خبریں

سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوز کی نظربندی کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر

جموں وکشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ ہٹنے کے بعد سے سابق مرکزی وزیر اور جموں وکشمیر کانگریس کے سینئررہنماسیف الدین سوز نظربند ہیں۔ ان کی اہلیہ نے سپریم کورٹ میں داخل حبس بے جا یعنی  ہیبیس کارپس کی درخواست  میں الزام لگایا کہ ان کے شوہر کوپی ایس اے کے تحت گھر میں ہی نظربند کرنے کی وجہ آج تک نہیں بتائی گئی ہے۔

سابق مرکزی وزیر اور جموں وکشمیر کانگریس کے سینئررہنماسیف الدین سوز۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

سابق مرکزی وزیر اور جموں وکشمیر کانگریس کے سینئررہنماسیف الدین سوز۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سابق مرکزی وزیر اور جموں وکشمیر کانگریس کے سینئر رہنماسیف الدین سوز کی پانچ اگست، 2019 سے گھر میں ہی نظربندی کو چیلنج  دیتے ہوئے ان کی اہلیہ نے سپریم کورٹ میں حبس بے جایعنی  ہیبیس کارپس کی عرضی دائر کی ہے۔عرضی میں سوز کی نظربندی کے آرڈرکو رد کرنے اور انہیں عدالت میں پیش کرنے کا آرڈر دینے کی  اپیل کی گئی ہے۔

سیف الدین سوز کی اہلیہ ممتازالنساء سوز نے عرضی میں الزام لگایا ہے کہ ان کے شوہر کو جموں وکشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ، 1978 کے تحت گھر میں ہی نظربند کرنے کی وجہ آج تک نہیں بتائی گئی، جس کی وجہ سے وہ اس گرفتاری کو چیلنج دینے سےقاصر ہیں۔عرضی کے مطابق یہ نظربندی غیرقانونی، بدنیتی پر مبنی اورغیر آئینی  ہی نہیں بلکہ بے حد ڈراؤنی بھی ہے۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ پروفیسرسیف الدین سوز کی نظربندی آئین کے آرٹیکل21(جینے کے حق)اور 22 (گرفتاری کی وجہ جاننے کے حق)میں دیے گئےبنیادی حقوق اور احتیاطی نظربندی کے قانون کی خلاف ورزی  ہے۔ممتازالنساء سوز نے وکیل سنیل فرنانڈیزکے توسط سے یہ عرضی دائر کی ہے۔اس عرضی میں سوز کو عدالت کے سامنے پیش کرنے اور ان کی نظربندی کے آرڈرکورد کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ سوز کو نظربندی میں رکھنے کے بعد مقامی  ایس ایچ او نے انہیں بتایا کہ ان کی حراست مبینہ  طور پر جموں وکشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ، 1978 کے تحت ہے۔ سوز نے جموں وکشمیر پولیس سے حراست میں رکھے جانے کے آرڈر کی کاپی کی مانگ بھی کی تھی لیکن پولیس نے انہیں دینے سے انکار کر دیا۔ پولیس نے کہا کہ آرڈر کی تعمیل  کے لیے متعلقہ افسر کوتحریری آرڈر ملے ہیں۔

عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سال 15 مئی کو سوز نے یونین ٹریٹری  جموں کشمیر کے چیف سکریٹری  کوخط لکھ کر انہیں رہا کرنے کی اپیل  کی تھی اور کہا تھا کہ بنا کوئی جرم  کیے انہیں طویل عرصے سے بنا کوئی وجہ بتائے حراست میں رکھا گیا ہے۔ حالانکہ، افسرنے کوئی جواب نہیں دیا۔

عرضی میں کہا گیا کہ 82 سالہ سوز 1983 میں پہلی بار بارہمولہ پارلیامانی حلقہ سے انتخا ب  جیتنے کے بعد کئی بار ایم پی  بنے۔ اس کے ساتھ ہی 1997-99 میں وہ ماحولیات کےمرکزی وزیر  رہے اور 2006-2009 کے بیچ وہ آبی مسائل کے وزیر رہے۔جموں وکشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ فراہم کرنے والے آئین  کے آرٹیکل 370 کے اکثر اہتمام  کوختم کرتے ہوئے جموں کشمیر میں سابق  وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سمیت کئی رہنماؤں کو گھروں میں ہی نظربند کر دیا گیا تھا۔

گزشتہ 24 مارچ کو نیشنل کانفرنس کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ پر سےپی ایس اے ہٹاتے ہوئےان کو رہا کر دیا گیا تھا۔ اس سے پہلےپی ایس اے کے تحت ہی حراست میں رکھے گئے عمر کے والداورسابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کو گزشتہ 13 مارچ کو رہا کر دیے گئے تھے۔

حالانکہ، اسی مہینے جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی، نیشنل کانفرنس کے علی محمد ساگر، پی ڈی پی رہنما سرتاج مدنی کی اور سابق آئی اے ایس شاہ فیصل کی نظربندی کی مدت پی ایس اےکے تحت تین مہینے بڑھا دی گئی۔وہیں، حراست میں رکھے گئے دوسرے اہم رہنماؤں  میں پی ڈی پی رہنما نعیم اختر، پیپلس کانفرنس کے صدرسجاد لون شامل ہیں۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)