فکر و نظر

رویش کا بلاگ: اپنے ماسٹر کا ہو چکا ہے مڈل کلاس، اس کو پیکیج نہیں، تھالی بجانے کا ٹاسک چاہیے

مڈل کلاس کو پتہ ہے کہ چھہ سال میں اس کی کمائی گھٹی ہی ہے، بزنس میں غچا ہی کھایا ہے۔ اس کے مکانوں کی قیمت گر گئی ہے، ہر ریاست میں سرکار نوکری کے پروسس کی حالت بدتر ہے، وہ سب جانتا ہے، لیکن یہ پریشانیاں نہ تو نوجوانوں کی ترجیحات میں  ہیں اور نہ ہی ان کے مڈل کلاس والدین کی۔

 (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

اپنے ماسٹر کا ہو چکا ہے مڈل کلاس، اس کوپیکیج نہیں، تھالی بجانے کا ٹاسک چاہیے۔کووڈ19نےہندوستان کے مڈل کلاس کا نیا چہرہ پیش کیا ہے، جس چہرے کو بنانے میں چھ سال لگے ہیں آج وہ چہرہ دکھ رہا ہے۔نقادحیران ہیں کہ نوکری اور سیلری گنوا کر مڈل کلاس بول کیوں نہیں رہا ہے؟ مزدوروں کی حالت پر مڈل کلاس چپ کیسے ہے؟

میں نے پہلے بھی لکھا ہے اور پھر لکھ رہا ہوں کہ جب مڈل کلاس اپنی بدتر حالت پر چپ ہے تو مزدوروں کی حالت پر کیسے بولے۔ مڈل کلاس کوئی مستقل جگہ نہیں ہے۔ اس لیے اس کی تعریف بھی مستقل نہیں ہو سکتی ہے۔میں آج کے مڈل کلاس کو ماسٹر کا مڈل کلاس کہتا ہوں۔ وہ مڈل کلاس نہیں رہا جو ماسٹر کو ڈراتا تھا یا ماسٹر جس سے ڈرتا تھا۔ ہندوستان کے مڈل کلاس کی دبی ہوئی حسرت تھی کہ کوئی ایسا ماسٹر آئے جو ہنٹر ہانکے۔

اس لیے اس کو پریشانیوں کا حل یا توفوج کے ڈسپلن میں نظر آتا تھا یا پھر ہٹلر کے اوتار میں۔ ہندوستان کا مڈل کلاس اب جمہوری  خواہش  کاطبقہ نہیں رہا۔ اس لیے جمہوری اداروں کے زوال کا وہ بولڈمخالف بھی نہیں رہا۔ممکن ہے مڈل کلاس سیلری کٹنے یا نوکری ہی چلے جانے سے اداس ہو، لیکن وہ باہر سے اس ہوا کے ساتھ دکھنا چاہتا ہے جسے وہ بناتا رہا ہے۔ اس نے اس ہوا کے خلاف اٹھنے والے ہر سوال کو کچلنے میں ساتھ دیا ہے۔

گودی میڈیا کو ناظراسی مڈل کلاس نے دستیاب کرائے۔ عدم اتفاق پر گودی میڈیا کے لیے حملہ تک کیا۔ اب اگر مڈل کلاس کے اندر کسی طرح کی بےچینی یا ناراضگی ہے بھی تو وہ کون سا چہرہ لےکر اس میڈیا کے پاس جائےگا جس کے گودی میڈیا بننے میں اس کا بھی رول رہا، اس لیے وہ اپنی چپیوں میں قید ہے۔

یہ غیرمعمولی بات ہے۔ اگر اس ملک میں کروڑوں لوگ بےروزگار ہوئے ہیں تو اس میں مڈل کلاس کے تمام زمروں  کے بھی لوگ ہوں گے۔ لیکن انہوں نے اکا دکا معاملوں کو چھوڑ کراپنی بےچینی ظاہر نہیں کی۔ اپنے لیے بےروزگاری بھتہ نہیں مانگا۔مڈل کلاس نے چھ سال سے اٹھنے والی ہر آواز کو کچلنے کا کام کیا ہے۔ اس کو پتہ ہے کہ آواز کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ وہ جس گودی میڈیا کامحافظ بنا رہا ہے، اس سے بھی نہیں کہہ سکتا کہ ہماری آواز اٹھائیں۔

نریندر مودی نے ایک ایسے مڈل کلاس کو بنایا ہے جو اپنے طبقاتی مفاد کاغلام نہیں ہے۔ اس کامفادصرف نریندر مودی ہیں۔ یہ اسٹیٹ کا طبقہ ہے۔ یعنی سرکار کاطبقہ ہے۔ یہ وہ مڈل کلاس ہے جو صرف سرکار کی تعریف کرنا چاہتا ہے اور تعریف میں چھپی خبروں کو پڑھنا چاہتا ہے۔

