خبریں

مودی کے اقتصادی پیکیج کا  10 فیصدی سے بھی کم حصہ غریبوں اور بے روزگاروں کی راحت کے لیے ہے

سرکار نے راحت پیکیج کا 90 فیصدی سے زیادہ حصہ قرض، انٹریسٹ پر چھوٹ دینے وغیرہ  کے لیے اعلان  کیا ہے، جس کا فائدہ بڑے بزنس والے ہی ابھی اٹھا رہے ہیں۔ اگرزیادہ لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ دیا جاتا تو وہ اس کو خرچ کرتے اور اس سے کھپت میں اضافہ ہوتا، جس سے معیشت کو از سرنو زندہ  کرنے میں کافی مدد ملتی۔

فائل فوٹو : پی ٹی آئی

فائل فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی: وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے اعلان کیے گئے 20 لاکھ کروڑ روپے کے اقتصادی  پیکیج کی تفصیلات دینے کے کام کو مکمل کر لیا ہے۔سیتارمن نے اپنے پچھلے پانچ پریس کانفرنس میں کل ملاکر 11.02 لاکھ کروڑ روپے کے اعلانات کیے۔ اس سے پہلے وزیر خزانہ نے پردھان منتری غریب کلیان پیکیج کے تحت 1.92 لاکھ کروڑ روپے اور ریزرو بینک آف انڈیانے 8.01 لاکھ کروڑ روپے کا اعلان  کیا تھا۔

اس طرح کو رونابحران  سے نجات پانے کے نام پر اب تک میں مرکزی حکومت نے کل ملاکر 20.97 لاکھ کروڑ روپے کا اعلان  کیا ہے، جو کہ جی ڈی پی کا تقریباً 10 فیصدی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کو ‘آتم نربھر بھارت پیکیج’ نام دیا ہے۔بادی النظر میں ایسا لگ سکتا ہے کہ سرکار نے عوام کی مدد کے لیے بہت زیادہ رقم  کا اعلان کیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے اس رقم کا بہت کم حصہ ہی لوگوں کو سیدھےاقتصادی مدد یا راشن یا برہ راست  ٹرانسفر کے طورپر دیا جانا ہے، باقی کا پیسہ بینک گارنٹی یعنی کہ لون یا قرض کے طورپر دیا جائےگا۔

اقتصادی راحت پیکیج کے پانچوں حصوں کا اندازہ  کرنے سے پتہ چلتا ہے کل 20 لاکھ کروڑ روپے کا 10 فیصدی سے بھی کم یعنی کہ دو لاکھ کروڑ روپے سے بھی کم کی رقم  لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ یا راشن دینے میں خرچ کیا جانا ہے۔ یہ رقم جی ڈی پی کے ایک فیصدی سے بھی کم ہے۔باقی 90 فیصدی رقم یعنی کہ تقریباً 19 لاکھ کروڑ روپے بینک لون، ورکنگ کیپٹل، آر بی آئی کے ذریعے انٹریسٹ ریٹ میں کٹوتی، پہلے سے ہی چلی آ رہی اسکیموں اور اس سال کے بجٹ میں اعلان کیے گئے منصوبوں کے مختص  کے طورپر دیا جانا ہے۔

کو روناوباکی وجہ سے پیدا  ہوئے اس غیر متوقع بحران کے حل کے طور پر کئی ماہرین اقتصادیات اور یہاں تک کہ بزنس مین بھی یہ بات کہہ رہے تھے کہ ایسے وقت میں لوگوں کے ہاتھ میں پیسے دینے کی زیادہ ضرورت ہے، تاکہ وہ جب اس پیسے کو خرچ کریں گے تو کھپت بڑھےگی اور معیشت کو پھر سے کھڑا کرنے میں مدد ملے گی۔

حالانکہ وزیر خزانہ کے اعلانات نے ان سبھی کو مایوس کیا ہوگا کیونکہ لوگوں کے ہاتھ میں رقم دینے کا حصہ بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ سستی شرح پر قرض دینے کے لیے جو بھی اعلانات ہوئے ہیں اس کا فائدہ بھی بڑے بزنس مین کو مل رہا ہے۔ چھوٹے بزنس مین کو کب سے لون ملنا شروع ہوگا اور وہ کب سے اپنا کام شروع کر پائیں گے، ابھی تک یہ صاف نہیں ہے۔

شروع میں آربی آئی نے جو لکوڈیٹی یعنی کہ قرض لینے پر انٹریسٹ سے کچھ چھوٹ دینے کا اعلان  کیا تھا، اس کا بھی سب سے زیادہ فائدہ بڑے بزنس مین جیسے امبانی، ٹاٹا، برلا نے اٹھایا ہے۔ صرف ریلائنس انڈسٹریز لمٹیڈ(آر آئی ایل)نے ہی 12000 کروڑ روپے کا قرض ساڑھے سات فیصدی کی شرح سے مارکیٹ سے اٹھایا ہے۔

ملک میں کل ملاکر تقریباً 50 کروڑ مزدور ہیں اور اس میں سے تقریباً 12 کروڑ لوگ بےروزگار ہیں اور دوسرے 20 کروڑ ایسے لوگ ہیں جو اپنی نوکری چھوڑکر گھر چلے گئے ہیں اور انہیں پتہ نہیں ہے کہ وہ دوبارہ کب اپنا کام شروع کر پائیں گے۔اس طرح تقریباً 32 کروڑ لوگ گھر بیٹھے ہیں اور انہیں پتہ نہیں ہے کہ اگلے تین چار مہینے ان کی زندگی کیسے چل پائےگی۔ ایسے میں ان لوگوں کو فوری  راحت اور ہاتھ میں پیسے دینے کی ضرورت تھی۔ ان کے ہاتھ میں پیسہ آنے پر کھپت میں اضافہ  ہوتا، جس سے معیشت کو پھر سے زندہ  کرنے میں کافی مدد ملتی۔ حالانکہ سرکار نے ایسا نہیں کیا۔

