فکر و نظر

قصہ دہلی کی افطار پارٹیوں کا

افطار پارٹیوں کو قصہ پارینہ بنایا گیا۔گو کہ بی جے پی نے اپنے دفتر میں بس 1998میں ہی واحد افطار پارٹی کا انعقاد کیا تھا، مگر وزیر اعظم بننے کے بعد  واجپائی  اپنی رہائش گاہ پر ہر سال اس کا نظم کرتے تھے۔  2014سے قبل ماہ مبار ک کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی و سماجی اداروں کی طرف سےافطار پارٹیوں کا ایک لامنتاہی سلسلہ شروع ہوتا تھا۔

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

ہندوستان کی موجودہ حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے  1998میں پارلیامانی انتخابات کے دوران اشوکا روڑ میں اپنے ہیڈ کوارٹر میں پہلی اور آخری افطار پارٹی دی تھی۔اٹل بہاری واجپائی ابھی اپوزیشن لیڈر ہی تھے۔  مجھے یاد ہے کہ جب میں اس تقریب میں پہنچا تو دیکھا کہ پارٹی آفس کے وسیع و عریض لان میں شامیانہ لگا ہوا تھا، جس کے دروازے پر خود واجپائی اور چند دیگر لیڈران ٹوپی پہنے مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے۔ ابھی افطار میں آدھا گھنٹہ باقی تھا، مگر شامیانہ کے اندر چائے سموسہ اور کھجوروں کا دور چل رہا تھا۔لوگ آرام سے کھا پی رہے تھے، افطار کے وقت کا کسی کو احساس نہیں تھا۔

سید شاہنواز حسین، جو بعد میں مرکزی وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے،  ان دنوں بی جے پی کی یوتھ ونگ کے لیڈر تھے۔ بستی نظام الدین اور دیگرعلاقوں سے چنندہ مسلمانوں کو افطار پارٹی میں لانے کی ذ مہ داری ان کو دی گئی تھی۔ وہ کیٹرنگ والے سے الجھ رہے تھے کہ افطار سے قبل ہی اس نے ناشتے کی قابیں کیوں سجائی ہوئی تھیں۔ خیر جب افطار کا وقت ہوا، تو خالی قابیں روزہ داروں کا منہ چڑھا رہی تھیں۔کسی طرح پانی وغیرہ پی کر روزہ تو کھولا۔ اب مغرب کی نماز ادا کرنے کا کوئی نظم نہیں تھا۔جن مسلمانوں کو تقریب میں لایا گیا تھا و ہ شاہنواز پر برس رہے تھے۔ کسی طرح اس نے دفتر کے پچھواڑے میں نماز کے لیے  لان کو صاف کروایا۔

اب جس وقت روزہ دار نماز ادا کررہے تھے، کہ کیٹرنگ والے نے ڈنر پیکٹ   بانٹنے شروع کردیے۔ بجائے قابوں میں کھانا پروسنے کے، پارٹی نے ڈنر پیکٹوں کا انتظام کیا ہوا تھا۔ جب تک نماز ختم ہو جاتی اور روزہ دار شامیانہ میں واپس آجاتے، معلوم ہوا کہ سبھی ڈنر پیکٹ ختم ہو چکے تھے۔ بھوکے پیاسے روزہ دار شاہنواز اور بی جے پی کو صلواتیں سناتے ہوئے گھروں کو روانہ ہوئے۔

کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس سال ماہ مبارک رمضان کے معمولات  تو دنیا بھر میں متاثر تو ہوئے ہی ہیں، مگر ہندوستانی دارالحکومت دہلی میں 2014میں وزیر اعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہی اس ماہ کی رونقیں چھن گئی تھیں۔ مودی کی دہلی آمد کے فوراً بعد ہی دارالحکومت میں افطار پارٹیوں کا سلسلہ بند ہوگیا۔چونکہ انہوں نے اپنے وزراء کو بھی پارٹیوں میں شامل ہونے سے منع کردیا تھا، اس لیے دیگر سماجی تنظیموں نے بھی آہستہ آہستہ افطار پارٹیوں کے انعقاد سے ہاتھ کھنچ لیے۔

