خبریں

جھارکھنڈ: مزدوروں نے کہا-لاک ڈاؤن نے روزگار چھین لیا، اب کھانے پینے کی بھی دقت ہے

جھارکھنڈ جن ادھیکار مہاسبھا کے زیر اہتمام منعقد ایک ویب نار میں ریاست کے مختلف  مزدوروں نے لاک ڈاؤن کے دوران پیش آئی پریشانیوں کے تجربات بیان  کیے۔ مزدوروں  کی مانگ ہے کہ سرکار ان کے لیے راشن اور پیسے کا انتظام کرے۔

(علامتی  تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی  تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: جھارکھنڈ کے دھنباد کی رہنے والی بدھنی دیوی 10 سال کی عمر سے ہی لوگوں کے گھروں میں صاف صفائی کا کام کر رہی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے پہلے تک وہ مہینے میں تقریباً تین ہزار روپے کما لیتی تھیں۔ لیکن اب پوری طرح سے بےروزگار ہیں اور کہیں کوئی کام نہیں مل رہا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘اس وقت کوئی اپنے گھر میں گھسنے بھی نہیں دیتا ہے۔ کالونی کے گارڈ باہر سے ہی بھگا دیتے ہیں۔’ دیوی کے گھر میں چار لوگ ہیں۔شوہر پرائیویٹ جاب کرتے تھے، لیکن وہ بھی بےروزگار ہو گئے ہیں۔بدھنی دیوی ناراض ہیں کہ سرکار ان کے جیسے لوگوں کو امداد نہیں دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘سرکار نے کھاتے میں 500 روپے بھیجے ہیں۔ اتنے میں ہم کتنے دن کھائیں گے۔ راشن میں صرف چاول مل رہا ہے۔ نہ تو دال ملتی ہے، نہ نمک اور نہ ہی مصالحہ۔ کیا ہم سوکھا چاول چبائیں۔ ایسے رہا تو بھوکے مر جا ئیں گے ہم سب۔’

یہ صرف کسی ایک فرد کی کہانی نہیں ہے۔ جھارکھنڈ جن ادھیکار مہاسبھا کے زیر اہتمام سوموار کو منعقد ایک ویب نار میں مختلف مزدوروں نے اپنی بات رکھی اور لاک ڈاؤن کے دوران پریشانیوں کی ایسی کئی  کہانیاں بیان کیں۔جھارکھنڈ کے سرائےکیلا کھرساواں کے رہنے والے انیرودھ پردھان تقریباً نو مہینے سے آندھر پردیش میں کام کر رہے تھے۔ اس بیچ ملک گیر لاک ڈاؤن لگا دیا گیا، جس کے بعد کانٹریکٹر نے کہا کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہے اور اب وہ انہیں سیلری نہیں دے پائےگا۔

اس کے بعد پردھان نے جھارکھنڈ کنٹرول روم میں کال کیا اور کسی طرح ان کے لیے راشن اور کیش کا انتظام  ہو پایا۔ حالانکہ اپنی ریاست واپس لوٹنے پر کورنٹائن سینٹر میں ان کا تجربہ  اچھا نہیں رہا۔انہوں نے کہا، ‘ہم نے مکھیا سے کھانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اپنے گھر سے کھانے کا انتظام کراؤ۔ میرا گھر تقریباً 20 کیلومیٹر دور ہے، میں کیسے روز کھانا منگوا سکتا تھا۔ 14 دن تک کھانے کی بہت مشکل ہوئی۔’

انیرودھ پردھان نے بتایا کہ جس کمپنی میں وہ کام کر رہے تھے اس نے انہیں دو مہینے کی تنخواہ  نہیں دی ہے اور انہیں گاؤں میں کوئی قرض بھی نہیں دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘سرکار کی طرف سے اگر کچھ پیسہ اور روزگار ملتا ہے تو بہت راحت ملتی۔’اسی طرح پچھلے 12 سالوں سے مہاجر مزدور کے طور پر کام کر رہے راجو لوہار حال ہی میں گووا سے واپس آئے ہیں اور کورنٹائن میں ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘یہاں کوئی ہیلتھ چیک اپ نہیں ہو رہا ہے۔ اسے لےکر میں بہت فکرمند ہوں۔’