ریاستوں کو اپنے قرض کی حد کو ریاست کی  جی ڈی پی کی تین فیصدی سے بڑھاکر پانچ فیصدی کرنے کی آزادی  دی گئی ہے۔ یہ ریاستوں  کی لمبےعرصےسے مانگ تھی۔ اب ریاستوں  کو اضافی 4.8 لاکھ کروڑ روپے قرض لینے کی اجازت ملے گی۔ اس سے ریاستوں  کو اپنی زیادہ خرچ والی ضروریات  کا پورا کرنے میں مدد ملے گی۔

راحت میں محض 10 فیصدی اور 90 فیصدی اصلاحات میں خرچ

اقتصادی پیکیج کی تفصیلات سے یہ صاف ہے کہ سرکار راحت کی جگہ اصلاحات کر رہی ہے۔ جی ڈی پی کی ایک فیصدی سے بھی کم رقم لوگوں کی راحت کے لیے ہے اور باقی سارا پیسہ اصلاحات میں خرچ ہوگا۔ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ سرکار دوسرے ملکوں کی ریٹنگ ایجنسیوں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خوش کر سکے اور اس کے بدلے میں وہ ہندوستان  کی اقتصادی ریٹنگ میں گراوٹ نہ لائیں۔

جبکہ آر ایس ایس کی  بھارتیہ مزدور سنگھ سمیت کئی تنظیموں  اور ماہرین ملک  کے اندر ہی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔مرکزی حکومت کے اس اقتصادی راحت پیکیج میں جو اصلاحات پیش کئے گئے ہیں اس سے بڑی بڑی کمپنیوں کا ہی فائدہ ہوگا، چھوٹے کاروباریوں کا نہیں۔ کوئلہ کان کے پرائیویٹائزیشن ، کانٹریکٹ فارمنگ، ضروری اشیاایکٹ میں ترمیم جیسےاصلاحات سے بڑے بزنس میں  کو ہی فائدہ ملنے والا ہے۔

یہ کافی حیران کن ہے کہ اس وبا اور شدیدبحران  کے بیچ میں عوام کی مدد کرنے کے نام پر سرکار قرض بانٹ رہی ہے۔ چاہے چھوٹا کاروبار ہو، زراعتی شعبہ ہو، مدرا یوجنا ہو اور یہاں تک کہ سرکار ریہڑی پٹری والوں کو بھی کہہ رہی ہے کہ آپ ہم سے قرض لے لیجئے اور کام شروع کیجئے۔

یہاں ایک سادہ  سی سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو شخص  پہلے سے ہی اتنی بری حالت میں ہے وہ قرض  کیسے لے سکےگا۔ سرکار فلاح کے نام پر لوگوں کو قرض  دے رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ 80 فیصدی چھوٹے کاروبارہمیشہ اپنے خود کے وسائل سے کام کرتے ہیں، وہ قرض نہیں لیتے۔ چھوٹے کاروباریوں کا بینکوں میں بھروسہ  نہیں ہے، ہندوستانی سماج کے لوگ ہمیشہ قرض  لینے سے بچتے ہیں۔

حالانکہ ابھی یہ دیکھنے والی بات ہے کہ کتنے لوگ قرض  لیں گے۔ چھوٹے کاروباریوں نے یہ مانگ کی تھی کہ جو اسٹاف گھر بیٹھے ہیں،اگر سرکار انہیں سیلری دے دیتی ہے تو یہ بہت بڑی راحت ہو جائےگی۔ حالانکہ سرکار نے تو ایسا نہیں کیا۔سرکار کی دلیل ہے کہ وہ کیش اس لیے نہیں دے پا رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ جبکہ دوسرے ترقی پذیر ممالک جیسے کہ جنوبی کوریا، برازیل، انڈونیشیا ان سب کامظاہرہ ہندوستان کے مقابلے کافی اچھا ہے۔

انہوں نے چار فیصدی کے آس پاس ریونیو دیا ہے، جس میں صرف ایک فیصد کریڈٹ گارنٹی ہے اور باقی تین فیصد براہ راست حوصلہ افزائی ہے۔ہندوستان  میں یہ بالکل الٹا ہے۔کمیونسٹ، ماہرین اقتصادیات اوربزنس مین ہر طرف کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ دینا چاہیے تھا۔ عظیم پریم جی راجیو بجاج جیسے کاروباریوں نے بھی بولا ہے کہ لوگوں کے ہاتھ میں پیسے دینا زیادہ اچھا ہے۔

ایسا یہ لوگ اس لیے بول رہے ہیں کہ کیونکہ جب تک 32 کروڑ مزدوروں کے ہاتھ میں پیسہ نہیں جائےگا تو وہ چیزیں نہیں خریدیں گے، جب وہ خریداری نہیں کریں گے تو معیشت میں کھپت کیسے آئےگا اور جب کھپت نہیں ہوگا تو کاروباریوں کے پروڈکٹ بکیں گے نہیں۔ یہ معاملہ صرف غریبوں کا ہی نہیں بلکہ بڑے بزنس مین  کے مستقبل  کا بھی سوال ہے۔

(دی  وائر کے بانی مدیرایم کے وینو کے سے بات چیت پرمبنی)