خبریں

دہلی سے لے کر گجرات ہائی کورٹ تک، کیا بنچ میں تبدیلی سرکار کو بچانے کے لیے ہوتی رہےگی؟

کو رونا کو لے کر اسپتالوں کی قابل رحم حالت اورحفظان صحت کو لے کرریاست کی بد نظمیوں پر گجرات سرکار کو بےحد سخت پھٹکار لگانے والی ہائی کورٹ کی بنچ میں اچانک تبدیلی کیے جانے سے ایک بار پھر ‘ماسٹر آف روسٹر’ کارول سوالوں کے گھیرے میں ہے۔

جسٹس جےبی پردیوالا اور الیش جےوورا کی بنچ کو رونا سے متعلق پی آئی ایل  پرشنوائی کر رہی تھی۔ (علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

جسٹس جےبی پردیوالا اور الیش جےوورا کی بنچ کو رونا سے متعلق پی آئی ایل  پرشنوائی کر رہی تھی۔ (علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کو رونا اور مہاجروں کی پریشانیوں سے متعلق پی آئی ایل کی عرضیوں پر شنوائی کر رہی گجرات ہائی کورٹ کی بنچ میں اچانک تبدیلی کیے جانے کو لے کر وکیلوں، ماہرین ادوسرے لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔جسٹس جےبی پردیوالا اور الیش جےوورا کی بنچ نے گزشتہ کچھ دنوں میں ریاستی حکومت کوجوابدہ ٹھہرانے والے کئی اہم آرڈر دیےتھے۔ کورٹ نے حفظان صحت کو لے کر گجرات کی بی جے پی سرکار کو بے حد سخت پھٹکار لگائی تھی اور احمدآباد سول اسپتال کو ‘کال کوٹھری’ کا نام  دیا تھا۔

حالانکہ اب بنچ میں تبدیلی کیے جانے کی وجہ سے ان معاملوں کی شنوائی چیف جسٹس وکرم ناتھ کی قیادت والی بنچ کرےگی، جس میں جسٹس جےبی پردیوالا بطور جونیئر جج شامل ہوں گے۔شروعات میں کووڈ 19 کی صورتحال  کو اپنی جانکاری میں لیتے ہوئے چیف جسٹس ناتھ اور جسٹس آشوتوش جے شاستری کی بنچ نے 13 مارچ کوپی آئی ایل دائر کیا تھا۔ بیچ میں کسی وجہ سےجسٹس وکرم ناتھ کو اپنے آبائی شہر الہ آباد جانا پڑا، جس کے بعد یہ معاملہ جسٹس جےبی پردیوالا اور الیش وورا کی بنچ کے پاس آ گیا۔

بنچ نے 11 مئی کو ان میڈیا رپورٹس کو اپنے علم میں  لیا جس میں بتایا گیا تھا کو رونا مریضوں کو صحیح علاج نہیں مل رہا ہے اور احمدآباد میں مہاجر بھوکے سڑکوں پر پڑے ہوئے ہیں اور انہیں ان کے گھر بھی نہیں جانے دیا جا رہا ہے۔اس پر کورٹ نے کہا تھا، ‘ہر دن سینکڑوں کی تعداد میں مزدور اپنے بچوں کے ساتھ ریاست کے الگ الگ حصوں میں دیکھے جاتے ہیں،بالخصوص ہائی وے پر۔ ان کی حالت قابل رحم ہے۔ آج کی تاریخ تک وہ غیرانسانی اور بدتر حالات میں رہ رہے ہیں۔’

بنچ نے کہا کہ سماج کا غریب طبقہ کو رونا سے فکرمند نہیں ہے، وہ اس بات سے فکرمند ہے کہ کہیں بھوک کی وجہ سے اس کی موت نہ ہو جائے۔اس کے بعد پردیوالا وورا کی بنچ اس وقت تیزی سے سرخیوں میں آ گئی جب انہوں نے 22 مئی کو ایک آرڈر میں کہا کہ احمدآباد سول اسپتال ‘کال کوٹھری جیساہےیا اس سے بھی بدتر’ہے۔ بنچ نے معاملے کی شنوائی کی اگلی تاریخ 29 مئی طے کی اور کہا کہ ریاستی حکومت اس بار مناسب لائحہ عمل کے ساتھ ان کے کورٹ میں آئے۔

