خبریں

’مجھے ان ٹوئٹس کی وجہ سے نوکری سے نکالا گیا، جو میں نے کیے ہی نہیں تھے‘

گزشتہ  دنوں گو ایئر کے ذریعے ان کے ایک پائلٹ کو یہ کہتے ہوئے نوکری  سے نکال دیا گیا کہ انہوں  نے ٹوئٹر پر ہندو بھگوانوں کو لےکرقابل اعتراض تبصرہ کیا تھا۔ نوکری سے نکالے گئے اسٹاف کا کہنا ہے کہ وہ ٹوئٹر اکاؤنٹ ان کا نہیں ہے اور کمپنی نے بنا ان کی بات سنے یہ فیصلہ  لیا ہے۔

(فوٹو بہ شکریہ: آصف خان/رائٹرس)

(فوٹو بہ شکریہ: آصف خان/رائٹرس)

گزشتہ دنوں ہوائی سروس دینے والی کمپنی گو ایئر نے ٹوئٹر پر بیان جاری کرکے اپنے ایک اسٹاف آصف خان کو نوکری سے نکال دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ٹوئٹر پر ہوئے ایک قابل اعتراض تبصرہ کے بعد ہوئے تنازعہ  کے مدنظریہ فیصلہ لیا گیا ہے۔حالانکہ نوکری سے ہٹائے گئے آصف خان کا کہنا ہے کہ جن متنازعہ پوسٹس کی بات کی جا رہی ہے، وہ ان کے اکاؤنٹ سے کیے ہی نہیں گئے ہیں۔ ان کے ہی نام کے کسی اور شخص کے پروفائل سے وہ ٹوئٹس کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس شخص نے اپنے اکاؤنٹ میں خود کو گو ایئر کمپنی کے کیبن کرو کاممبر بتایا گیا تھا اور شاید وہیں سے یہ غلط فہمی ہوئی کہ وہ میں ہوں اور مجھ پر کارروائی کی گئی۔

معاملہ گزشتہ 2 جون اور 3 جون کو تب شروع ہوا، جب ٹوئٹر پر آصف خان (@MohdAsif 35534489) نام کے ایک اکاؤنٹ سے ہندو مذہب اور سیتا پر قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر اس اکاؤنٹ کے خلاف لوگوں میں کافی غصہ دیکھنے کو ملا۔لوگوں کے اس شخص کی پہچان گو ایئر کے اسٹاف کے طور پر کیے جانے کے بعد کمپنی کی تنقید کرتے ہوئے ان سے جوابدہی کی مانگ کی جانے لگی۔ لوگوں نے #BoycottGoAir ہیش ٹیگ بھی چلایا، جس کے بعد گو ایئر نے ایک بیان جاری کرکےآصف خان کو نوکری سے نکال دیا۔

گو ایئر نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی شخص یا اسٹاف کے نجی خیالات سےاتفاق نہیں رکھتے ہیں اور آصف خان کو فوری اثر سے کمپنی سے ہٹایا جا رہا ہے۔

اس بیچ جس اکاؤنٹ سے یہ پوسٹ کیا گیا تھا، اس کو سسپنڈ کر دیا گیا۔ حالانکہ جن آصف خان کو نوکری سے نکالا گیا ہے، ان کا اکاؤنٹ ابھی بھی موجود ہے۔

آصف کہتے ہیں کہ ان کے کے ذریعے ٹوئٹر پر کوئی بھی پوسٹ نہیں کیا گیا تھا۔ ان کے اکاؤنٹ میں ان کی تصویر ہے اور ڈسکرپشن میں پائلٹ لکھا ہوا ہے۔ آصف کی شکایت ہے کہ کمپنی نے ان کی بات سنے بنا، صورتحال کو جانے بغیر ہی ہی انہیں نوکری سے نکال دیا۔

آصف نے فیس بک پر لکھی ایک پوسٹ میں اپنی بات رکھی ہے اور کہا کہ اس واقعہ  کے بعد سے انہیں سوشل میڈیا پر بہت دھمکیاں ملی ہیں، میری ماں اور بہن سے ریپ کرنے جیسی باتیں کہی جا رہی ہیں۔

آصف لکھتے ہیں،‘میرا نام آصف خان ہے اور میں ممبئی کا رہنے والا ہوں۔ میں گو ایئر میں ٹرینی فرسٹ آفیسر کے طور پر کام کرتا ہوں۔ میں نے اس نوکری کے لیے بہت جدوجہد کی ہے۔ میں نے 6 سال تک جدوجہد کے بعد اس بڑی کمپنی میں نوکری پچھلے سال دسمبر میں پائی۔ یہ میری پہلی ڈریم جاب ہے اور میرے لیے بہت معنی رکھتی ہے۔ لیکن کل ایک فون کال نے سب بدل دیا۔’

آصف بتاتے ہیں کہ کو کمپنی کے کچھ سینئر حکام  نے انہیں نے فون کرکے اس بارے میں جانکاری دی تھی۔ وہ لکھتے ہیں، ‘4 جون کو میرے کچھ سینئرس نے فون کرکے میرے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے بارے میں مجھ سے پوچھ تاچھ کی، جس کے بعد میں نے ٹوئٹر چیک کیا تو پایا #BoycottGoair ٹرینڈ کر رہا تھا۔ میں نے پایا میرے ہی نام کے ایک شخص نے ہندو بھگوانوں کے بارے میں نازیبا کلمات لکھے تھے۔ اس شخص کی پروفائل میں لکھا تھا کہ وہ گو ایئر میں کیبن کرو کے طور پر کام کرتا ہے۔ لیکن اس کی پروفائل فوٹو دیکھ کر کوئی بھی بتا سکتا ہے کہ یہ میری تصویر نہیں ہے بلکہ کوئی اور شخص ہے۔’

