خبریں

زخمی والد کو سائیکل پر بٹھا کر گڑگاؤں سے دربھنگہ پہنچی لڑکی کی کہانی

گڑگاؤں میں آٹو رکشہ چلانے والے بہار کے موہن پاسوان ایک حادثےکے بعد کئی مہینوں سے گھر پر تھے۔ لاک ڈاؤن میں کمائی اور راشن دونوں کا ہی ٹھکانہ نہیں رہا۔ ایسے میں ان کی 15 سالہ بیٹی انہیں اپنی سائیکل پر بٹھاکر دس دن میں ہزار کیلومیٹر سے زیادہ  دوری طے کر کےگڑگاؤں سے بہار کے دربھنگہ پہنچی ہیں۔

جیوتی کماری۔ (فوٹو: Special Arrangement)

جیوتی کماری۔ (فوٹو: Special Arrangement)

ملک کے موجودہ وقت کی تاریخ جب لکھ جائےگی، تو اس میں سرکار کی ناکامیوں کو تو درج کیا ہی جائےگا، اس کے ساتھ ہی درج کی جائےگی عام لوگوں، مزدوروں، بچوں اور عورتوں کی ہمت بھی کہ کیسے انہوں نے بنا کسی سرکاری مدد کے اپنے دم پرسینکڑوں کیلومیٹر کاراستہ  طے کیا۔

حوصلے اور ہمت کی ان کہانیوں میں ایک نام بہار کے دربھنگہ ضلع کی 15 سالہ جیوتی کماری کا بھی ہوگا۔ جیوتی نے 1200 کیلومیٹر سے زیادہ کا سفر حادثے میں زخمی ہوئے اپنے والد کو سائیکل پر بٹھاکر طے کیا اور ہریانہ کے گڑگاؤں سے دربھنگہ اپنے گاؤں پہنچی۔جیوتی کے والد موہن پاسوان پچھلے 20 سال سے گڑگاؤں میں آٹو رکشہ چلاتے ہیں۔ 26 جنوری کو سڑک حادثے میں وہ زخمی ہو گئے تھے، تو ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیے جیوتی اپنی ماں کے ساتھ 31 جنوری کو گڑگاؤں گئی تھیں۔

جیوتی کی ماں پھولو دیوی گاؤں کے ایک اسکول میں کھانا بناتی ہیں، تو وہ 10 دن ہی وہاں رکیں اور جیوتی کو وہیں چھوڑکر گاؤں لوٹ آئیں۔ گڑگاؤں میں جیوتی کا کام کھانا بنانے اور والدکی دیکھ بھال کرنے تک ہی محدود  تھا۔ چیزیں پٹری پر چل رہی تھیں۔موہن کی طبیعت بہتر ہو رہی تھی کہ کووڈ 19 کے انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے کے لیے مرکزی حکومت  نے 24 مارچ کو ملک گیر لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔ پہلے یہ لاک ڈاؤن تین ہفتے کا ہوا۔ جب تین ہفتے ختم ہوئے، تو اس کی مدت دو ہفتے اور بڑھا دی گئی۔ پھر تیسرا لاک ڈاؤن اور اب چھوتھا لاک ڈاؤن چل رہا ہے۔

اس لاک ڈاؤن نے ملک بھر کے لاکھوں مزدروں  کو متاثر کیا، تو بھلا موہن پاسوان کیسے بچے رہتے۔ ان کے پاس کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور گھر میں پہلے سے جو راشن تھا، وہ ختم ہوتا جا رہا تھا۔ حالت یہ ہو گئی تھی کہ کمرے کا کرایہ دینے کا بھی پیسہ نہیں تھا۔جیوتی کہتی ہیں،‘لاک ڈاؤن ہونے کے بعد دقت بہت بڑھ گئی تھی۔ مکان مالک کمرے سے نکالنا چاہ رہا تھا۔ کرایہ نہیں دیےتھے، تو دو بار بجلی بھی کاٹ دی تھی۔ دوسری طرف، چاول آٹا بھی ختم ہو گیا تھا۔ ہم لوگ کھاتے کہاں سے۔ پتاجی کی کمائی تو بالکل رکی ہوئی تھی، اس لیے سوچے کہ کسی طرح گھر چلے جائیں گے۔’