افطار پارٹیوں کو قصہ پارینہ بنایا گیا۔گو کہ بی جے پی نے اپنے دفتر میں بس 1998میں ہی واحد افطار پارٹی کا انعقاد کیا تھا، مگر وزیر اعظم بننے کے بعد  واجپائی  اپنی رہائش گاہ پر ہر سال اس کا نظم کرتے تھے۔  2014سے قبل ماہ مبار ک کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی و سماجی اداروں کی طرف سےافطار پارٹیوں کا ایک لامنتاہی سلسلہ شروع ہوتا تھا۔

  خبروں کے متلاشی صحافیوں، طبقہ اشرافیہ، سیاسی و مذہبی لیڈروں نیز سفارت کاروں کے لیے افطار پارٹیاں سیاسی و سفارتی شخصیات کے ساتھ غیررسمی روابط اور سیاسی حالات کی نبض پرکھنے کا ذریعہ بھی بنتے تھے۔ اس مقدس ما ہ میں سیاسی و سفارتی سرگرمیاں اس قدر عروج پر ہوتی تھیں، کہ میڈیا اداروں میں افطار پارٹیاں کور کرنے کے لیے باضابطہ رپورٹروں کی بیٹ لگتی تھی۔صاحب اختیار و استطاعت افراد اس ماہ کا بھر پور فائدہ اٹھا کرکچھ مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے بطور، مگر زیاد ہ تر اپنے آپ کو سیکولر جتانے اور اس کی نمائش کے لیے افطار پارٹیوں کا اہتمام کراکے اپنا ووٹ بینک پکا کروانے کا بھی سامان کرتے تھے۔

افطار پارٹیوں کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنانے پر بحث کی گنجائش تو ہے، مگر ہندوستان جیسے تکثیری معاشرہ میں یہ دیگر مذاہب یا طبقوں تک پہنچنے کا ایک آؤٹ ریچ کا ایک ذریعہ بھی تھا۔ایک منظم اور پر وقار ماحول میں روزہ کھولنا اور نماز مغرب کی صف بندی اور خاص و عام کا کندھے سے کندھا ملانا کہیں نہ کہیں ایک پیغام  کا کام ضرورکرتا تھا۔

کشمیر میں بھی چونکہ افطار پارٹیوں کا کوئی رواج نہیں تھا، اس لیے دہلی آمد کے بعد یہ میرے لیےبھی ایک نیا تجربہ تھا۔ کشمیر میں تو افطار سے قبل ایک طرح سے کرفیو سا لگتا تھا۔مارکیٹ سنسان ہوجاتے تھے۔ لوگ عام طور پر اپنے گھروں یا مقامی مساجد میں ہی روزہ کھولنے کو ترجیح دیتے تھے۔ افطار کا بھی الگ سے کوئی اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ جلد ہی نماز ادا کرنے کے بعد لوگ ڈنر کرتے تھے۔اس ماہ  کے دوران تقریباً سبھی سرگرمیاں اور روابط ماند  پڑ جاتے تھے۔اپنے دور طالب علمی میں ہی  90 کے اوائل میں مجھے پہلی بار سابق وزیر اور کیرالہ صوبہ کے موجودہ گورنر عارف محمد خان کی رہائش گاہ پر افطار پارٹی میں شرکت کا موقع ملا۔

ان کی ایک قریبی رشتہ دار میرے ڈپارٹمنٹ میں سینئر تھیں۔ انہوں نے ہی دعوت نامہ دےکر آنے کی تاکید کی تھی۔افطار پارٹی کیا تھی، بس ایک عالیشان شادی کا سا سماں تھا۔ جن سیاسی و سماجی چہروں کو ٹی وی یا  اخباروں میں دیکھتے آرہے تھے وہ گوشت و پوست کے ساتھ الگ الگ میزوں پر برا جمان تھے۔ وزیر اعظم سمیت سبھی مرکزی وزراء، بالی ووڈ کے نامور اداکار وغیرہ موجود تھے۔ اس پارٹی میں میری پہلی بار مرحوم مفتی محمد سعید سے ملاقات ہوئی۔ گو کہ سوپور میں کئی بار پبلک جلسوں ان کی تقاریر سننے کا موقع ملتا تھا، مگر بالمشافہ کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔

کشمیر ی ہونے کی حیثیت سے بھی میں ان کو گہرے شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ میں ان کوہندوستانی ایجنسیوں کا پروردہ، جس کو کشمیری  خواہشات کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہو،سمجھتا آرہا تھا، جس نے 1977میں شیخ محمد عبداللہ کی حکومت کو گرایا اور بعد میں 1984میں دہلی کی ایما پر فارق عبداللہ کو معزول کروایا اور جو کشمیر میں سیاسی بے چینی کا  سبب بھی رہا۔میری میزبان نے میرا ان سے تعارف کرایا  توانہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شکایت کی کہ کشمیری مسلم نوجوان یا تو صحافت میں آتے ہی نہیں، یا کریئرکے لیے دہلی کا رخ نہیں کرتے۔انہوں نے مجھے یاد دلایا، کہ مجھ سے قبل یو این آئی کے شیخ منظور احمد اور سنڈے آبزرور کے ایڈیٹر محمد سعید ملک ہی بس دو ایسے کشمیری  مسلمان ہیں، جنہوں نے دہلی میں صحافت میں کریئر بنایا۔

انہوں نے کسی کو شیخ منظور، جو ان دنوں یو این آئی نیوز ایجنسی میں سینئر پوزیشن میں کام کرتے تھے، کو ڈھونڈنے کے لیے کہا۔ منظور صاحب پر نظر پڑتے ہی انہوں نے ان نے مجھے ان سے متعارف کرواکر ان کو صلاح دی کہ وہ میرا خیال رکھیں۔ مجھے بھی مشورہ دیا کہ کشمیر واپس جانے کے بجائے دہلی ہی میں جرنلزم میں جگہ بناؤں اور منظور صاحب اور ملک صاحب سے مشورہ لیتا رہوں۔

گو کہ مودی نے آتے ہی وزیر اعظم ہاؤس میں افطار کا سلسلہ تو بند کروادیا، مگر  صدر پرنب مکھرجی نے صدارتی محل میں اس کو موقوف نہیں کیا  تھا۔ 2017تک اپنی مدت صدارت ختم ہونے تک ا نہوں نے اس سلسلہ کو جاری رکھا۔ تمام ممالک کے سفیر ، اپوزیشن لیڈران و دیگر افراد اس میں شرکت تو کرتے تھے، مگر پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مودی نے کبھی بھی اس میں شرکت نہیں کی۔ مگر ایک یاد و وزیر حکومت کی نمائندگی کرنے پہنچ جاتے تھے، جو صدر کی ہال میں آمد پر ان کا استقبال کرکے فوراً ہی رخصت ہوجاتے تھے کہ کہیں  دیگر مہمانوں سے ملنے جلنے کے دروان ان کی فوٹو نہ کھنچے۔

صدارتی محل یا راشٹرپتی بھون میں جب ایک بار افطار پارٹی کے بعد مغرب کی اذان تو ہوئی، مگر نماز ک لیے امام کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔وسیع و عریض صدارتی اسٹیٹ کے احاطہ میں ایک مسجد موجود ہے۔ اسی مسجد کے  یا پارلیامنٹ کے بغل میں جامع مسجد نئی دہلی کے امام صاحبان اس موقع پر امامت کرتے تھے۔ مگر دونوں اس دن غائب تھے۔ تمام مسلم ممالک کے سفراء، اراکین پارلیامان و دیگر زعماء صفوں میں کھڑے امام کو تلاش کر رہے تھے کہ پاکستانی سفیر عبد الباسط نے آگے بڑھ کر امامت کا منصب سنبھال کر نماز ادا کروائی۔