اس مڈل کلاس نے آئی ٹی سیل کو کھڑا کیا۔ اس کی زبان کو سماجی بنیاد دیا۔ سرکار کے حق میں کھڑے صحافیوں  کو ہیرو بنایا۔ یہ طبقہ کہیں سے کمزور نہیں ہے، اس لیے میں نے کئی نقادوں  کو کہا ہے کہ مڈل کلاس کی چپی کو کسی اور طرح سے  نہ لیں۔بےروزگاری کے مدعے سے مڈل کلاس کے نئے بنے قومی کردار کو توڑنے والے دھوکہ کھا چکے ہیں۔ اس مڈل کلاس کو پتہ ہے کہ چھ سال میں اس کی کمائی گھٹی ہی ہے۔ اس کا بزنس غچا ہی کھایا ہے۔ اس کے مکانوں کی قیمت گر گئی ہے۔

یہ سب وہ جانتا ہے۔ لیکن یہ سب اس کی ترجیحات میں نہیں ہے۔ اس طبقہ نے بےروزگاری جیسے بڑے مدعے کو ہندوستان کی سیاست سے ختم  کر دیا۔ تبھی تو ہریانہ سرکار نے جب کہا کہ ایک سال تک سرکاری نوکری میں بھرتی نہیں ہوگی تو مڈل کلاس نے اس کو بھی خوشی خوشی قبول  کیا۔

ہر ریاست میں سرکار نوکری کا پروسس بدتر ہے لیکن یہ نہ تو ان نوجوانوں کی سیاسی ترجیحات ہے اور نہ ہی ان کے مڈل کلاس والدین کی۔مڈل کلاس کی پہچان بےروزگاری کی آگ اور نوکری کے اندرزندگی کی حدوں  سے بنی تھی۔ آج کا مڈل کلاس ان حدوں  سے آزاد ہے۔ مڈل کلاس مدعوں کا طبقہ نہیں ہے۔ گزشتہ  چھ برسوں  میں اس نے کئی  مدعوں کو کچل دیا۔

سیاست کو اقتصادی وجوہات کے چشمے سے دیکھنے والے تاریخٰ طور پر بھلے سہی رہے ہوں، لیکن ہندوستان کی تاریخ کے اس عرصے میں وہ غلط ہیں۔ دھیان رہے میں نے مڈل کلاس کو مستقل طبقہ نہیں کہا ہے۔ جب بدل جائےگا تب بدل جائےگا، مگر آج وہ ایسا ہی ہے۔

کوئی بھی طبقہ  ایک تعریف  میں نہیں سما سکتا ہے۔ ہر طبقہ  کے اندر کئی طبقےہوتے ہیں۔ مڈل کلاس کے اندربھی ایک چھوٹا طبقہ ہے۔ مگر وہ سیاست یا سرکاروں پر پڑنے والے دباؤ کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔وہ اپنی اخلاقیات کے لیے جوابدہ ہے۔ اس لیے وہ اپنی کمائی لٹاکرخدمت خلق کر رہا ہے۔ لیکن اس کی یہ خدمت ا بھی اپنے طبقہ  کوجھنجھوڑ نہیں پا رہی ہے کہ اب تو بولا جائے۔

مڈل کلاس کے اندر کا یہ دوسرا طبقہ اپنے طبقہ کے مفادسے الگ ہے۔ مایوس ہے۔ لیکن وہ قبول نہیں کر پا رہا کہ اس کے طبقہ کا بڑا حصہ بدل گیا ہے۔ اس کا تشکیل نو ہوا ہے۔ اچھا ہو چاہے برا ہو لیکن یہ وہ مڈل کلاس نہیں ہے جسے آپ کسی پرانے پیمانوں سے سمجھ سکیں۔

اس متوسط طبقہ کی پہچان طبقہ سے نہیں ہے۔مذہب سے ہے۔ ممکن ہے مذہب کی آدھی ادھوری سمجھ ہو، لیکن اس کے اس تشکیل نو میں مذہب کا بہت اہم رو ل رہا ہے۔ یہ طبقہ معیشت سے متحرک یا متاثر نہیں ہوتا ہے۔اس نے کئی بار ایسے اقتصادی بحران  کو درکنار کر دیا ہے۔ اس لیے تجزیہ کار اس کی معاشی  پریشانیوں میں سیاسی امکانات تلاش کرنے کیبے مطلب کوشش نہ کریں۔ قبول کریں کہ وزیر اعظم  مودی نے اپنے لیے ایک طبقہ کو بنایا ہے۔

یہ وہ طبقہ ہے جس کے کھاتے میں 15 لاکھ روپے نہ جانے کا آپ نے کتنا مذاق اڑایا لیکن اس طبقہ نے مذاق اڑانے والوں کو دھوئیں میں اڑا دیا۔ مخالفین کو امید تھی کہ 15 لاکھ کی بات یاد دلانے سے مڈل کلاس کو ٹھیس پہنچے گا۔ مڈل کلاس نے یاد دلانوں والوں کو ہی ٹھیس پہنچا دیا۔

