خبریں

کورونا وائرس کے بڑھتے معاملوں کے بیچ سرکاروں کا زور ٹیسٹ کم کر نے پر کیوں ہے؟

گزشتہ  مارچ مہینے میں ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹرجنرل نے کہا تھا کہ اگر ہمیں پتہ ہی نہیں ہوگا کہ کون متاثر ہے تو ہم اس وبا کو نہیں روک سکتے۔ انہوں نے کورونا وائرس سے بچنے کے لیے زیادہ  سے زیادہ  ٹیسٹ کرنے کی ضرورت پرزوردیا تھا، لیکن اس وقت ہندوستان  میں ڈبلیو ایچ او کی اس صلاح کے برعکس  ہوتا دکھ رہا ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کووڈ 19 وائرس کے انفیکشن کو عالمی وبا قراردیے جانے کے بعد ڈبلیو ایچ اونے کہا تھا کہ اس بیماری سے لڑنے کا فی الحال ایک ہی طریقہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کا ٹیسٹ کیا جائے۔گزشتہ 16 مارچ 2020 کو ایک پریس کانفرنس کے دوران ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا تھا کہ ہم آنکھ بند کرکے کر اس وائرس سے نہیں لڑ سکتے ہیں۔اگر ہمیں پتہ ہی نہیں ہوگا کہ کون متاثر ہے تو ہم اس وبا کو نہیں روک سکتے۔

انہوں نے کہا، ‘پوری دنیا کو ہمارا ایک ہی پیغام  ہے: ٹیسٹ… ٹیسٹ… ٹیسٹ…’اب ملک کی راجدھانی دہلی کی بات کریں تو یہاں کورونا وائرس انفیکشن کے معاملے ہر دن بڑھ رہے ہیں اور یہ ملک کے چار سب سے زیادہ متاثرہ ریاستوں (مہاراشٹر، گجرات اور تمل ناڈو)میں سے ایک ہے۔

حالانکہ دہلی میں تیزی سے بڑھتے کورونا انفیکشن معاملوں کے باوجود گزشتہ دنوں ریاستی  سرکار نے کچھ ایسے فیصلے لیے ہیں جس کی وجہ سے  ایک بڑی آبادی کووڈ 19 جانچ کے دائرےسے باہر ہو گئی ہے۔ریاست کے کئی سارے لوگ ٹیسٹ کرانے کے لیے اسپتالوں، لیبس اور ہیلتھ سینٹروں  کے چکر کاٹ رہے ہیں، لیکن ان کا ٹیسٹ کرنے سے منع کر دیا جا رہا ہے۔ عالم یہ ہے کہ کورونامتاثرہ شخص کے اہل خانہ  اوررابطہ  میں آئے باقی لوگوں کی بھی جانچ نہیں ہو پا رہی ہے۔

دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال خود اس کی وکالت کر رہے ہیں کہ جن لوگوں میں کورونا کے کوئی آثار نہیں ہیں، وہ جانچ نہ کرائیں۔پچھلے ہفتے چھ جون کو ایک ٹوئٹ کر کےانہوں نے کہا، ‘ہم چاہے جتنی ٹیسٹنگ بڑھا دیں، اگر بناآثار کے مریض ٹیسٹ کروانے پہنچ جا ئیں گے تو کسی نہ کسی شدید آثاروالے مریض کا ٹیسٹ اس دن رک جائےگا۔ اس بات کو سبھی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ صرف آثار والے مریضوں کو ہی ٹیسٹ کروانا چاہیے۔’

دہلی میں کچھ لوگ افواہ پھیلا رہے ہیں کہ ٹیسٹنگ کو روک دیا گیا ہے، یہ غلط ہے۔ 42 میں سے صرف 6 لیبس کے خلاف کارروائی ہوئی ہے کیونکہ وہ لیبس آئی سی ایم آر گائیڈلائنس کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ دہلی ملک  میں سب سے زیادہ ٹیسٹنگ کر رہا ہے۔