وہ اپنے والد کو سائیکل کے پیچھے کریئر پر بٹھا کر 8 مئی کو گڑگاؤں سے روانہ ہوئی تھیں اور پورا سفر انہوں نے سائیکل سے طے کیا۔ حالانکہ، بیچ میں ایک ٹرک والے نے مدد کی اور دونوں کو کچھ دور لے گئے۔وہ 10 دن تک سائیکل چلاکر 17 مئی کی رات تقریباً 9 بجے اپنے گاؤں سرہلی پہنچی۔ جیوتی کماری کہتی ہیں،‘ٹرک والے کچھ دور تک لے گئے، لیکن ان کا روٹ الگ تھا، تو راستے میں ہی اتار دیا۔’

موہن فی الحال کورنٹائن سینٹر میں ہیں اور جیوتی گھر پر۔ 17 مئی کو جب جیوتی سائیکل سے مظفر پور پہنچ گئیں، تب فون کرکے بتایا کہ وہ رات تک آ جائےگی۔دوسرے گاؤں کی طرح سرہلی کے لوگ بھی کو رونا وائرس کو لےکر ڈرے ہوئے ہیں اور باہری لوگوں کو گاؤں میں نہیں آنے دے رہے ہیں۔

جیوتی نے جب گاؤں آنے کی بات کہی، تو پھولو دیوی ڈر گئی تھیں اور کہا کہ اچھا ہوگا کہ وہ نانی کے پاس چلی جائے، لیکن جیوتی اس کے لیے تیار نہیں ہوئی۔پھولو دیوی بتاتی ہیں،‘میں نے گاؤں کے مکھیا کو جاکر یہ بات بتائی کہ میری بیٹی اور شوہر آ رہے ہیں۔ اتفاق سے اسی دن میرے گاؤں میں ٹرک سے کچھ اور لوگ آئے تھے اور انہیں لوگوں نے نہیں بھگایا تھا، تو مجھے کچھ راحت ملی۔ رات 9 بجے بیٹی اور شوہر آئے، تو ان کی مخالفت نہیں ہوئی۔’

سائیکل سے سفر کے بارے میں جیوتی بتاتی ہیں،‘میں روزانہ تقریباً 100 کیلومیٹر سے زیادہ سائیکل چلاتی تھی۔ شام ہو جاتی، تو کسی پٹرول پمپ پر رک جاتے تھے۔ رات وہیں بتاتے اور صبح میں پھر سائیکل لےکر نکل جاتے تھے۔ راستے میں ہم جتنے بھی پٹرول پمپ پر ٹھہرے،، سب نے ہمیں کھانا پانی دیا۔ ان کا سلوک بہت اچھا تھا۔’

موہن پاسوان کے پاس زمین نہیں ہے۔ ان کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ ایک بیٹی بڑی ہے۔ جیوتی منجھلی ہیں جبکہ بیٹے ابھی بہت چھوٹے ہیں۔ وہ گڑگاؤں میں آٹو رکشہ چلاتے تھے اور ان کی بیوی  پھولو دیوی آنگن باڑی میں کھانا پکاتی ہیں۔اپنے والدکو سائیکل پر بٹھا کر گھر لے جانے کا کیسے سوچ لیا؟ جیوتی کہتی ہیں،‘گھر میں دانا پانی نہیں تھا اور میں دیکھ رہی تھی کہ لوگ پیدل، سائیکل پر سوار ہوکر اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے ہیں تو مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ میں نے سوچا کہ کمرے کا مالک گھر سے نکال دیگا، تو رہیں گے کہاں، کھائیں گے کیا!’

وہ آگے کہتی ہیں، ‘پھر پتاجی سے کہا کہ چلیے آپ کو سائیکل پر بٹھاکر گاؤں لے چلوں گی، لیکن پتاجی اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ وہ مجھے باربار کہہ رہے تھے کہ تم سے نہیں ہوگا بیٹا۔’موہن کو بھلے بھروسہ نہیں تھا، لیکن جیوتی کو پورا یقین تھا کہ وہ سائیکل پر بٹھاکر اپنے والد کو گھر لے آئےگی۔ وہ کہتی ہیں،‘میں گاؤں میں بہت سائیکل چلاتی ہوں۔ پتاجی جب گاؤں آتے تھے، کئی بار ہم انہیں بٹھاکر گاؤں میں گھما دیتے تھے، تو عادت تھی۔ اس لیے مجھے پورا بھروسہ تھا کہ میں انہیں محفوظ گاؤں لےکر جا سکتی ہوں۔ پتاجی مجھے بیٹے کی طرح مانتے ہیں، تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ بیٹے کی طرح انہیں سائیکل پر بٹھاکر گھر لے جاؤں۔’

