فکر و نظر

رویش کا بلاگ: صرف امید سے صحافت نہیں چلتی …

رپورٹنگ کی روایت  کو اداروں  کے ساتھ سماج نے بھی ختم کیا، وہ اپنی سیاسی  پسندکی وجہ سے میڈیا اور جوکھم لےکر خبریں کرنے والوں کو دشمن کی طرح گننے لگا۔ کوئی بھی رپورٹر ایک آئینی  ماحول میں ہی جوکھم اٹھاتا ہے، جب اسے بھروسہ ہوتا ہے کہ سرکاریں عوام  کے ڈر سے اس پر ہاتھ نہیں ڈالیں گی۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

صرف امید سے صحافت نہیں چلتی ہے۔ صحافت بناکا گیت مالا نہیں ہے۔ فرمائش کی چٹھی لکھ دی اور گیت بج گیا۔ گیت مالا چلانے کے لیے بھی پیسے اور لوگ کی ضرورت تو ہوتی ہوگی۔

میں ہر دن ایسے پیغامات دیکھتا رہتا ہوں کہ آپ سے امید ہے، لیکن صحافت کا سسٹم صرف امید سے نہیں چلتا۔ اس کا سسٹم بنتا ہے پیسے سے اور صحافت کی ترجیح  سے۔ کئی بار جن اداروں  کے پاس پیسے ہوتے ہیں وہاں ترجیحات نہیں ہوتی، لیکن جہاں ترجیحات  ہوتی ہیں وہاں پیسے نہیں ہوتے۔

کو رونا کے بحران میں یہ صورتحا ل اور خطرناک  ہو گئی ہے۔ نیوز کوریج کا بجٹ کم ہو گیا ہے۔ اس میں خبر کرنے والے صحافی بھی شامل ہیں۔ پچھلے دنوں اخبار بند ہوئے۔ بیورو بند ہو گئے۔ بیس بیس سال کے تجربہ  والے صحافی جھٹکے میں نکال دیے گئے۔

خبر تلاش کرنے کا تعلق  بھی بجٹ سے ہوتا ہے۔ گاڑی گھوڑا کر کےجانا پڑتا ہے۔تلاش کرنا پڑتا ہے۔ بے شک دوچار لوگ کر رہے ہیں لیکن اس کا ایکو سسٹم ختم ہو گیا۔ کون خبر لائےگا؟ خبر لانا بھی ایک ہنر ہے۔ جو کئی سال میں نکھرتا ہے۔

تجربہ کارلوگوں کو نکال دینے سے خبروں کا تسلسل  بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ یہی نہیں ضلع میں کام کرنے والے عارضی نامہ نگاروں  کا بجٹ بھی ختم  ہو گیا۔ اسٹرنگر بھی ایک سسٹم کے تحت کام کرتا ہے۔ وہ سسٹم ختم ہو گیا۔

اب کو رونا کے وقت میں جب اشتہار بند ہوئے تو اس کی وجہ سے کئی صحافی  نکال دیےگئے۔ نیوز روم خالی ہو گئے۔ زیادہ ترصحافی بہت کم پیسے میں زندگی  گزار دیتے ہیں۔ کووڈ 19 میں چھنٹنی سے وہ  ذہنی طور پر تباہ ہو گئے ہوں گے۔

ویسے چینلوں میں رپورٹر بننے کی روایت کب کی ختم سی ہو گئی تھی۔ ختم سی اس لیے کہا کہ آثار بچے ہوئے ہیں۔ آپ کو کچھ رپورٹر دکھتے ہیں، لیکن وہی ہر مسئلے کی رپورٹنگ میں دکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جنرل بات کرکے نکل جاتے ہیں۔ ان کا ہر شعبہ میں ذریعہ  نہیں ہوتا ہے نہ ہی وہ  ہر شعبہ کو ٹھیک سے جانتے ہیں۔

جیسے کو روناکے وقت میں ہی دیکھیے ٹی وی پر ہی آپ نے کتنے رپورٹر کو دیکھا جن کی پہچان یا ساکھ ہیلتھ رپورٹر کی ہے؟ تو کام چل رہا ہے۔ بس۔

آپ کسی بھی ویب سائٹ کو دیکھیے۔ وہاں خبریں سکڑ گئی ہیں۔ دو چار خبریں ہی ہیں۔ ان میں سے بھی زیادہ تر تجزیاتی خبریں ہیں۔ بیان اور بیانات  کے ردعمل والی خبریں ہیں۔ یہ پہلے سے بھی ہو رہا تھا۔ لیکن تب تک خبریں بند نہیں ہوئی تھیں۔ اب خبریں بند ہو گئیں اور ڈبیٹ بچ گئے ہیں۔

ڈبیٹ کے تھیم گراؤنڈ رپورٹنگ پر مبنی نہیں ہوتے ہیں۔ جس جگہ پر رپورٹنگ ہونی چاہیے تھی اس جگہ کو مبینہ طور پر اور کئی بار اچھے ماہرین  سے بھرا جاتا ہے۔ آپ جتنا ڈبیٹ دیکھتے ہیں اتنا ہی خبروں کا اسپیس کم کرتے ہیں۔

کئی بار ڈبیٹ ضروری ہو جاتا ہے لیکن ہر بار اور روز روز نہیں۔ اس کے نام پر چینلوں کے اندر رپورٹنگ کا سسٹم ختم کر دیا گیا۔ کو رونا کے بہانے تو اسے مٹا ہی دیا گیا۔ سرکار کے دباؤ میں اور سرکار سے دلالی کھانے کی لالچ میں اور معیشت کے دباؤ میں بھی۔

میڈیا میں سیاسی صحافت پر سب سے زیادہ پیسہ لگایا گیا۔ اس کے لیے باقی موضوعات  کو ختم  کر دیا گیا۔ آج سیاسی صحافت بھی ختم  ہو گئی۔ بڑے بڑے سیاسی مدیر اورصحافی  ٹوئٹر سے کاپی کرکے چینلوں کے نیوز گروپ میں پوسٹ کرتے ہیں۔ یا پھر ٹوئٹر پر کوئی ردعمل  دےکر ڈبیٹ کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ بیچ بیچ میں چڑھاتے بھی رہتے ہیں!

