خبریں

پیدل چل رہے مہاجرین کو پینے کا پانی اور طبی سہولیات فراہم کرائے حکومت: آندھرا پردیش ہائی کورٹ

آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے پیدل اپنے گھروں کو لوٹ رہے مہاجر مزدوروں کو سہولیات فراہم کرانے کے لیے ریاستی حکومت کو ہدایت  جاری کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ مزدوروں کے موجودہ حالات کے مد نظر حکم جاری نہیں نہیں کرتی ہے، تو یہ ‘محافظ اور پریشانیوں کو دور کرنےوالا’کے طور پر اس کے رول  کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے پیدل اپنے گھروں کو لوٹ رہے مہاجر مزدوروں کی قابل رحم حالت  پر دھیان دیتے ہوئے انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے جمعہ کو ہدایت جاری کئے۔لائیو لاء کے مطابق، عدالت نے کہا‌ کہ اگر وہ مزدوروں کے  موجودہ حالات  کے مد نظر حکم جاری نہیں نہیں کرتی ہے، تو یہ ‘محافظ اور پریشانیوں کو دور کرنے والا’کےطور پر اس کے رول  کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔

جسٹس ڈی وی ایس ایس سومیاجلو اور جسٹس للتا کانیگنیتی کی بنچ نے سرکار کو مہاجرین کے لیے کھانا، ٹوائلٹ اور طبی امداد وغیرہ کی فراہمی کو یقینی بنانے کا حکم دیا۔کورٹ نے کہا یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ہم سبھی آرام سے رہیں، جو محنت کش اپنے پشتینی گھروں اور گاؤں کوچھوڑکر بہتر روزگار کے لیے شہروں میں آ گئے، وہ آج سڑکوں پر ہیں۔

کورٹ نے کہا، ‘یہ وہ لوگ ہیں، جو سینکڑوں قسم کے کام کرتے ہیں۔ یہ سبھی مل کر یہ طے کرتے ہیں کہ ہم آرامدہ زندگی بسر کرسکیں۔اگر اس سطح پر، یہ عدالت اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کرتی ہے اور حکم  پاس نہیں کرتی ہے، تو یہ عدالت  محافظ کے طور پر اپنے رول سے انصاف نہیں کر پائےگی۔آئین  کے آرٹیکل 21 کے تحت فراہم “زندگی” کے حق  کی حدبھی اس صورت حال  کو دھیان میں رکھےگی۔’

بنچ  نے مہاجر مزدوروں کی بدتر حالت کی ‘خبروں’ پر بھی دھیان دیا۔ کورٹ نے ‘ای ناڈو’ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا کہ 13 مئی 2020 اور 14 مئی 2020 کے بیچ، 24 گھنٹے کی مدت میں، 1300 لوگوں نے ایک چیک پوسٹ کو سائیکل یا پیدل پار کیا تھا۔ 1000 محنت کش لاری یا دوسرے وسائل سے گئے۔

کورٹ نے ان رپورٹس کا بھی ذکر کیا، جن میں یہ بتایا گیا تھا کہ ایک خاتون  نے ناسک سے سٹھانی جاتے ہوئے راستے میں ایک بچہ کو جنم دیا۔ انہی رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ زچگی کے دو گھنٹے بعد، خاتون  نے پھر پیدل چلنا شروع کر دیا اور 150 کیلومیٹر تک پیدل چلی۔ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے اس رپورٹ پر دھیان دیا ہے۔ وہیں رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ممبئی میں چھوٹی دوری طے کرنے کے لیے بھی ایمبولینس 8000 روپے لے رہی ہیں۔

کورٹ نے کہا کہ حالات “خطرناک’ ہے اور ‘فوری طور پر دخل اندازی’ کی ضرورت ہے۔کورٹ نے کہا، ‘گرمی بڑھنے کے باوجود کورٹ نے نوٹس کیا ہے کہ سینکڑوں مہاجر مزدور اپنے بچوں اور سامان کے ساتھ سڑکوں پر پیدل گزر رہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے کچھ انتظامات کیے ہیں جس کے تحت ہر50 کیلومیٹر کی دوری پر مہاجر مزدوروں کی مدد کے لیے فوڈ کاؤنٹر بنایا گیا ہے۔ راحت سینتر بھی قائم  کیے گئے ہیں۔ حالانکہ اوپر جیسا بتایا گیا ہے، انہیں دیکھتے ہوئے، ہماری رائے ہے کہ مندرجہ ذیل ضمنی انتظامات کو ترجیح کی بنیادپر فوری اثر سےنافذ کیا جانا چاہیے۔’

کورٹ نے مہاجر مزدوروں کے متعلق یہ ہدایات دیے

مہاجر مزدوروں کے لیے کھانے کا خاطر خواہ انتظام کیا جانا چاہیے اور قومی شاہراہ  سے گزر رہے مزدوروں کو بانٹا جانا چاہیے۔

ریاست کے ذریعےبنائے گئے آؤٹ پوسٹ سینٹروں  پر پینے کے پانی، اورل ‌ڈی ہائیڈریشن سالٹ اور گلوکوز کا انتظام  کیاجائے اور اسے مہاجر مزدوروں کو دیا جائے۔

