوام  کے مذہب پر عمل  کرنے کے بنیادی حق  کی حفاظت ہونی چاہیے اور ریاستی حکومت کو غازی پور کی مسجدوں سے صرف ایک ہی شخص کے اذان دیے جانے کی اجازت دی جانی چاہیے کیونکہ اس سے کو رونا وبا کے مد نظر دی گئی کسی ہدایت کی خلاف ورزی  نہیں ہوتی ہے۔

وہیں کانگریس رہنما سلمان خورشید کا کہنا تھا کہ اذان اسلام کا لازمی حصہ ہے اور یہ کسی بھی طرح وبا کو لےکر سماجی ردعمل  پر اثر نہیں ڈالتی ہے۔اس کے جواب میں اتر پردیش سرکار نےاپنے حلف نامے میں کہا تھا کہ اذان مسجد میں لوگوں کوعبادت کے لیے اکٹھا کرنے کے لیے دی جاتی ہے، اس لیے یہ کو رونا وبا کے مد نظر جاری احکامات کی خلاف ورزی ہے۔

اس اخبار سے بات کرتے ہوئے سرکار کی طرف سے پیش ہوئے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل منیش گوئل نے بتایا کہ ہائی کورٹ کے اس آرڈرکو چیلنج  دینے کے بارے میں محکمہ قانون کے ذریعے فیصلہ لیا جائےگا اور وہ  اس بارے میں کوئی تبصرہ  نہیں کر سکتے ہیں۔وہیں عرضی گزاروں کی طرف سے آئے وکیل صفدر علی کاظمی کا کہنا تھا کہ وہ عدالت کے فیصلے سے مطمئن ہیں۔ انہیں اذان کی اجازت چاہیے تھی ، جو عدالت نے دے دی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں معروف اسکرپٹ رائٹر اور شاعر جاوید اختر نے بھی لاؤڈ اسپیکر پر اذان دیے جانے کو لے کر اعتراض کیا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ،ندوستان  میں تقریباً 50سال تک لاؤڈاسپیکر پر اذان دینا حرام تھا۔ اس کے بعد یہ حلال ہو گیا اور اس قدر حلال ہوا کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں رہی۔ اذان دینا ٹھیک ہے لیکن لاؤڈاسپیکر پر اذان دینے سےدوسروں کوپریشانی ہوتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ کم سے کم اس بار وہ اس کو خود کریں گے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)