اسی بات کو عمل میں لانے کے لیے ریاستی سرکار نےآئی سی ایم آر کے ذریعےکووڈ 19 ٹیسٹنگ کے بارے میں جاری کئے گئے احکامات کو بدل دیا اور گزشتہ دو جون کو ایک آرڈر جاری کر کےکہا کہ متاثرین  کے رابطہ میں آئے صرف آثاریا ہائپرٹینشن، کینسر جیسی بیماری سے متاثر ہائی رسک والے لوگوں کی ہی جانچ ہوگی۔

حالانکہ دہلی ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی(ڈی ڈی ایم اے)کے چیئرمین کی حیثیت سے ایل جی  انل بیجل نے معاملے میں دخل اندازی  کی اور کہا کہ آئی سی ایم آر کے احکامات پرسختی سے عمل کیا جائے، جس میں کہا گیا ہے کہ کورونامتاثرہ فرد کے سیدھے رابطہ (ایک ہی گھر میں رہ رہے لوگوں)میں آئے اور زیادہ رسک والے (ڈایبٹک، ہائپرٹینشن، کینسر مریض اوربزرگ)سبھی لوگوں کی جانچ کی جانی چاہیے۔

اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا بناعلامت والے لوگوں کا ٹیسٹ کرانا ضروری نہیں ہے؟ کیا بناعلامت والے لوگ کورونا نہیں پھیلاتے ہیں؟ کورونا متاثرین  میں ایسے کتنے لوگ ہیں جن میں کوئی علامت نہیں ہے؟ دہلی کے علاوہ دوسری  ریاستوں کی کورونا جانچ پالیسی کیا ہے اورسائنسی اسٹینڈرڈ یا ریسرچ کیا کہتے ہیں؟

عالمی سطح پرکورونا وائرس کے بارےمیں صلاح دے رہے ڈبلیو ایچ او کا ماننا ہے کہ بناعلامت والے لوگوں سے بھی وائرس پھیل رہا ہے۔ حالانکہ تنظیم نے اب تک کوئی صاف اعدادوشمار نہیں دیا ہے کہ بناعلامت والوں سے کتنا فیصدی انفیکشن ہو رہا ہے اور کتنے ایسے متاثرہ  لوگ ہیں جن میں کوئی علامت نہیں۔

وہیں امریکہ کے معتبر ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی)کا کہنا ہے کہ قریب 35 فیصدی ایسے کورونا مریض ہیں، جن میں کوئی علامت نظرنہیں آتے ہیں۔ سی ڈی سی نے یہ بھی کہا ہے کہ قریب 40 فیصدی ایسے لوگ ہیں جن میں انفیکشن پھیلنے کے کچھ دن بعد علامت   دکھتی ہے۔مختلف اندازےدکھاتے ہیں کہ چھ فیصدی سے 40 فیصدی تک مریض بنا علامت کے کوروناسے متاثر ہو سکتے ہیں اور قریب 40 فیصدی تک انفیکشن بناعلامت  والے کورونا مریضوں کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔

اس بارےمیں حال ہی میں ڈبلیو ایچ او کے ایک بیان کو لےکر عالمی سطح پر تنازعہ کھڑا ہو گیا، جس میں ایک افسرنے کہا تھا کہ بناعلامت  والے کورونا مریضوں سے انفیکشن پھیلنے کا امکان ‘بہت کم’ ہے۔ڈبلیو ایچ او کی کورونا وائرس یونٹ کی تکنیکی ہیڈ ماریا وین کیرکھوو نے سوموار کو جینوا میں کہا، ‘اب تک ایسا معلوم  ہوتا ہے کہ بنا علامت  والے مریض  سے کسی دوسرے کے متاثر ہونے کا امکان  بہت کم ہے۔’

