فکر و نظر

مودی 2.0 کے پہلے سال میں جمہوریت کو ہی کورنٹائن کر دیا گیا ہے

مودی حکومت کے اندرجمہوریت کی بے حرمتی کا احساس بےحد گہرا اور وسیع ہے اور یہ ہر اس ادارے تک پھیل چکا ہے، جس کا کام ایگزیکٹوکے اختیارات پر روک لگاکر اس کوقابومیں رکھنا ہے۔

Illustration: Pariplab Chakraborty

Illustration: Pariplab Chakraborty

وزیر اعظم کے طور پر اپنی  دوسری مدت  کار کے پہلے سال میں نریندر مودی نے ہندوستان  کے ساتھ کیا کیا ہے، یہ سمجھنے کے لیے میں آپ کے سامنے دونوجوانوں-امولیہ لیونا اور انوراگ ٹھاکر کے ساتھ ہوئے بالکل الگ الگ سلوک  کی طرف توجہ  دلانا چاہوں گا۔لیونا جو ابھی کمسن ہی ہے، تین مہینے سے جیل میں ہے۔ اس پر سیڈیشن سمیت دوسرےسنگین جرائم کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے بنگلور میں ایک عوامی تقریب  میں اسٹیج  سے ‘پاکستان زندہ باد’ اور ‘بھارت زندہ باد’ کا نعرہ لگایا تھا۔

اگر لیونا نے زندہ اورآباد رہنے کی بات کی تھی، تو ٹھاکر نے، جو نریندر مودی کی سرکار میں وزیر مملکت برائےخزانہ ہیں، مارنے کی بات کی تھی۔ دہلی میں ایک عوامی تقریب کے دوران اسٹیج سے انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں کی بھیڑ سے ‘غداروں کو گولی مارنے’ کا نعرہ لگوایا۔

یہاں غدار کوئی فرضی تصورنہیں تھا، بلکہ سرکار کے ذریعے پاس کیے گئے شہریت قانون(سی اے اے) کے خلاف شاہین باغ اور دوسری جگہوں پر مظاہرہ  کر رہیں خواتین  اورمردتھے۔سچائی یہ ہے کہ کچھ دنوں کے بعد کسی نے حقیقت میں جامعہ ملیہ  کے مظاہرین  پر گولی چلائی۔ لیکن پولیس نے ابھی تک ٹھاکر پر معاملہ درج نہیں کیا ہے، ان کو حراست میں لینے کی مانگ کرنے کی بات تو جانے ہی دیجیے۔

دہلی ہائی کورٹ کے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پولیس وزیر کے خلاف ایف آئی آر دائر کرنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے، سرکارکے ایک بڑے قانون افسر نے کہا کہ ابھی اس کے لیے ‘صحیح وقت نہیں ہے۔’

لیونا اور ٹھاکر اکیلے نہیں ہیں۔

اندرا گاندھی کے ذریعے لگائی  گئی ایمرجنسی  کے بعد کبھی اتنے لوگوں نے اتناعرصہ حراست میں نہیں بتایا ہوگا، جتنا پچھلے ایک سال میں۔گرفتاری اور حراست کی تلوار اور بھی کئی سروں پر لٹکی ہوئی ہے۔جموں وکشمیر کی ایک سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی نظربندی کا یہ نوواں مہینہ چل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آزاد ہندوستان میں کبھی بھی اقتدار سے وابستہ لوگ اس طرح سے قانون کے اوپر نہیں ہوئے، جتنے آج ہیں۔

اگر آپ مقتدرہ پارٹی کے ممبر ہیں یا سرکار کے سیاسی  ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں، تو آپ صرف تشدد کی پیروی ہی نہیں کر سکتے،تشدد کو انجام بھی دے سکتے ہیں، مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلا سکتے ہیں، غریبوں کی بے عزتی کر سکتے ہیں، انہیں گالی دے سکتے ہے اور ایسا کرتے ہوئے آپ کو انصاف کی عدالت میں کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا جائےگا۔