جب اس مڈل کلاس نے 15 لاکھ کی بات کو اہمیت نہیں دی تو آپ کو کیوں لگتا ہے کہ وہ اقتصادی  پیکیج میں پانچ یا پچاس ہزار کا انتظار کرےگا۔ نوٹ بندی کے وقت بربادی اس طبقہ کو بھی ہوئی لیکن اس نے اپنی قومی پہچان کے سامنے دھندے کی بربادی کے سوال کو نہیں آنے دیا۔

تجزیہ کار اس بدلاؤ کا مطالعہ ےیشک کریں مگر اس بحران میں سیاسی تبدیلی کی امید نہ کریں۔ ان کا تجزیہ کمزور پڑ جائےگا۔ مڈل کلاس کا غرور بدل گیا ہے۔مڈل کلاس کو اپنے تجربات سے پتہ ہے کہ میک ان انڈیا فیل کر گیا۔ اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کے نام پر وہ ہنستا ہے۔ وہ آتم نربھر بھارت کی جملے بازی کو بھی جانتا ہے۔ وہ ہر طرح کے جھوٹ کو جانتا ہے۔ اس نے جھوٹ کو سچ کا اعلان سوچ سمجھ کر کیا ہے۔

اس نے گودی میڈیا کو اپنا میڈیا یوں ہی نہیں بنایا ہے۔ اس کے اندر کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ اس لیے وہ سیاسی  دباؤ نہیں بنائےگا۔ اپنی بات دھیرے سے کہے گا۔ کسی سے کہے گا۔ مجھ سے بھی کہے گا تو پورا دھیان رکھےگا کہ اس سے اس کے اندر کوئی نئی سیاسی کارروائی  شروع نہ ہو جائے۔

مطلب وہ مودی جی کی تنقید بالکل نہیں کرےگا۔ وہ تھالی بجانا چھوڑ کر مشعل اٹھانے والا نہیں ہے۔ وہ بینر لےکر جلوس میں جانے والا نہیں ہے، اس لیے جب بھی وہ پریشانی  بتائے تو آپ چپ چاپ اسے لکھ دیں۔ آواز اٹھا دیں۔ آپ کا کام ختم  ہوتا ہے۔کووڈ 19 کے بحرانی دور میں ہندوستان کے مڈل کلاس نے اپنے لیے کسی بھی مانگ کو لےکر بولڈنیس نہیں دکھایا۔ بےشک چلتے پھرتے کہا کہ سیلری کیوں کٹی، نوکری کیوں گئی، ای ایم آئی کیوں نہیں کم ہوئی لیکن کہنے کے بعد وہی بھول گیا کہ اس نے کیا کہا۔

اب سرکار پر منحصر کرتا ہے کہ اس نے چھ سال میں جس مڈل کلاس کوبنایا ہے اس کو کیا دیتی ہے۔ نہیں بھی دےگی تو بھی سرکارمطمئن ہو سکتی ہے کہ اس کی بنائی عمارت اتنی جلدی نہیں گرنے والی ہے۔ یہ مڈل کلاس اس کا ساتھی طبقہ ہے۔ایک صحافی کی نظر سے مجھے یہ بات حیران ضرور کرتی ہے کہ مودی سرکار نے مڈل کلاس کے بارے میں کیوں نہیں سوچا؟ اور نہیں سوچا تو مڈل کلاس نے آواز کیوں نہیں اٹھائی؟ دوچار لوگ بےشک بولتے سنائی دیے، لیکن ایک طبقہ کی آواز نہیں سنائی دی۔

ہندوستان کا مڈل کلاس اب لمبے مضمون بھی نہیں پڑھنا چاہتا ہے۔ چاہے اس میں اس کے بھلے کی بات کیوں نہ لکھی ہو۔ اسے سب کچھ وہاٹس ایپ میم کی شکل میں چاہیے۔ ای ایم آئی پر جینے والا یہ طبقہ علم بھی قسطوں  پر چاہتا ہے۔ میم اس کے علم کی ای ایم آئی ہے۔

اس کا سپنا بدل گیا ہے۔ وہ ٹک ٹاک پر اپنے آپ کو ناکارہ  ثابت کرنے میں مصروف ہے۔ آپ ٹک ٹاک میں مڈل کلاس کی زندگی اورخواہشات  میں جھانک کر دیکھ سکتے ہیں۔ہوشیار رہنما اگر اقتصادی  پیکیج کی جگہ اچھا سیریل دے دے، تو مڈل کلاس کی شامیں بدل جائیں گی۔ وہ اس سیریل میں پہنے گئے کپڑوں اور بولے گئے مکالموں کو جینے لگےگا۔ قومی بحران  کے اس دور میں مڈل کلاس کے قومی کردار کا درشن ہی نہ کر پائے، تو کس بات کے سماج شاستری ہوئے آپ۔

(یہ مضمون  رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)