خبریں

انڈونیشیا: سلامتی امور کے وزیر کا متنازعہ بیان، کہا-کورونا وائرس بیوی کی طرح ہے، برداشت کریں

ان کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ، خواتین کو ہدف بنانے والے اس طرح کے لطیفوں کی روایت سے خواتین پر تشدد کے سماجی رویوں کو مزید ہوا ملے گی اور انہیں عین معمول کی بات سمجھا جانے لگے گا۔

علامتی تصویر ، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر ، فوٹو: رائٹرس

دنیا بھر میں کووِڈ انیس کے وبائی مرض کی وجہ بننے والے نئے کورونا وائرس کے بارے میں انڈونیشیا کے سکیورٹی منسٹر محمد محفوظ نے یہ بیان بدھ کو یوٹیوب پر پوسٹ کیے گئے اپنے ایک ویڈیو میں دیا ہے۔ اس کے بعد ان پر کئی سماجی حلقوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے شدید تنقید کی جانے لگی۔ محمد محفوظ پر یہ تنقید ابھی تک جاری ہے۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس سب سے بڑے اسلامی ملک میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے حکومت نے عوامی شعبے میں کئی طرح کی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔یہ پابندیاں اگلے ماہ کے اوائل سے کچھ نرم کر دی جائیں گی۔ حکومت کا عوام سے مطالبہ ہے کہ وہ بدلے ہوئے حالات میں خود کو اس صورت حال کے لیے تیار کر لیں، جسے ‘نئی نارمل صورت حال‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔

اس تناظر میں سلامتی امور کے ملکی وزیر نے اپنے یوٹیوب ویڈیو میں کہا، کیا ہم ہمیشہ کے لیے گھروں میں بند رہیں گے؟ ہم خود کو اس صورت حال کے مطابق ڈھال سکتے ہیں، لیکن اپنی صحت اور حفظان صحت کے تقاضوں پر توجہ دیتے ہوئے۔

اس ویڈیو پیغام میں محمد محفوظ نے انڈونیشیا کے ایک اور وزیر کے ایک پیغام کا حوالہ بھی دیا اور یہی حوالہ ان کے لیے مسئلہ بن گیا۔ محمد محفوظ نے اس ویڈیو میں کہا، ابھی پچھلے دنوں ہی مجھے اپنے ساتھی لُوہُوت پندجیتن کی طرف سے بھیجی گئی ایک ویڈیو گرافک بھی ملی، جس کے مطابق: کورونا وائرس آپ کی بیوی کی طرح ہے۔ شروع میں آپ نے اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ پھر آپ کو احساس ہوا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ پھر آپ اس کے ساتھ رہنا سیکھ جاتے ہیں۔‘‘ لُوہُوت پندجیتن محمد محفوظ کی طرح انڈونیشیا کابینہ کا حصہ ہیں اور سرمایہ کاری اور سمندری امور کے وزیر ہیں۔

دریں اثناسکیورٹی منسٹر کی طرف سے کورونا وائرس کو کسی انسان کی بیوی جیسا قرار دیے جانے پر اپنے سخت ردعمل میں انڈونیشیا کی ویمن سالیڈیریٹی سوسائٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا، یہ بیان اور ناقابل فہم موازنہ نہ صرف کووڈ انیس کی وبا پر قابو پانے کے سلسلے میں حکومتی ناہلی کا ثبوت ہے، بلکہ یہ اس صنفی تعصب اور خواتین کو کم تر سمجھنے کے قابل مذمت رویے کی عکاسی بھی کرتے ہیں، جو عوامی عہدوں پر فائز شخصیات اور اہلکاروں میں دیکھنے میں آتے ہیں۔

اس تنظیم کی طرف سے کہا گیا،خواتین کو ہدف بنانے والے اس طرح کے لطیفوں کی روایت سے خواتین پر تشدد کے سماجی رویوں کو مزید ہوا ملے گی اور انہیں عین معمول کی بات سمجھا جانے لگے گا۔