وزیر اعظم  کب بیٹھک کریں گے یہ بتانے کے لیے چینل ابھی بھی سیاسی صحافیوں پر خرچ کر رہے ہیں۔ سال میں دو بار میٹھا میٹھا انٹرویو کرنے کے لیے۔

دوسرا رپورٹنگ کی روایت  کو سماج نے بھی ختم کیا، وہ اپنی سیاسی  پسندکی وجہ سے میڈیا اور جوکھم لےکر خبریں کرنے والوں کو دشمن کی طرح گننے لگا۔ کوئی بھی رپورٹر ایک آئینی  ماحول میں ہی جوکھم اٹھاتا ہے، جب اسے بھروسہ ہوتا ہے کہ سرکاریں جنتا کے ڈر سے اس پر ہاتھ نہیں ڈالیں گی۔

سیاسی وجوہات سے صحافی  اور اینکر نکالے گئے، لوگ چپ رہے۔ یہاں تک تو صحافی جھیل لے گیا۔ لیکن اب مقدمے ہونے لگے ہیں۔ ہر صحافی کیس مقدمہ نہیں جھیل سکتا ہے۔ اس کی لاگت ہوتی ہے۔ کورٹ سے آنے والی خبریں آپ نوٹ تو کر ہی رہے ہوں گے۔

اس لیے جب آپ کہتے ہیں کہ یہ خبر کر دیجیے، وہ دکھا دیجیے، اچھی بات ہے۔ لیکن تب آپ چوکس نہیں ہوتے جب صحافت کے سسٹم کو سیاسی اور معاشی وجہوں سے کچل دیا گیا۔ بے شک اداروں  کا بھی اس میں رول  رہا لیکن آپ خود سے پوچھیں کہ دن بھر میں چھوٹی موٹی سائٹ پر لکھ کر گزارا کرنے والے کتنے صحافیوں  کی خبروں کوشیئر کرتے ہیں؟

آپ کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ کیوں دہلی کی ہی خبریں ہیں کیونکہ گجرات میں بیورو نہیں ہے، نامہ نگار نہیں ہے۔ ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، چھتیس گڑھ، کیرل یا بنگال اور آسام میں نہیں ہے۔ جہاں ہے، وہاں اکیلا بندا یا بندی ہے۔ بیورو کے صحافی بنا چھٹی کے سال بھر کام کرتے ہیں۔ ان کا بجٹ بہت کم ہے۔

دوسرا، اب ریاستی حکومتیں کیس مقدمہ کرنے لگی ہیں۔ تیسرا، لوگ آئی ٹی سیل بن کر حوصلہ رکھنے والے صحافیوں کو گالی دینے لگے ہیں۔ اور اب مدیر یاادارہ دونوں ایسی خبروں کی تہہ میں جانا ہی نہیں چاہتے۔ بیچ بیچ میں ایک آدھ ایسی خبریں آ جاتی ہیں اور چینل یا اخبار صحافت کا ڈھنڈورا پیٹ کر سو جاتے ہیں۔ پھر سب ڈھرے پر چلتا رہتا ہے۔

اس پروسس کو سمجھیے۔ پانچ سال سے تو میں ہی اپنے شو میں کہتا رہا ہوں، لکھتا بولتا رہا ہوں کہ میں اکیلا ساری خبریں نہیں کر سکتا اور نہ ہی وسائل ہیں ۔آپ دہلی کے ہی چینلوں میں پتہ کر لیں، فسادات  کی ایف آئی آر پڑھنے والے کتنے رپورٹر ہیں، جنہیں چینل نے کہا ہو کہ چار دن لگاکر پڑھیں اور پیش کریں۔

میں دیکھ رہا تھا کہ یہ ہو رہا ہے اس لیے بول رہا تھا۔ لوگوں کو لگا کہ میں مایوس ہو رہا ہوں، امید چھوڑ رہا ہوں۔ جبکہ ایسا نہیں تھا۔ اب آپ کسی پر امید کا نفسیاتی  دباؤ ڈال کر فارغ نہیں ہو سکتے۔ صحافت صرف ایک فرد سے کی گئی امید سے نہیں چلتی ہے۔ سسٹم اوروسائل سے چلتی ہے۔ دونوں ختم ہو چکے ہیں۔

سرکاری اشتہارات پر منحصر میڈیا سے اگر آپ امید کرتے ہیں تو آپ بےحد چالاک ہیں۔سست ہیں۔ مشکل سوال کو چھوڑ کر پہلے آسان سوال ڈھونڈنے والے طلبا کو پتہ ہے کہ یہی کرتے کرتے گھنٹی بج جاتی ہے اور امتحان ختم ہو جاتا ہے۔

(یہ مضمون  رویش کمار کے فیس بک پیج پرشائع ہوا ہے۔)