حالانکہ کیرکھوو کے اس بیان کوعالمی  سطح پرماہرین نے چیلنج دیا، جس کے بعد ڈبلیو ایچ او کو اس پر وضاحت جاری کرنا پڑا۔منگل کو کیرکھوو نے کہا، ‘بناعلامت والوں میں سے کتنے لوگ انفیکشن پھیلا رہے ہیں، اب تک اس بارے میں زیادہ کچھ پتہ نہیں ہے۔’انہوں نے کہا، ‘اب تک ہمیں علامت والے مریضوں  کے ذریعے انفیکشن پھیلنے کے بارے میں پتہ تھا، جو کہ ایک سے دوسرے تک متاثرہ بوند سے پھیلتا ہے، لیکن ایسے بھی لوگ ہیں جن میں کوئی علامت نہیں ہے اور کل کتنے ایسے لوگ ہیں جن کو علامت نہیں ہے، اب تک ہم نے اس کا جواب نہیں دیا ہے۔’

حالانکہ ڈبلیو ایچ او افسرنے آگے یہ قبول کیا کہ بناعلامت والے لوگوں سے بھی کورونا پھیل رہا ہے۔انہوں نے کہا، ‘ہمیں یہ پتہ ہے کہ جن کو علامت نہیں ہے، وہ بھی وائرس پھیلا رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں یہ پتہ لگانے کی ضرورت ہے کہ کتنے ایسے لوگ ہیں جن میں علامت نہیں ہے اور ان میں سے کتنے لوگوں نے کووڈ 19 وائرس پھیلایا ہے۔’

دنیا کے اکثرممالک میں جیسے ہی کوئی کورونا پازیٹو پایا جاتا ہے، اس کوفوراً کورنٹائن کر دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کے اہل خانہ  کو بھی ہوم کورنٹائن کیا جاتا ہے۔ اب یہاں پر سوال یہ ہے کہ اگرمتاثرہ شخص آئسولیشن میں ہے تو انفیکشن کیسے پھیل رہا ہے۔یہاں پر ماہرین  کہتے ہیں کہ ایسے میں انفیکشن بناعلامت  والوں یا پھرتاخیر سےعلامت دکھنے والوں سے پھیل رہا ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق سنگاپور میں 48 فیصدی اور چین کے تیان جن میں 62 فیصدی انفیکشن ایسے لوگوں سے پھیلا جنہیں کچھ دنوں بعدعلامت دکھے تھے۔

ایک دوسرےمطالعہ کے مطابق چین کے شین جین میں 23 فیصدی انفیکشن بنا علامت والے لوگوں سے پھیلا تھا۔ وہیں نیچرمیگزین میں شائع ایک دوسرےمطالعہ کے مطابق 44 فیصدی لوگوں کو تب انفیکشن ہوا جب کورونا پازیٹو آئے شخص میں علامت سامنے نہیں آئے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ ابھی اس وائرس کے بارے میں جانتے ہوئے ہمیں چھ مہینے ہی ہوئے ہیں اور ہم اس کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں، اس لیے کچھ بھی ایک دم یقینی طور پرکہنا سہی نہیں ہوگا۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنا علامت والے لوگوں کی وجہ سے یہ وبا پھیل رہی ہے۔

ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ڈاکٹر جیریمی فوسٹ نے کہا، ‘میری رائے میں اس وائرس میں بنا علامت والے لوگوں کے ذریعے پھیلنے کی صلاحیت کی وجہ سےہم یہ وبا جھیل رہے ہیں۔ اب تک ہم نے زیادہ تر ایسی بیماری سے ہی سامنا کیا تھا جس میں علامت دکھتے ہیں لیکن اس وائرس نے پرانا سب کچھ بدل دیا ہے۔’