نیوزی لینڈ میں ایک ہندی نژاد جسٹس آف پیس کوہندوستان میں مسلمانوں کےاقتصادی بائیکاٹ کی پیروی کرنے کے لیے برخاست کر دیا گیا۔ اتر پردیش میں دو ایم ایل اے کو کیمرے پر یہی کرتے پکڑا گیا، لیکن پھر بھی نہ صرف ان کی کرسی سلامت ہے، بلکہ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف چارج شیٹ دائر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

ہندوستان  کے کئی حصوں میں اپنے رہنما کا مذاق بنانے، یہاں تک کہ ان کی تنقیدمحض کرنے کا حق بھی یا توختم  ہو گیا ہے یا بےحد نازک ڈور پرآویزاں ہے۔ پچھلے ہفتے مدھیہ پردیش پولیس نے وزیر اعظم کو ‘گپو’ کہنے کے الزام میں ایک صحافی کے خلاف مجرمانہ معاملہ درج کیا۔

آگرہ میں ایک شخص، جس نے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ کو ‘کتا’ کہا، اس پرسیڈیشن کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔ پچھلے مہینے کشمیر میں ایک نوجوان خاتون صحافی کو 2018 میں انسٹاگرام پر ایک تصویر پوسٹ کرنے کے لیےیو اے پی اے کے تحت بطوردہشت گرد گرفتار کرنے کی دھمکی دی گئی۔

آندھرا پردیش میں ایک خاتون کو وشاکھاپٹنم میں ہوئے حالیہ صنعتی حادثے کے لیے ایک کے بعد ایک بے چین کرنے والے سوال پوچھنے کے لیے پولیس نے گرفتار کر لیا۔ ان الگ الگ معاملوں میں کی گئی جابرانہ  کارروائی کا مقصد دوسروں  کو ڈرا کر چپ کرانا ہے۔یو اے  پی اے(ترمیم شدہ)نے امت شاہ کو کسی بھی شخص کو بنا کسی مقدمے، یہاں تک کہ بنا چارج شیٹ دائر کیے ‘دہشت گرد’ قرار دینے کی طاقت بھی دے دی ہے۔

کو رونا وائرس کو لے کر مودی کے طور طریقے اور بنا کسی منصوبے اور تیاری کے لاک ڈاؤن لگانے سے پیدا ہوئے انسانی آفات ایک منتظم  کے طور پران  کی مکمل  ناکامی کا ثبوت ہیں۔لیکن میری نظروں میں، انہوں نے جس آفت کو پیدا کیا ہے، وہ پچھلے ایک سال میں واضح طور پر دیکھی جا سکنے والی ان کی فطرت کا منطقی نتیجہ ہے اور وہ ہے جمہوریت کی بے حرمتی اوراس کے لیے حقارت کا احساس۔

اس احساس  سے بھرا ہوا کوئی شخص ہی جس کو اس بات کا مکمل یقین ہے کہ وہ چاہے جو کچھ کرے، اس کی کرسی ہلنے والی نہیں ہے لاکھوں کروڑوں مہاجر مزدوروں کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کرنے کی زحمت  اٹھائےگا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان سب کے پاس ووٹ کرنے کا حق ہے۔

مودی کے اندرجمہوریت کی بے حرمتی کا احساس  بےحد گہرا کئی معنوں میں وسیع ہے اور یہ ہر اس ادارے تک پھیل چکا ہے، جس کا کام ایگزیکٹوکے اختیارات پر روک لگاکر اس کوقابومیں رکھنا ہے۔وزیر اعظم کے طور پر اپنی  پہلی  مدت  کار میں انہوں نے عدلیہ، ریزرو بینک آف انڈیا، سی بی آئی، یونیورسٹی ، سینٹرل انفارمیشن کمیشن سی وی سی، اطلاعات کا حق،پارلیامنٹ اور اس کی کمیٹیوں کو معذور بنایا تھا۔

دوسری مدت کار میں انہوں نے ہندوستانی سیاست کے وفاقی رجحان کو اپنے نشانے پر لے لیا ہے۔ انہوں نے سینٹرل انفارمیشن کمیشن کو بھی کمزوربنا دیا ہے اور عدلیہ  کی آزادی  کو اور محدود کر دیا ہے، تاکہ کشمیر سے کنیاکماری تک جمہوری حقوق  پر ان کے حملوں کو کوئی چیلنج  نہ دیا جا سکے۔