کورٹ نے وارننگ دیتے ہوئے کہا، ‘اگرہم ریاستی سرکار کی رپورٹ سے خوش نہیں ہوئے تو ہمیں مجبور ہوکر سول اسپتال کے ڈاکٹروں کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ کرنی پڑےگی اور پتہ کرنا ہوگا کی ان کی کیا پریشانیاں ہیں۔’ان تبصروں  سے ریاستی حکومت کو اس قدر جھٹکا لگا کہ انہوں نے ایک عرضی دائر کرکے کورٹ سے اس بنیاد پر اپناتبصرہ واپس لینے کو کہا کہ اس سے عوام  کا اسپتال میں بھروسہ ختم ہو جائےگا اور میڈیکل اسٹاف بھی احساس کمتری میں مبتلا ہوجائیں گے۔

حالانکہ پردیوالا وورا کی بنچ نےاپنے بیان کو برقرار رکھا اور 25 مئی کو ریاستی  حکومت کی عرضی کو خارج کر دیا۔ بنچ نے اسپتال کے ایک ریزیڈنٹ ڈاکٹر کے ذریعے بھیجے گئے ایک گمنام خط کو اپنے علم میں لینے کو چیلنج دینے والی ریاستی حکومت کے اعتراضات کو بھی خارج کر دیا۔

اس کے علاوہ بنچ نے ججوں کے ذریعے سرپرائز چیکنگ کے لیے اسپتالوں کو تیار رہنے کو بھی کہا۔حالانکہ اب اچانک اس بنچ میں تبدیلی کیے جانے کو لے کر مختلف طبقوں  نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ کہیں یہ پچھلی بنچ کے ذریعے دیےگئے آرڈر کو کمزور کرنے کے لیے تو نہیں کیا گیا ہے۔ جسٹس پردیوالا اس نئی بنچ میں شامل تو ہیں، لیکن وہ جونینر جج ہیں اس لیےہو سکتا ہے کہ اب کورٹ کے احکامات میں اتنی تیزی نہ دکھائی دے۔

لوگوں میں یہ بھی ڈر ہے کہ پچھلی بنچ نے جوسنجیدگی  دکھائی تھی، شاید نئی بنچ میں وہ بات نہ دکھے۔

دوسرے بنچ میں متنازعہ تبدیلی

یہ پہلا موقع نہیں جب اس طرح اچانک یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس سے پہلے دہلی فسادات کے وقت ایسی  ہی ایک غیر متوقع تبدیلی کی گئی تھی جب جسٹس مرلی دھر نے دہلی پولیس کو سخت پھٹکار لگائی تھی اور بی جے پی کے بااثر رہنماؤں کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر وغیرہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کو لے کر فیصلہ لینے کو کہا تھا۔

مرلی دھر کے احکامات سے سرکار اس قدر متاثر ہوئی کی آناً فاناً میں انہوں نے آدھی رات کو جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں کرنے کا آرڈر جاری کر دیا۔مرکز نے چارج لینے کی کوئی مدت بھی طے نہیں کی۔ بالواسطہ طور پر جسٹس مرلی دھر سے کہا گیا کہ وہ فوراً ہائی کورٹ جوائن کریں۔

جسٹس مرلی دھر کی قیادت والی دہلی ہائی کورٹ کی بنچ نے آدھی رات کو شنوائی کر کےایک بے حد اہم آرڈرمیں متاثرین  کی مدد کے لیے متاثرہ علاقوں میں ایمبولینس بھیجنے کا انتظام کرنے اور انہیں جلد اسپتال میں بھرتی کرانے کو کہا تھا۔گجرات ہائی کورٹ جیسی ہی حالت اس وقت بھی پیدا ہوئی تھی۔ دہلی فسادات پر دائر عرضی کو دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی این پٹیل کے ذریعے سنا جانا تھا لیکن اس دن وہ چھٹی پر چلے گئے، جس کے بعد یہ معاملہ جسٹس مرلی دھر کی بنچ کے پاس آ گیا۔

حالانکہ جب مرلی دھر نے سرکار اور پولیس کو پھٹکار لگائی، سرکار نے جلدبازی میں سپریم کورٹ کولیجیم کی زیر التوا سفارش کو قبول کیا اور جج کا ٹرانسفر کر دیا۔ اسی بیچ چیف جسٹس ڈی این پٹیل کی بھی واپسی ہو گئی اور دنگوں کے معاملوں کو انہوں نے اپنی بنچ کے ساتھ لسٹ کر لیا۔