فوسٹ کہتے ہیں کہ بنا علامت والوں سے انفیکشن پھیلنے کا پتہ لگانے کے لیے اپنائی جا رہی کانٹریکٹ ٹریسنگ کی تکنیک کافی نہیں ہے۔گزشتہ تین جون کو اینلس آف انٹرنل میڈیسن میں شائع ایک اسٹڈی میں بتایا گیا ہے کہ 40 سے 45 فیصدی بنا علامت والے  کورونا انفیکشن  ہیں اور ایسے لوگ  14 سے بھی زیادہ دنوں تک انفیکشن پھیلا سکتے ہیں۔

ہارورڈ گلوبل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر آشیش جھا کہتے ہیں کہ یہ بالکل صاف ہے کہ بنا علامت والے کورونا مریض انفیکشن پھیلا رہے ہیں۔انہوں نے کہا، ‘سبھی متاثرین میں سے تقریباً 20 فیصدی ایسے لوگ ہیں جن میں کبھی بھی علامت نہیں آئےگی۔ یہ پوری طرح سے بنا علامت والے مریض ہیں۔ اس میں سے باقی ایسے لوگ ہیں جو کہ کچھ وقت تک بنا علامت کے ہوتے ہیں اور تب تک ان میں وائرس پھیل جاتا ہے اور بعد میں ان میں علامت دکھنے لگتے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘کچھ ایسے ماڈلس ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ 40-60 فیصدی انفیکشن ایسے لوگوں سے پھیل رہا ہے جن میں علامت نہیں دکھ رہے ہوتے ہیں۔ تھوڑے وقت بعد کورونا کا علامت دکھنے والے لوگوں کے کانٹیکٹ ٹریسنگ کے ذریعے پتہ کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بنا علامت والے لوگوں سے انفیکشن کے پھیلنے کو نہیں روک سکےگا۔’

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ بنا علامت والوں سے انفیکشن پھیل تو رہا ہے لیکن اب تک یہ نہیں پتہ چل پایا ہے کہ آخر یہ کیسے ہو رہا ہے۔اس طرح یہ مطالعے اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بنا علامت والے مریض یا تاخیر سے علامت دکھانے والے لوگوں سے کورونا پھیلنے کا خطرہ  بنا ہوا ہے اور شاید اس کی وجہ سے وبا بھی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں دہلی کی کیجریوال سرکارکے ذریعے بنا علامت والے لوگوں  کی جانچ کرنے سے منع کرنے کو کہنا بڑے  سوال کھڑے کرتا ہے۔

ہندوستان کے جانےمانے کارڈیولاجسٹ اور پدم شری اپیندر کول کہتے ہیں کہ دہلی میں کورونا ٹیسٹ کرنے کی تعریف کو محدود کرنا بے حد تشویش ناک ہے اور راجدھانی میں کمیونٹی انفیکشن ہو رہا ہے لیکن کوئی بھی اسے قبول نہیں کرنا چاہتا ہے۔ کول خود بھی کورونا انفیکشن سےمتاثر تھے۔

انہوں نے دی  وائر سے بات چیت میں کہا، ‘ایسا کہنا کہ بنا علامت والے جانچ نہ کرائیں، یہ بات سائنسی طور پر قبول نہیں کی جا سکتی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پوری دہلی ٹیسٹ کرائے۔ لیکن جو ہائی رسک والے لوگ ہیں، جو ہیلتھ کیئرس ورکرس اور ان کے گھر والے ہیں، ان سبھی کا ٹیسٹ تو ہونا ہی چاہیے۔ دنیا کہہ رہی ہے ٹیسٹ، ٹیسٹ، ٹیسٹ اور آپ یہاں ٹیسٹ ہی نہیں کرنا چاہ رہے۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘سرکار کورونا انفیکشن کے معاملے کم کرنا چاہتی ہے، لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اس سے انفیکشن کم نہیں ہوگا۔ انفیکشن کم کرنے کے لیے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت بڑھائی جائے اور مناسب طبی سہولیات دی جائے۔ اس پوری کارروائی  کو آسان کیا جائے۔’

