خبریں

مدھیہ پردیش پولیس نے وکیل سے مارپیٹ کے بعد معافی مانگی، کہا-مسلمان سمجھ کر پیٹ دیا تھا

معاملہ مدھیہ پردیش کے بیتول کا ہے۔ وکیل دیپک بندیلے کا الزام ہے کہ گزشتہ23 مارچ کو جب وہ دوا لینے جا رہے تھے تو پولیس نے راستے میں روک کر ان کی پٹائی کی اور اب ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنی شکایت واپس لے لیں۔

وکیل دیپک بندیلے۔

وکیل دیپک بندیلے۔

نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے بیتول سے ایک بےحد تشویش ناک  معاملہ سامنے آیا ہے، جو سماج میں موجود مسلمانوں کے خلاف نفرت اور پولیس کی من مانی اور استحصال  کودکھاتا ہے۔23 مارچ کو دیپک بندیلے نام کے ایک وکیل کو ریاست کی پولیس نے بےرحمی سے پیٹا تھا، جب وہ علاج کے لیے سرکاری ہاسپٹل جا رہے تھے۔ اب ایک مہینے بعد پولیس ان پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ اپنی شکایت واپس لے لیں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ پولیس حکام  نے اپنے بچاؤ میں بندیلے کو بتایا کہ ان کی غلطی سے پٹائی ہو گئی کیونکہ انہیں لگا کہ وہ مسلمان ہیں۔دی  وائر کے ساتھ بات چیت میں بندیلے نے کہا کہ 23 مارچ کو شام 5.30 سے 6 بجے کے بیچ جب وہ ہاسپٹل جا رہے تھے تب پولیس نے انہیں روکا تھا۔

انہوں نے کہا، ‘تب ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ نہیں ہوا تھا، لیکن بیتول میں دفعہ 144 نافذکر دی گئی تھی۔ میں پچھلے 15 برسوں  سے شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض ہوں۔ چونکہ میں ٹھیک محسوس نہیں کر رہا تھا، تو میں نے سوچا کہ ہاسپٹل جاکر کچھ دوائیاں لے لوں۔ لیکن مجھے پولیس نے بیچ میں ہی روک لیا۔’

بندیلے نے پولیس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ انہیں یہ دوائیاں لینی بہت ضروری ہیں لیکن ان کی بات کو سنے بنا ایک پولیس والے نے انہیں تھپڑ مارا۔بندیلے نے کہا،‘میں نے ان سے کہا کہ انہیں آئین کی حدوں  کے اندررہ کر کام کرنا چاہیے اور اگر پولیس کو ٹھیک  لگتا ہے تو وہ دفعہ 188 کے تحت حراست میں لیے جانے کو تیار ہیں۔ یہ سن کر پولیس اہلکاروں  نے اپنا آپا کھو دیا، اور مجھے اورہندوستان کے آئین کو گالی دینے لگے۔ کچھ ہی وقت میں کئی پولیس والے آ گئے اور مجھے لاٹھی سے پیٹنا شروع کر دیا۔’

جب انہوں نے بتایا کہ وہ وکیل ہیں، اس کے بعد پولیس نے انہیں پیٹنا بند کیا۔ بندیلے نے الزام لگایا، ‘لیکن تب تک میرے کان سے کافی خون بہنے لگا تھا۔’انہوں نے اپنے دوست اور بھائی کو بلایا اور بعد میں وہ ہاسپٹل گئے۔ وہاں پر انہوں نے اپنی میڈکو لیگل کیس(ایم ایل سی)بنوایا۔

اس کے بعد 24 مارچ کو انہوں نے ایس پی ڈی ایس بھدوریا اور ریاست کےڈی جی پی  وویک جوہری کے پاس شکایت درج کرائی۔انہوں نےوزیر اعلیٰ ، ریاست کے ہیومن رائٹس کمیشن، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ  کےچیف جسٹس اوراعلیٰ  سرکاری حکام کو بھی اس شکایت کی کاپی بھیجی ہے۔بندیلے نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے 23 مارچ کے واقعے  کا سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرنے کے لیے ایک آر ٹی آئی دائر کیا تھا، لیکن جانکاری دینے سے انکار کر دیا گیا۔