‘وکاس’اور اقتصادی نمو کا دکھاوا بھی چھوڑ دیا گیا ہے، جس کی اوٹ کا استعمال پچھلی مدت  کار میں بی جے پی کے فرقہ وارانہ  ایجنڈے کو چھپانے کے لیے کیا گیا تھا۔مودی کی  دوسری مدت کار کی بی جے پی جتنی بھی حصولیابیوں کو شمارکرسکتی ہے، وہ  سب صرف مسلم مخالف ذہنیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ سب سے پہلے بنا صحیح طریقے سے طلاق دیےاپنی بیویوں کو چھوڑنے والے مسلم شوہروں کوغیر ضروری  طور پر مجرم قراردیا گیا(لیکن اگر یہی کام کوئی ہندو شوہر کرتا ہے، تو اس کوڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔)

اس کے بعد 5 اگست کو آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا گیا اور ذرائع ابلاغ پر پابندی لگاکر جموں وکشمیر کی عوام  کا پوری دنیا سے رابطہ ختم کردیا گیا۔ یہ تالابندی چھ مہینے تک چلی اور ابھی بھی اسے پوری طرح سے ہٹایا نہیں گیا ہے۔اس کے بعد مودی حکومت نے ایودھیا مدعے پر اپنے حق  میں فیصلہ پانے کی کوشش کی اور اس نے سپریم کورٹ سے اپنے من مطابق فیصلہ(بھلے ہی یہ ہر طرح سے بے تکا ہو)دلوایا۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی  کا اس مقام پر مندر بنانے کا لمبےعرصے سے چلا آ رہا ایجنڈا پورا ہو جائےگا، جہاں اس کے حامیوں نے 1992 میں بابری مسجد کو منہدم کیا تھا۔

قانونی فہم وفراست  کو سر کے بل لٹکاتے ہوئے پراپرٹی تنازعہ کے ایک معاملے پر جس کے لیے ایک سنگین جرم  کیا گیا، مودی کے کہنے پرفاسٹ ٹریک طریقے سے شنوائی کی گئی، جبکہ اس سے جڑا مجرمانہ معاملہ اب تک زیر سماعت ہے۔پچھلے دسمبر میں مودی سرکار نے سی اے اے یعنی ‘شہریت ترمیم قانون’ کے طور پر اپنی تیسری کامیابی حاصل کی۔ ٹھیک ویسے ہی، جیسے تین طلاق کو لےکر مطلوبہ مقصد تبھی پورا ہوتا جب کسی بھی شوہر، نہ کہ صرف مسلم شوہر کے کے ذریعے اپنی بیوی کو صحیح  طریقے سے طلاق دیے، بغیر چھوڑنے کو جرم  قراردیا جاتا، ویسے ہی سی اے اے کےحق  میں مطلوبہ مقصد تبھی پورا ہوتا جب پڑوسی ممالک میں استحصال کا شکار ہونے والے کسی بھی شخص کوہندوستان  کاشہری  بننے کی اجازت دی جاتی نہ کہ صرف غیر مسلموں کو۔

لیکن یہاں بھی مودی سرکار کا ارادہ مذہب کا استعمال پولرائزیشن کے لیے کرنا تھا۔ امت شاہ کے مقبول کرونالوجی والے بیان نے یہ صاف کر دیا کہ سرکارشہریوں کے کل ہند شہری رجسٹر کی تشکیل  کی سمت میں آگے بڑھنا چاہتی ہے۔حالانکہ بعد میں اس مسئلے پر عوامی مخالفت کو دیکھتے ہوئے انہیں اور مودی کو اس منصوبے سے عارضی  طور پر ہی سہی، مگر پیچھے ہٹنا پڑا۔

سرکار کی اگلی ‘کامیابی’ دہلی کے فرقہ وارانہ تشدد کا استعمال سی اے اے مخالف مظاہرین کے ٹھوس ارادوں کو توڑنے کی تھی۔ جب یہ کارروائی ناکام رہی۔کو رونا وائرس کی وجہ سے اس پر بریک لگ گیا تب تشدد کےاسلامسٹ -مارکسسٹ سازش کانتیجہ ہونے کی کہانی گڑھ لی گئی اور سی اے اے مخالفت تحریک کی اگلی قطار میں کھڑے کئی کارکنوں کوجابرانہ یو اے پی اے کے تحت گرفتار کر لیا۔