کول یہ بھی کہتے ہیں کہ دہلی میں وائرس کا کمیونٹی انفیکشن ہو رہا، لیکن نہ تومرکز اور نہ ہی ریاستی حکومت اسے قبول کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا، ‘سرکار خود کہہ رہی ہے کہ کئی سارے کورونا مریضوں کے بارے میں نہیں پتہ کہ انہیں کہاں سے انفیکشن ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ دہلی میں کمیونٹی انفیکشن ہو رہا ہے۔’

معلوم ہو کہ گزشتہ  منگل کو دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین نے کہا تھا کہ 50 فیصدی مریضوں کو کورونا انفیکشن کہاں سے ہوا، اس کے بارے میں جانکاری نہیں ہے۔اپیندرکول نے حال ہی میں انڈین ایکسپریس میں لکھے ایک مضمون میں بتایا تھا کہ ریاستی  سرکار کورونا سے لڑنے کو لےکر کافی پرانے گائیڈ لائنز کا استعمال کر رہی ہے اور اسے اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سےوسائل  کا بے جا استعمال ہو رہا ہے۔

وہیں آل انڈیا ڈرگ ایکشن نیٹ ورک کی مالنی آئسولا کا کہنا ہے کہ ویسے تو سبھی بنا علامت والے لوگوں کا ٹیسٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ہندوستان  کے پاس اتنے وسائل  ہیں کہ وہ سب کا ٹیسٹ کر پائے، لیکن اب تک یہ قبول کیا گیا ہے کہ کم سے کم متاثرین کے رابطہ  میں آئے لوگوں اور میڈیکل پیشہ وروں کی ٹیسٹنگ کی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا، ‘لیکن میڈیکل پیشہ وروں کی ٹیسٹنگ کو لےکر آئی سی ایم آر کی تعریف کافی محدود ہے۔ اس میں صرف علامت والے میڈیکل پیشہ وروں کی ٹیسٹنگ کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ویسے ریاست اپنے حساب سے اس میں تبدیلی  لا سکتے ہیں۔ کرناٹک اور ممبئی نے جانچ کا دائرہ بڑھایا ہے، لیکن دہلی نے اب تک ایسا نہیں کیا۔’

کرناٹک سرکار نے حال ہی میں اپنی کورونا ٹیسٹنگ پالیسی میں تبدیلی کیا ہے۔ ریاستی  محکمہ صحت نے کہا کہ انفلوئنزا جیسی بیماری اور سانس سے متعلق انفیکشن (ایس اےآرآئی) جیسی علامتوں کی وجہ سے ہوئی موتوں کی کووڈ 19 جانچ کی جائےگی۔محکمہ نے کہا کہ اگر ٹیسٹ رپورٹ پازیٹو آتی ہے تو اس کے رابطہ میں آئے لوگوں کی کورونا جانچ کی جائےگی، جبکہ دہلی سرکار نے علامت والے مریضوں کے کورونا جانچ پر بھی روک لگا رکھا ہے۔

کووڈ 19سے مرنے والوں کے مینجمنٹ کے لیے جاری کی گئی اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیزر میں کہا گیا ہے کہ کورونا جانچ کے لیے مرنے والے کے جسم سے سیمپل نہیں لیا جائےگا۔وہیں ممبئی نے نئی گائیڈ لائن جاری کرکے کہا ہے کہ کورونا مریض کو علامت دکھنے سے دو دن پہلے تک رابطہ میں آئے لوگوں کی جانچ کی جائےگی۔ اس کے علاوہ کورونا پازیٹو آنے کے بعد مریض کے رابطہ میں آئے لوگوں  کی بھی جانچ کی جائےگی۔

دہلی سرکار کی حالیہ ہیلتھ بلیٹن کے مطابق ریاست میں بدھ تک کل 31309 کورونا انفیکشن کے معاملے آئے ہیں، جس میں سے 905 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔کل 11861 کورونا مریض ٹھیک ہو چکے ہیں۔