سڑک حادثے کے بعد سے موہن پاسوان گڑگاؤں میں بنا کام کے بیٹھے ہوئے تھے۔ گاؤں سے پیسہ جاتا تھا، اسی سے گھر چل رہا تھا۔جیوتی کی ماں پھولو دیوی بتاتی ہیں،‘حادثے کے بعد آٹو رکشہ کے مالک نے ہمیں فون کر کہا کہ وہ علاج کا خرچ نہیں دیں گے، تو ایک بینک سے 38 ہزار روپے قرض لےکر ہم لوگ 31 جنوری کو یہاں سے گڑگاؤں کے لیے روانہ  ہو گئے تھے۔ 38 ہزار روپے میں علاج میں کچھ پیسہ خرچ کیا اور باقی پیسہ جیوتی کے ہاتھ میں دےکر ہم لوٹ آئے۔’

وہ آگے بتاتی ہیں، ‘اس بیچ اپنی تنخواہ سے ہر مہینے کچھ پیسہ بھیجنے لگی تھی، لیکن جب لاک ڈاؤن ہو گیا، تو پیسہ بھیجنا مشکل ہو گیا، تو یہ بات میں نے جیوتی اور ان کے پاپا کو بتائی۔’پھولو دیوی نے بتایا، ‘جیوتی نے مجھے بھی فون پر کہا کہ وہ سائیکل سے آئےگی۔ میں نے شروع میں اسے منع کیا، لیکن میرے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا کہ اس کو ضد کو روک دیتی۔’

جیوتی جس سائیکل سے گاؤں لوٹی ہیں، وہ سائیکل 8 مئی کو خریدی تھی۔ وہ بتاتی ہیں،‘جہاں رہتی تھی، وہیں کے ایک پہچان والے سے سائیکل خریدی تھی۔ وہ 1600 روپے مانگ رہا تھا۔مرکزی حکومت کی طرف سے 1000 روپے بینک اکاؤنٹ میں بھیجے گئے تھے۔ اسے نکال کر 500 روپے سائیکل والے کو دیا اور کہا کہ باقی بعد میں دے دیں گے، تو وہ مان گیا۔ بچے 500 روپے لےکر میں، پاپا کو لےکر نکل گئی۔’

جیوتی کو سفر کی مشکلوں کا ہی نہیں، لوگوں کی طنز کستی نظروں کا بھی سامنا کرنا پڑا، جو یہ سمجھ رہے تھے کہ باپ کتنا ناکارہ ہے کہ بیٹی سے سائیکل چلوا رہا ہے۔وہ کہتی ہیں،‘راستے میں لوگ ہنس رہے تھے ہمیں دیکھ کر کہ باپ بیٹھا ہوا ہے اور بیٹی سائیکل پر بٹھا کر لے جا رہی ہے۔ پتاجی یہ سب دیکھ کر کبھی کبھی مجھے کہتے تھے کہ لوگ ہم پر ہنس رہے ہیں، تو میں انہیں کہتی تھی کہ ہنسنے دیجیے، انہیں تھوڑی پتہ ہے کہ آپ کیوں بیٹھے ہوئے ہیں۔’

‘ان کے ہنسنے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ میں جانتی تھی کہ میرے پاپا کو کیا تکلیف ہے، یہ ہنسنے والے نہیں جانتے ہیں’، جیوتی کہتی ہیں۔ سائیکل سے اتنے لمبے سفر نے جیوتی کو تھکا دیا ہے۔ پھولو دیوی کہتی ہیں، ‘جب سے آئی ہے، تب سے کہہ رہی ہے کہ بہت تھکی ہوئی ہے، بدن  میں درد ہےاور صرف سونے کا من کر رہا ہے۔’

جیوتی کماری نے 8ویں تک پڑھائی کی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ‘مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے، لیکن گھر کی مالی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ اس صورت میں یا تو میری پڑھائی ہوتی، یا میرا گھر چلتا، اس لیے سال بھر پہلے میں نے پڑھائی چھوڑ دی۔ لیکن میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ کوئی مدد کرےگا، تو پڑھوں گی۔’

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)