ایسا اس سچائی  کے باوجود کیا گیا کہ پوری دنیا کو یہ پتہ ہے کہ اس تشدد کا بنیادی نشانہ مسلمان تھے۔ یہ کہنا کہ اپنے گھروں اورذریعہ معاش کو برباد کرنے کی سازش مسلمانوں نے خود کی ، ویسا ہی جیسے نازی جرمنی میں یہ کہنا کہ کرسٹل ناخٹ کے پیچھے یہودیوں کا ہی ہاتھ تھا۔

حالانکہ مودی کے حامی جمہوریت کا استحصال اور مسلمانوں میں  بڑھتے عدم تحفظ کو وزیر اعظم کے طور پر اپنے رہنما کے چھٹے سال کی بڑی کامیابی کے طور پر دیکھیں گے، لیکن پھر بھی مودی کی تین بڑی ناکامیوں سے دھیان نہیں بھٹکایا جا سکتا ہے؛ان کی سرکار کی کشمیر پالیسی، کووڈ 19 عالمی وبا کو لے کر کا ان کا طور طریقہ اور لاک ڈاؤن کےممکنہ نتائج  سے غریبوں اور کمزوروں کو بچا پانے میں ان کی ناکامی۔

‘سلامتی’وجوہات کے نام پر کشمیر گھاٹی میں 4-3جی خدمات بحال کرنے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرکے جمہوری سرگرمیوں کی اجازت دینے کی سرکار کی منشا اس بات کا سب سے بڑا اشارہ ہے کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ ویسا اچوک علاج ثابت نہیں ہوا، جیسا کہ مودی اور شاہ نے دعویٰ کیا تھا۔

جتنے زیادہ وقت تک موجودہ پالیسی پر عمل کیا جاتا رہےگا، کشمیر گھاٹی میں لوگوں میں کشمیر کےمسئلہ  کاآبادی  بدلنےکے  ذریعے حل کرنے  کا ڈر اتنا بڑھتا جائےگا۔آرٹیکل 370 اور سی اے اے پر سرکاری اقدامات کے  جواز کے سوال کوترجیح دینے کو چھوڑ ہی دیجیے، سپریم کورٹ کے ذریعے اجتماعی گرفتاریوں یا انٹرنیٹ پر لگی پابندی کو لےکر کچھ بھی کرنے سے انکار کر دینے کو بھی اس سرکار کی ایک اوربڑی  کامیابی کے طور پر گنایا جا سکتا ہے، جس کے بارے میں رکن پارلیامان  رنجن گگوئی حکمرانوں کے ساتھ راجیہ سبھا میں بیٹھ کر زندگی  بتاتے ہوئے فخر کر سکتے ہیں۔

وبا اور گورننس

افسوس ناک طریقے سے ہندوستان اور نریندر مودی کے لیے بنا کسی دوربینی، عجلت پسندی، سینٹرلائزڈ اور جمہوری  ڈھنگ سے کام کرنے کے طریقے، جو وزیر اعظم کے کام کاج کاخصوصی انداز کہا جا سکتاہے،کی وجہ سے کو رونا وائرس کے مورچے پر وزیر اعظم سے کئی بہت بھاری چوک ہوئی ہے۔

اور عدلیہ بھی یہاں انہیں بچانے کے لیے نہیں آ سکتی ہے۔دراصل مہاجر مزدوروں کی دیکھ بھال کے معاملے میں پہلے سرکار کو کلین چٹ دے دینے کے بعد سپریم کورٹ کو بھی ملک  بھر میں محنت کشوں کی لامتناہی اذیت دیکھ کر، اپنا رخ بدلنے کو مجبور ہونا پڑا۔حقیقت یہ ہے کہ شروع سے مودی کے ذریعے اس بحران کامینجمنٹ آفت کو مدعوکرنے والا رہا ہے۔ 13 مارچ تک ان کی سرکار کسی طرح کی ہیلتھ ایمرجنسی کی حالت  نہ ہونے کا اعلان کر رہی تھی۔ پھر، 11 دنوں بعد وزیر اعظم کو محض 4 گھنٹے کی نوٹس پر ملک گیر لاک ڈاؤن کا اعلان کرنا پڑا۔