اس دن معلوم ہوا کہ باسط صاحب ایک خوش الحان قاری بھی ہیں۔ایک روح پرور منظر تھا کہ تمام دنیا کے مسلم سفراٗو ہندوستانی مسلم زعماء  ایک پاکستانی سفیر کی اقتدا میں نمار ادا کررہے تھے۔

اسی طرح ایک بار صدارتی محل ہی میں وزیر اعظم من موہن سنگھ کی دوسری مدت حکومت میں مرکزی وزیر فاروق عبداللہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ یہاں اس تقریب میں ہم دو کے بغیر کوئی اور روزہ دار نہیں لگ رہا  ہے، افطار کا وقت ہورہا ہے، اس لیے ہم ڈنر ہال کے گیٹ کے پاس بیٹھ کر فوراً ہی اندر چلے جاتے ہیں۔ صدر ریسپشن ہال میں آکر سبھی مہمانوں سے ایک ایک کرکے مل رہے تھے، فاروق صاحب سمجھا رہے تھے کہ ہم افطار کرنے آئے ہیں، دیگر افراد کی طرح صدر سے ملنے نہیں آئے ہیں۔ شاید راشٹرپتی بھون کے بیرے بھی ہمیں دیکھ کر تاسف کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے آکر ہمیں تسلی دی کہ افطاری میں خاصے لوازمات وافر مقدار میں ہیں۔

وہ یہ کہنے کی کوشش کررہا تھا  ندیدوں کی طرح دروازے پر پہرہ دینے کی ضرورت نہیں ہے، افطار کے وقت ناشتہ وغیرہ مل ہی جائےگا۔ میں نے فاروق صاحب سے پوچھا کہ ان کی رنگیلی طبعیت اور امیج کے برعکس وہ آجکل مومن کیسے ہوگئے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ماہ رمضان میں وہ سبھی دنیاوی کام چھوڑ کر روزوں کی سختی سے پابندی کرتے ہیں اور ختم قرآن شریف بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کی ماں کا اعجاز ہے کہ وہ ان کو اور دیگر بھائیوں اور بہنوں کو روزہ اور تلاوت قرآن کی تاکید کرتی تھی۔اپنے باپ شیخ محمد عبداللہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتا رہے تھے کہ وہ بہت ہی سخت گیر قسم کے  والد تھے اور اکثر ان کو چھڑی سے پیٹے تھے، پر والدہ ہی ان کو چھڑا تی تھی۔ بیگم اکبر جہاں، ایک نومسلم انگریز جان نیڈواور ایک کشمیر ی گوجر لڑکی کی اولاد تھی۔ مگر سخت  مذہبی اور صوم و صلوات کی پابند خاتون تھی۔ فاروق صاحب نے کہا کہ اپنی والدہ کی یاد میں وہ رمضان میں روزہ و نماز کا سختی کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ 70کی دہائی کے اواخر میں سوشلسٹ لیڈر ہیم وتی نندن بہوگنا نے مسلمانوں میں سیاسی آوٹ ریچ کے لیے افطار پارٹیوں کے سلسلہ کو شروع کردیا تھا،  جس کو بعد میں اندرا گاندھی اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ، جن کی حکومت حلیف پارٹیوں کی بیساکھیوں پر ٹکی ہوئی تھی، کے دور میں یہ افطار پارٹیاں پس پردہ سیاسی سرگرمیوں اورنا راض حلیفوں کو منانے کے کا م بھی آتی تھیں۔وزیر اعظم مودی اور ان کے دست راست امت شاہ نے جس طرح انتہائی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو ایک طرح سے سیاسی اچھوت بنا کر رکھ دیا ہے، افطار پارٹیوں کا خاتمہ اس کی ایک واضح مثا ل ہے۔

