خبریں

شہریت ترمیم قانون کے خلاف نئی عرضیوں پر سپریم کورٹ نے مرکز کو نوٹس جاری کیا

شہریت ترمیم قانون کے خلاف داخل کی گئیں نئی عرضیوں میں کہا گیا ہے کہ اس قانون میں مسلمانوں  کو صاف طور پر الگ رکھنا آئین میں دیے گئے مسلمانوں کے برابری اور سیکولر ازم کے حقوق  کی  خلاف ورزی ہے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ  نے شہریت ترمیم قانون (سی اےاے)کے آئینی جواز کوچیلنج دینے والی نئی عرضیوں پر بدھ کو مرکز ی حکومت کو نوٹس جاری کیا اور انہیں پہلے سے ہی زیر التواعرضیوں کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔نئی عرضیوں میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کوصاف طور پر الگ رکھنا آئین میں دیے گئے مسلمانوں کے برابری اورسیکولرازم کے حقوق  کی خلاف ورزی  ہے۔

چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس رشی کیش رائے کی بنچ نے ویڈیو کانفرنسنگ کے  اس معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے نوٹس جاری کیا۔بنچ نے اسی مدعے پر پہلے سے ہی زیر التواعرضیوں کے ساتھ منسلک کرنے کا آرڈردیا۔ یہ عرضیاں  تمل ناڈو توحید جماعت، شالم، آل آسام لاءاسٹوڈنٹس یونین، مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور سچن یادو نے دائر کی ہیں۔

لائیو لاء کے مطابق پچھلے سال 18 دسمبر کو سپریم کورٹ نے 60 عرضیوں پر مرکز کو نوٹس جاری کیا تھا، کیونکہ ایکٹ کو اس وقت تک نوٹیفائی نہیں کیا گیا تھا، اس لیے عرضی گزاروں نے اسٹے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا تھا۔ بعد میں اس ایکٹ کو 10 جنوری کو گزٹ کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا۔

عرضی گزاروں  میں سے ایک انڈین یونین مسلم لیگ نے اس پر روک لگانے کے لیے ایک درخواست دائر کی تھی اور ملک گیر این آرسی نافذ کیے جانے کی منصوبے پرپوزیشن صاف کرنے کی مانگ کی تھی۔اس کے بعد گزشتہ مارچ مہینے میں مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ نے حلف نامہ دائر کر کےدعویٰ کیا تھا کہ شہریت ترمیم قانون، 2019 آئین  میں دیے گئےکسی بھی بنیادی حق کی خلاف ورزی نہیں  ہے۔

مرکز نے اس قانون کے آئینی جواز کوچیلنج دینے والی عرضیوں پر اپنے 129 پیج کے جواب میں شہریت ترمیم قانون کو قانونی  بتایا اور کہا تھا کہ اس کے ذریعے کسی بھی طرح کی آئینی اخلاقیایات کی خلاف ورزی کا سوال ہی نہیں ہے۔بتا دیں کہ سی اےاے پچھلے سال دسمبر میں پارلیامنٹ میں پاس ہوا تھا اور اس سال 10 جنوری کو نوٹیفائی  کیا گیا تھا۔ شہریت قانون میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں مبینہ طور پر استحصال کا شکار ہوئے ہندو، سکھ، بودھ، عیسائی، جین اور پارسی اقلیتی  کمیونٹی  کے ان ممبروں  کو ہندوستان کی شہریت دینے کااہتمام ہے، جو 31 دسمبر، 2014 تک یہاں آ گئے تھے۔

اس قانون میں مسلمانوں  کو شہریت کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے۔ اس کی  پورےملک  میں مخالفت ہو رہی تھی، جو اب کو رونا وائرس کی وجہ سے رک گئی ہے۔ ان مظاہروں کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں  لوگ مارے بھی گئے تھے۔اس کے خلاف دائر عرضیوں میں کہا گیا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے غیر مسلم مہاجرین  کو شہریت دینے والا سی اے اےمذہب کی بنیاد پر تفریق  کو بڑھاوا دیتا ہے۔

عرضیوں کے مطابق، یہ سیکولرازم کے بنیادی آئینی قدروں اورآئین  کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی  ہے۔آسام کے کچھ عرضی گزاروں کی دلیل ہے کہ ایکٹ1986 کے آسام سمجھوتے کی خلاف ورزی ہے۔ 1985 کے آسام سمجھوتے کے مطابق، 24 مارچ 1971 کے بعد جو لوگ  بنگلہ دیش سے آسام میں داخل ہوئے تھے، انہیں غیرقانونی مہاجر مانا جاتا ہے۔

بتا دیں کہ اس سے پہلے کچھ دوسری عرضیوں میں سی اے اےکے علاوہ این پی آر اور مجوزہ ملک گیر این آرسی کو بھی چیلنج دیا گیا ہے۔شہریت ترمیم قانون کے خلاف کیرل اور راجستھان سرکار نے آئین کے آرٹیکل 131 کا سہارا لیتے ہوئے عرضی  دائر کی ہے، جبکہ انڈین یونین مسلم لیگ، ترنمول کانگریس کی ایم پی مہوا موئترا، کانگریس کے جئے رام رمیش، آر جے ڈی رہنما منوج جھا اور کئی دوسری تنظیموں نے 160 سے زیادہ عرضیاں عدالت میں دائر کی گئی ہیں۔

ان کی دلیل ہے کہ شہریت ترمیم قانون آئین  میں دیے گئےبرابری  کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے اور مذہب  کی بنیاد پر ایک طبقہ کے ممبروں  کو شہریت دینے کا اہتمام  غیرقانونی ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)