اس کولے کرمرکزی حکومت یہی دلیل دیتی آئی ہے کہ چونکہ چیف جسٹس واپس آ گئے تھے اور سپریم کورٹ نے کافی پہلے جسٹس مرلی دھر کا ٹرانسفر کرنے کی سفارش کی تھی، اس لیے انہوں نے ایسا کیا۔حالانکہ کئی لوگوں نے اس پر سوال اٹھایا اور الزام لگایا کہ آناً فاناًمیں جسٹس مرلی دھر کا ٹرانسفر اس لیے کیا گیا کیونکہ سرکار کو لگ رہا تھا کہ یہ بنچ سرکار اور پولیس کے خلاف میں آرڈر دے سکتی ہے۔

اگلی شنوائی میں جس کا اندیشہ تھا قریب قریب وہی ہوا اور نئی بنچ نے جلد ایف آئی آر درج کرنے کے آرڈر کو پلٹ دیا اور مودی سرکار کی  اس دلیل کو قبول کر لیا کہ فی الحال رہنماؤں کے خلاف کارروائی کرنے کا وقت نہیں ہے۔یہ معاملہ یہیں تک نہیں رکا۔ جسٹس مرلی دھر پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں دوسرے سب سے سینئر جج ہیں لیکن وہاں انہیں ٹیکس معاملوں کی شنوائی کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس سے پہلے ٹیکس معاملوں کی شنوائی ساتویں سیشن کی بنچ کرتی تھی، جبکہ دوسرے سیشن  کی بنچ خفیہ  ایجنسیوں، مجرمانہ  اپیل جیسے معاملوں کو سن رہی تھی۔

اس کولے کر پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے وکیلوں نے مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ جسٹس مرلی دھر ایسے معاملوں کی شنوائی نہ کر پائیں جو کہ سیاسی طور پر متاثر ہو اور جس پر دیے گئے فیصلوں سے سرکار کی تنقید ہو۔اسی طرح جسٹس عقیل قریشی کا بھی ٹرانسفر کرنے کی کالیجیم کی سفارش تب تک سرکار نے قبول نہیں کی جب تک کہ کالیجیم نے اپنے پہلے کے فیصلے کو بدل کر انہیں تریپورہ بھیجنے پر مہر نہیں لگائی۔

پہلے سپریم کورٹ کالیجیم نے جسٹس قریشی کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی سفارش کی تھی۔ الزام ہے کہ چونکہ مدھیہ پردیش میں سیاسی طو رپرمتاثرمعاملوں کی تعداد زیادہ ہونے کا امکان تھا اس لیے سرکار نے عقیل قریشی کو یہاں کا چیف جسٹس بنائے جانامنظور نہیں کیا۔

جسٹس قریشی نے ہی سہراب الدین انکاؤنٹر معاملے میں رول کی وجہ سے موجود ہ وزیر داخلہ امت شاہ کو دو دن کی پولیس حراست میں بھیجا تھا۔

ایک بار پھر ‘ماسٹر آف روسٹر’ سوالوں میں ہے

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس‘ماسٹر آف روسٹر’ ہوتے ہیں، یعنی کہ سی جےآئی ہی یہ طے کرتے ہیں کہ کون سی بنچ کس معاملے کو سنےگی۔اس ضابطے کی پیروی عام طور پر ڈسپلن کو بنائے رکھنے کے لیے کی جاتی ہے، لیکن ایک نظریہ یہ بھی ہے روسٹر بنانے کی طاقت کااستعمال اس طریقے سے کیا جانا چاہیے جومناسب،منصفانہ اور شفاف ہو۔

روسٹر بنانے میں شفافیت برتنے کی مانگ کرنے والوں کو اس بات کی فکرہے کہ اگر یہ کام منصفانہ ڈھنگ سے نہیں کیا جاتا ہے تو چیف جسٹس اپنے اس خصوصی اختیار کا استعمال ‘بنچ فکسنگ’ یعنی جج کے فیصلے کا اندازہ لگاتے ہوئے اسے معاملے مختص کرنے کے لیے کر سکتے ہیں۔

ایسی صورت میں کئی بار دیکھا گیا ہے کہ سیاسی طور پرحساس معاملے اس جج کی قیادت والی بنچ کے پاس نہیں بھیجے جاتے ہیں جس کے فیصلے کاسرکار کے خلاف جانے کا امکان  ہو۔سال 2018 میں سینئروکیل شانتی بھوشن نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کرکے یہ مانگ کی تھی کہ بنچ تشکیل  کرنے کی کارروائی شفاف اورمدلل ہونی چاہیے تاکہ ‘بنچ فکسنگ’ کا کوئی امکان نہ ہو۔ حالانکہ کورٹ نے پہلے کی مثالوں  کا حوالہ دیتے ہوئے اس مانگ کو خارج کر دیا تھا۔