ہندوستان کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کا وجود ہی مسلمانوں کی حمایت پر منحصر ہے۔1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد اس صوبہ میں مسلمانوں نے کانگریس سے کنارہ کشی کرکے  اس پارٹی کا دامن تھام لیا۔ ان کی حمایت سے پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو تین بار صوبہ کے وزیرا علیٰ اور ایک بار مرکزی وزیر بنے۔ ان کے صاحبزادے اور پارٹی کے موجودہ صدر اکھلیش سنگھ یادو بھی پانچ سال تک وزیر اعلیٰ کی مسند پر فائز رہے۔ ملائم سنگھ کو طنزاً ہندو انتہا پسند مولانا سنگھ اور مسلمان  رفیق ملت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔اس پارٹی کا حال  یہ ہے کہ پچھلے سال ماہ رمضان سے دو ماہ  قبل  پارٹی سربراہ نے  ضلعی صدور کو پیغام بھیجا کہ اس سال تزک و احتشام کے ساتھ افطار پارٹیوں کا اہتمام نہ کیا جائے۔

اگر ذاتی طور پر کوئی مقامی لیڈر افطار کا اہتمام کرتا ہے تو وہاں ملائم سنگھ یا اکھلیش سنگھ کی تصویر یا پارٹی کا بینر آویزاں  نہیں ہونا چاہیے۔مزید ہدایت تھی کہ اگر کسی کی افطار پارٹی میں جانا ہوا تو وہاں ٹوپی لگا کر سیلفی یا تصویریں نہ کھنچیں یا کم از کم ان کو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنائیں۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جہاں سیکولر پارٹیاں افطار پارٹیوں سے دور بھاگتی نظر آئیں، وہیں دوسری طرف ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی شاخ مسلم راشٹریہ منچ نے پچھلے سال کئی شہروں میں مسلمانوں کے لیے افطاری کا بندوبست کیا۔

خیر ہندوستان میں اس نئے رجحان کے تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کو واقعی سیاسی اچھوت بنایا گیا ہے اور کیا جو پارٹیاں مسلمانوں کے حقوق یا ان کی تقریبات میں شرکت کریں گی ان کو ووٹ نہیں ملیں گے۔ بی جے پی نے تو مسلمانوں کو چھوڑ دیا ہے، مگر اب بیشتر سیاسی پارٹیوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کے قریب نظر آتی ہیں،  تو انہیں ہندو اکثریتی طبقہ کا ووٹ نہیں ملے گا۔ حکومت گجرات کے ایک سابق افسر ہر ش مندر کے مطابق مسلمانوں کے لیے اتنا برا وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ یہاں تک کہ تقسیم کے موقع پر بھی نہیں۔ گو کہ دنیامیں مسلمانوں کی جو آبادی ہے اس کا دسواں حصہ ہندوستان میں ہے، مگر اس کے باوجود  وہ سیاسی یتیم بنائے گئے ہیں۔

مسلمان کل آبادی کا 15فیصد ہونے کے باوجود سیاسی طور پر بے وزن بنائے گئے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ گزشتہ9صدیوں سے مسلم حکمرانوں کی  غلطیوں کے باعث ‘ہندو‘ لفظ مخصوص مذہب کی پہچان بن گیا۔اسلام جو کہ ایک آفاقی سماجی نظام کا نقیب بن کر دنیا میں آیاتھا۔ اس کے ماننے والوں نے ہندوستان میں کبھی بھی صدیوں سے دبے کچلے مظلوم طبقوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی اپنی حکومت اور طاقت کا استعمال کرکے ان طبقوں کو وسائل مہیا کرائے۔

عہد قدیم میں ہندوستان میں الگ الگ مذاہب موجود تھے، جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں تھا۔ مسلمان حکمرانوں نے ان سبھی کو ہندو کہنا شروع کیا۔ جبکہ ان کے عقائد میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ آہستہ آہستہ اس پوری آبادی نے اپنے آپ کو ہندو ماننا شروع کردیا۔ ورنہ ہندوستان میں ہندو طبقہ ایک طرح سے سناتن دھرم کے ماننے والوں تک ہی محدود تھا۔ آج بھی یہ طبقہ، جو اپنے آپ کواعلیٰ ذات کے ہندو کہتا ہے، مجموعی آبادی کا صرف 15فیصد ہے۔