آصف نے لکھا ہے کہ ان کی پہچان کو کسی اور سے کنفیوز کیا جا رہا ہے، جس کا خمیازہ انہیں اور ان کی فیملی  کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ماں اور بہن کو ریپ کی بھی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ نفرت بھرے کمنٹس اور میسیج مل رہے ہیں۔آصف اس کے بعد بتاتے ہیں کہ یہ بات صرف ٹوئٹر تک محدودنہیں تھی بلکہ اس پر یوٹیوب پر ویڈیو بھی بننے لگے۔ انہوں نے بتایا، ‘میرے بھائی کو گو ایئر کے کیبن کرو میں کام کرنے والی ایک دوست نے ایک ویڈیو کا لنک بھیجا تھا۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ میرا بھائی کیا ویڈیو میں دکھ رہے اس شخص کو جانتا ہے کیونکہ اس پروفائل میں میرا بھائی بھی فرینڈ لسٹ میں دکھائی دیا تھا۔ مجھے تب اندازہ ہوا کہ یہ بات بہت بڑھ گئی ہے۔’

آصف نے اس ویڈیو کے بارے میں بتایا، ‘اس ویڈیو کو بجنگ ٹرینڈس آفیشیل نام کے چینل نے لگایا تھا اور اس شخص نے مجھے ان ٹوئٹس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا اور ساتھ ہی ویڈیو میں میرے کئی سارے فوٹو بھی لگا دیے، جو میرے فیس بک اکاؤنٹ سے لیے گئے تھے۔ ساتھ ہی اس ویڈیو میں اس دوسرے اکاؤنٹ کی بھی تصویر لگائی تھیں۔ پر دونوں تصویروں کا موازنہ کرنے پر آسانی سے پتہ لگتا ہے کہ یہ میں نہیں ہوں۔’

انہوں نے آگے لکھا، ‘ہم نے ویڈیو کے کمنٹ سیکشن میں اس کی شکایت کی اور چینل کے مالک نے غلطی  قبول  کرتے ہوئے اس ویڈیو کو ہٹا لیا۔’ آصف اس معاملے میں پولیس میں شکایت درج کرا چکے ہیں اور انصاف کی امید کرتے ہیں۔آصف نےبتایا، ‘میں نے مقامی  پولیس اسٹیشن اور سائبر سیل میں اس کی شکایت درج کرائی ہے۔ میرا کبھی بھی کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں رہا ہے اور نہ ہی میں کبھی اس طرح کی حرکت کر سکتا ہوں۔ میں ہر مذہب کا احترام کرتا ہوں اور اس بات کی تصدیق  وہ ہر شخص کر سکتا ہے جو مجھے جانتا ہے۔ جو بھی کمنٹ اس اکاؤنٹ سے کیے گئے ہیں وہ نہ تو میرے ہیں اور نہ ہی میری کمپنی کے۔’

آصف اس معاملے میں غیرجانبدارانہ جانچ کی امید کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘میں چاہتا ہوں کہ اس پورے معاملے کی جانچ ہو۔ اس نے میری فیملی ، میرے بیمار والد کے سامنے بڑا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ میں عدلیہ  اور اپنی کمپنی پراعتماد رکھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اسے سمجھیں گے اور اس مسئلے کوحل کریں گے۔ میں جانچ میں ہر طرح کی مدد دینے کے لیے تیار ہوں۔’

دی  وائر سے بات کرتے ہوئے  آصف نے بتایا، ‘جب سے گو ایئر سے فون آیا ہے، تب سے پولیس اسٹیشن کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ امید ہے کہ میری بات سمجھی جائےگی۔ میں نے اپنی ساری بات فیس بک پر بیان جاری کرکے بتائی ہے۔’وہ آگے کہتے ہیں، ‘میرا ٹوئٹر اکاؤنٹ @faroutasif کے نام سے ہے۔ میں نے اپنے حکام کو بتایا کہ میں نے اس سے آخری پوسٹ 2019 میں کیا تھا۔ اس کے بعد میں نے ٹوئٹر پر دیکھا اور پتہ چلا کہ کوئی اور شخص بھی ہے، جس کا نام آصف خان ہے۔ لیکن اس کا ٹوئٹر ہینڈل الگ ہے، پروفائل فوٹو الگ ہے اور ڈسکرپشن میں کیبن کرو لکھا ہے، جبکہ میں تو پائلٹ ہوں۔’

آصف کہتے ہیں،‘میں نے اپنی نوکری کھو دی ہے اور اس میں میری کوئی غلطی بھی نہیں ہے۔ میں اس معاملے میں ایف آئی آر کر رہا ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ اس میں خود کو ثابت کرتے کرتے بہت دیر ہو جائےگی۔’آصف کا ڈر غلط نہیں ہے۔ یوٹیوب پر آیا ویڈیو تو انہوں نے ہٹوا لیا لیکن اس بیچ کئی میڈیا اداروں نے بنا اس معاملے کی پڑتال کیے اس بارے میں خبر چلائی ہے۔

دی  وائر کی طرف  سے گو ایئر کا رخ  جاننے کے لیے ان کے ایچ آر شعبہ کے آصف چودھری سے بات کی گئی، انہوں نے آصف خان کو نوکری سے نکالنے کی بات قبول کی لیکن  کہا کہ اب کمپنی کا جورخ  ہوگا، وہ بتا دیا جائےگا۔کمپنی کے انتظامی عہدیداروں  سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، کئی کالز کیے گئے، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ انہیں ای میل سے کچھ سوال بھیجے گئے ہیں، جن کا اب تک جواب نہیں آیا ہے۔ جواب آنے پر خبرکو اپڈیٹ کیاجائےگا۔