حالانکہ مودی کو ان کی اس سمجھ کے لیے قصورنہیں دیا جا سکتا ہے کہ لاک ڈاؤن مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کی مفید تدبیر ہے دنیاکے زیادہ تررہنماؤں نے اسی طرز پر کام کیا ہے لیکن مودی شاید دنیا کے اکلوتے رہنما ہیں، جنہوں نے اس کے لیے سوئی بھر بھی تیاری نہیں کی۔

اگر انہوں نے 19 مارچ کو بھی، یعنی 22 مارچ کو جنتا کرفیو منانے کا اعلان کرنے کے دن، لاک ڈاؤن کا منصوبہ  بنا لیا ہوتا، تو انہوں نے اس کے نتائج سے نپٹنے کی تیاری کے لیے پورے 6 دن کا وقت مل جاتا۔لاک ڈاؤن سے پہلے کے اور اس کے بعد کے بیش قیمتی دنوں کو سیاسی مقاصد کو پورا کرنے، مثلاً مدھیہ پردیش میں کانگریسی سرکار کو گرانے اور مہاماری کو فرقہ وارانہ  رنگ دینے میں گنوا دینے کے بعد مودی سرکار کو یہ امید تھی کہ سرکاری سسٹم  کے سخت  استعمال کی بدولت وہ کم سے کم گورننس کے باوجود بچ کر نکل جائےگی۔

حقیقت یہ ہے کہ لاک ڈاؤن وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام رہا رہا ہے اور اس نے معیشت کی توکمر توڑ ہی دی اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کا روزگار بھی چھین لیا۔ اسی بیچ سنگھ پریوار کی اسلام دشمنی  نے سالوں میں خلیجی ممالک میں رکھی گئی ہندوستانی سفارت کاری  کی بنیادوں کو بھی ہلا دیا ہے اس سے ملک  کو نقصاندہ اقتصادی نتائج بھگتنا ہوگا۔

مودی 1.0 کے دوران ارن شوری نے مذاق میں کہا تھا کہ بی جےپی سرکار ‘منموہن سنگھ پلس گائے’ ہے۔ آج یہ دیکھتے ہوئے کہ مودی نے کس طرح سے وبا کا استعمال اقتدارکے سینٹرلائزیشن کے لیےبڑے کاروباری گھرانوں کےمفاد میں، لوگوں کے جمہوری حقوق کو روندنے اور عدلیہ کو اپنے موافق بنانے کے لیے کیا ہے، ان کااقتدار ہر گزرتے دن کے ساتھ اندرا گاندھی کی ایمرجنی  جیسا لگنے لگا ہے۔

اندرا گاندھی کی طرفداری کرنے والے کہا کرتے تھے کہ کم سے ‘ٹرینیں تو وقت پر چلنے لگیں۔’ چھ سال کے نظریے سے چلنے والی ‘حکومت’نے ایسی بدنظمی پیدا کی ہے کہ مودی 2.0 اتنا بھی کر پانے میں ناکام رہی ہے۔وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے طور پر نریندر مودی کی مدت کارکی بنیاد پر ہم ان کے بارے میں اگر کوئی ایک چیز جان پائے ہیں، تو وہ یہ ہے کہ وہ کبھی بھی غلطی سے سیکھتے نہیں ہیں۔ موجودہ حالات ان کی  آدم قد شخصیت کا نتیجہ ہے اور ان کے بس میں صرف یہی ہے کہ وہ اپنی سب سے بری خصلتوں  کو دوگنا کر دیں۔

اقتدارکا سینٹرلائزیشن، خودمختاری اور تفرقہ انگیزی،پولرائزیشن پر مرکوزسیاست نے انہیں پہلے بھی بحران  سے پار پانے میں مدد کی ہے۔ ایسے میں جبکہ کووڈ 19 کا انفیکشن پھیل رہا ہے اور معیشت لڑکھڑائی ہوئی ہے، آنے والے سال ہندوستان  کی جمہوریت کے لیے ہمارے اب تک کے تجربے سے بھی زیادہ نقصاندہ ثابت ہوں گے۔