وکیل کی جانب سے  مختلف محکموں  میں کی گئی شکایت۔

وکیل کی جانب سے  مختلف محکموں  میں کی گئی شکایت۔

وکیل نے کہا، ‘مجھے یہ کہتے ہوئے جواب ملا کہ میں نےصاف طور پر و ہوجہ  نہیں بتایا ہے جس کے لیے میں نے آر ٹی آئی دائر کیا تھا۔ لیکن مجھے غیر رسمی طور پر پتہ چلا ہے کہ سرکاری فائلوں سے سی سی ٹی وی فوٹیج کو ہٹا دیا گیا ہے۔’انہوں نے الزام لگایا کہ تب سے پولیس شکایت واپس لینے کے لیے بہت کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘سب سے پہلے کچھ اعلیٰ حکام  نے مجھ سے کہا کہ اگر میں اپنی شکایت واپس لے لیتا ہوں تو وہ اس معاملے کی مذمت اور معافی مانگ سکتے ہیں۔ بعد میں کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر میں چاہتا ہوں کہ میرا بھائی سکون  سے لاءکی پریکٹس کر پائے تو مجھے اپنی شکایت واپس لے لینی چاہیے۔’

حالانکہ وکیل دیپک بندیلے پیچھے نہیں ہٹے۔ 24 مارچ کو دائر اپنی شکایت میں انہوں نے مانگ کی ہے کہ معاملے میں ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے۔ اس بنیاد پر 17 مئی کو کچھ پولیس والے ان کے گھر پر ان کا بیان درج کرنے آئے۔ اسی وقت پولیس نے ان سے کہا کہ ان کی پہچان کرنے میں غلطی ہو گئی، پولیس والوں کو لگا کہ وہ مسلمان ہیں۔

بندیلے نے کہا، ‘ویسے تو میرا بیان لینے میں پانچ منٹ سے زیادہ کاوقت نہیں لگنا چاہیے تھا لیکن یہ کام کرنے میں تقریباً تین گھنٹے بیت گئے کیونکہ پولیس والے لگاتار کوشش کرتے رہےکہ میں اپنی شکایت واپس لے لوں۔’بندیلے کے ذریعے دی وائر کے ساتھ شیئر کی گئی ایک ڈیو ریکارڈنگ کے مطابق مبینہ طور پر پولیس والے کہہ رہے ہیں کہ ان کی پٹائی غلطی سے ہو گئی کیونکہ انہیں لگا کہ وہ مسلمان ہیں کیونکہ ان کی بڑی داڑھی تھی۔

اس کے آگے انہوں نے کہا کہ فسادات کے وقت عام طور پر پولیس ہندوؤں کی حمایت کرتی ہے۔

مبینہ طور پر پولیس والے کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ‘ہم ان پولیس اہلکاروں  کی طرف سے معافی مانگتے ہیں۔ اس معاملے کی وجہ سے ہم بہت شرمندہ ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو معافی مانگنے کے لیے میں ان اہلکاروں  کو لا سکتا ہوں۔’بندیلے نے کہا کہ انہوں نے بھوپال میں تقریباً 10 سال تک بطور صحافی کام کیا ہے اور لاءکی پریکٹس کرنے کے لیے سال 2017 میں وہ بیتول آ گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی شکایت واپس نہیں لیں گے۔ حالانکہ ابھی تک اس معاملے میں ایف آئی آر درج نہیں ہو پائی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ویسے تو پولیس نے مجھ سے معافی مانگ لی ہے۔ اگرمیں مسلمان ہوتا بھی، تو پولیس کو کس نے اجازت دی ہے کہ بنا کسی وجہ ے وہ ظلم  کریں۔’دی  وائر نے اس بارےمیں بیتول ایس پی سے سوال پوچھا ہے لیکن ابھی تک انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔اگر ان کا کوئی جواب آتا ہے تو اسٹوری میں شامل کر لیا جائے گا۔