چائی باسا کی رہنے والی 19 سالہ سپنا 12ویں کا اگزام پاس کر کےاپریل، 2019 میں ممبئی گئی تھی۔ انہیں امید تھی کہ وہاں  اچھا کام مل جائےگا جس سے وہ اپنے گھروالوں کی مدد کر پائےگی، لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہیں جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے بعد وہ کبھی بھی شہر واپس نہیں لوٹنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘مجھے مئی میں اپنے گھر واپس آنا تھا لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹکٹ کینسل ہو گئے۔ میں ڈر رہی تھی کہ گھر جا پاؤں گی یا نہیں۔ میں نے ہیلپ لائن نمبر پررابطہ کیا، جس کے بعد مجھے فلائٹ سے یہاں رانچی لایا گیا۔’سپنا ممبئی میں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جہاں پر انہیں کورنٹائن کیا گیا ہے، اس کا انتظام اچھا نہیں ہے۔انتظامیہ کی طرف سے بیڈ وغیرہ نہیں دیا گیا ہے۔ لوگ اپنی  ہی چٹائی بچھا کر سو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘کھانے میں صرف چاول دال ملتا ہے۔ آلو،، دال، سویابین ایک ہی میں ملاکر دیتے ہیں۔ اب کیا ہی بولیں انہیں۔ چپ چاپ کھا رہے ہیں جو مل رہا ہے۔’سپنا چاہتی ہے کہ ریاست میں ہی سرکار روزگار کا انتظام کرے تاکہ لوگوں کو دردر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑے۔

کیرل کے شاپنگ مال میں کام کر چکے ایترام ٹڈو نے بتایا کہ وہ 15 اکتوبر 2019 کو وہاں گئے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘میں 2013 سے ہی ایک کانٹریکٹر کے ساتھ کام کر رہا ہوں، وہی مجھے کیرل لے گئے تھے۔ تقریباً سات مہینے کام کیا تھا کہ وائرس پھیلنے لگا۔ اس کی وجہ سےہمیں گھر بیٹھنا پڑا۔’

بعد میں ٹڈو کو پتہ چلا کہ حیدرآباد سے ٹرین جا رہی ہے تو انہوں نے انتظامیہ سے رابطہ کیا اور گھر جانے کے لیے اپنا رجسٹریشن کروایا۔انہوں نے کہا، ‘ہم سے 870 روپے کرایہ لیا گیا۔ کھانے میں بریڈ اور کیلا دیا گیا تھا۔ ٹرین میں کافی تکلیف ہوئی۔ پھر بوکارو آ گئے اور ہمیں گھر میں ہی کورنٹائن کیا گیا ہے۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘ہم لوگ روز کام کرتے ہیں تو گھر چلتا ہے۔ وہاں مہینے کا 16000 ملتا تھا، اب لاک ڈاؤن میں بس بیٹھے ہیں۔ تھوڑا بہت راشن ہے لیکن اس سے گزارا ہو پانا بہت مشکل ہے۔ منریگا کا بھی کام چالو نہیں ہے۔ سرکار جلد سے جلد لوگوں کو کام دے۔ اب کوئی باہر نہیں جانا چاہتا ہے۔ میرے پاس کھیتی بھی نہیں ہے۔’

اسی طرح 21 سالہ گڈو کمار نے بتایا کہ 10ویں پاس کرنے بعد وہ سال 2017 سے ہی کام کر رہے ہیں۔ شروعات میں چار مہینے کے لیے انہوں نے این ٹی پی سی میں کام کیا تھا، جہاں انہیں 20-22 ہزار روپے ملتے تھے۔ بعد میں ان کی شادی ہو گئی تو کچھ دنوں تک وہ گھر پر ہی رہے۔

انہوں نے کہا، ‘اس کے بعد میں تمل ناڈو چلا گیا۔ ایک مہینے بھی میں نے کام نہیں کیا تھا کہ لاک ڈاؤن لگا دیا گیا۔ اس بیچ میں بیمار بھی ہو گیا، جس میں 5-6 ہزار روپے خرچ کرنے پڑے۔ میرے پاس تقریباً 10000 روپے تھے جو کہ پورا لاک ڈاؤن میں ہی خرچ ہو گیا۔’

کچھ دن بعد گڈو ٹرین سے اپنے گھر آئے اور اس وقت ہوم کورنٹائن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں کسی بھی طرح کی سرکاری مدد نہیں مل رہی ہے۔