چونکہ بڑی تعداد میں خواتین بھی پیدل چل رہی ہیں، اس لیے صاف ستھرے عارضی ٹوائلٹ کا انتظام  کیا جانا چاہیے، جن میں خاتون کی پرائیویسی یقینی ہو۔ سبھی مراکز پر سینٹری پیڈ ڈسپنسنگ مشینوں کا انتظام کیا جانا چاہیے۔

جن لوگوں کو چلنے میں پریشانی ہو رہی ہے، انہیں قریب کے کیمپ  تک سرکاری اور پولیس کے گشتی گاڑیوں سے پہنچایا جانا چاہیے۔ مہاجر مزدوروں  کو چلنے سے روکنے کی کوشش کی جائے اور انہیں ریاستی حکومت کے ذریعے فراہم  کی گئی  گاڑی  کو ذریعے منزل  تک بھیجا جانا چاہیے۔

سبھی پولیس اور ریونیوحکام کو سبھی مراکز/فوڈ کاؤنٹروں کے بارے میں واقف کرایا جانا چاہیے اور انہیں ایسے مراکز کی طرف جانے والے مہاجر مزدوروں  کی رہنمائی کرنی چاہیے۔

مزدوروں  کو کیمپوں  کی جانکاری دینے کے لیے اشتہارکو ہندی اور تیلگو میں چھاپا جانا چاہیے اور انہیں فون نمبروں کی ایک فہرست دی جائے، جس سے وہ ایمرجنسی  میں رابطہ کر سکیں۔

ان احکامات کے علاوہ کورٹ نے کہا کہ مہاجرین کے لیے بنائے جا رہے کیمپوں پرخاطرخواہ  پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جانا چاہیے، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سوشل ڈسٹنسنگ اور ڈسپلن بنا رہے۔تربیت یافتہ پیرامیڈیکل رضاکاروں یا ڈاکٹروں کی  ہر سینٹر پرتقرری کی جائے، ساتھ ہی سن اسٹروک متاثرین  کے لیے ایک موبائل لائن اور ایمبولینس ہمیشہ تیار رکھی جائے۔ مہاجر مزدورو ں  کی مدد کے لیے ایک کال پر ایمبولینس دستیاب ہونی چاہیے اور ریاست کے خر پر انہیں فوراًطبی امداد کے لیے قریبی اسپتالوں یاہیلتھ سینٹروں  میں پہنچانا چاہیے۔

ہر ضلع مجسٹریٹ اورایس پی کوریونیو محکمہ اور پولیس محکمہ  سے سینئر رینک(تحصیلدار/ڈی ایس پی وغیرہ) کے ایک اسٹاف کو نوڈل افسر مقرر کرنا چاہیے تاکہ وہ کیمپ وغیرہ کی دیکھ ریکھ اور ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کر سکیں۔اگر اسٹاف کی کمی ہو تو ڈسٹرکٹ لیگل سروس اتھارٹی کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔ پیرا لیگل رضاکاروں، این ایس ایس، این سی سی، بھارت اسکاؤٹس اینڈ گائیڈس، ریڈ کراس، لاینس کلب، روٹری کلب اور اس طرح  کی دوسری تنظیموں کی خدمات بھی لی جا سکتی ہیں۔

کورٹ نے کہا کہ ریاستی حکومت کو رضاکارانہ طور پر کام کرنے والی تنظیموں  کی مدد بھی لینی چاہیے اور سی ایس آر سرگرمی کے طور پر کمپنیوں/فرموں وغیرہ سے بھی مدد لینی چاہیے تاکہ ان مزدوروں کو کھانا دستیاب کرایا جا سکے۔کورٹ نے 22 مئی، 2020 کو ان احکامات  کی ایک تعمیلی  رپورٹ دائر کرنے کی  ہدایت دی ہے۔

اس سے پہلے گزشتہ جمعہ  کو ایک معاملے کی شنوائی کے دوران مدراس ہائی کورٹ نے لاک ڈاؤن کے بیچ نقل مکانی کرنےوالے مہاجر مزدوروں کی قابل رحم حالت کو انسانی المیہ قرار دیا ہے۔جسٹس این کیروبکرن اور جسٹس آرہیم لتا کی بنچ نے کہا تھا، ‘یہ دیکھناقابل رحم  ہے کہ مہاجر مزدور اپنے کام کی جگہ سے کئی دن پیدل چل کر اپنی ریاست پہنچ رہے ہیں۔ کچھ کی موت راستے میں ہی حادثے سے ہو جا رہی ہے۔ سبھی ریاستوں کو چاہیے کہ ایسے مزدوروں کو انسانی امداد مہیا کرائیں۔’

حالانکہ، اس سے پہلے سپریم کورٹ نے مہاراشٹر کے اورنگ آباد میں ٹرین سے کٹ کر 16 مہاجر مزدوروں کی دردناک موت کے بعد پیدل چل رہے مہاجرین مزدوروں کے لیے دائر ایک عرضی  کو یہ کہہ کر خارج کر دیا تھا کہ کورٹ کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اس صورتحال  کو مانیٹر کر سکیں۔

عرضی میں مانگ کی گئی تھی کہ ملک کے سبھی ضلع مجسٹریٹوں کو فوراًہدایت دی جائے کہ وہ پیدل چل رہے لوگوں کی پہچان کر کےانہیں ان کے گھروں تک محفوظ طریقے سے پہنچانے میں مدد کریں۔