فکر و نظر

آخر شجاعت بخاری کی موت سے کس کو فائدہ پہنچا؟

شجاعت کا قتل نہ صرف امن مساعی بلکہ کشمیر میں صحافت کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا تھا، جس سے کشمیری صحافت ابھی بھی ابھر نہیں پا رہی ہے۔

شجاعت بخاری، فوٹو بہ شکریہ، فیس بک

شجاعت بخاری، فوٹو بہ شکریہ، فیس بک

کشمیری صحافت کے درخشاں ستارہ شجاعت بخاری کو مرحوم لکھتے ہوئے ابھی بھی قلم لرزتا ہے۔ دو سال قبل 14جون یعنی 29رمضان المبارک کی شام کشمیری صحافت کے اس آفتاب کو ہلال عید کے طلوع ہونے سے پہلے ہی غروب کرادیا گیا۔ کسی کشمیر ی صحافی کو خاموش کرانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی کئی صحافیوں کو سرینگر میں موت کے گھاٹ اتا را گیااور ان کے کیس داخل دفتر کیے گئے۔

مگر اس بار امید تھی کہ حکومت اس قتل کی باضابطہ تفتیش کرکے سازش کرنے والے اور گولیاں برسانے والے افراد کو بے نقاب کرکے ان کو ان کے انجام تک پہنچائے گی۔ کیونکہ پانچ دن بعد ہی ہندوستان  کی حکمراں  بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)نے اس قتل کو بہانہ بناکر سرینگر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی)کی محبوبہ مفتی حکومت سے حمایت واپس لےکر گورنر رول نافذ کروایا۔

مجھے یاد ہے کہ دی وائر کے ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن کے ہمراہ جب میں شجاعت کے جنازہ میں شرکت کے لیے شمالی کشمیر میں اس کے آبائی گاوٰں کریری پہنچا، تو اس کے خاندان کے کسی بھی فرد کو بھروسہ نہیں تھا کہ اس قتل کی تفتیش منطقی انجام تک پہنچ پائے گی، گوکہ ان کے خاندان کے کئی افراد خاصے باوسیلہ ہیں۔ ایک میکانیکل انداز میں پولیس نے ایک اسپیشل انوسٹگیشن ٹیم تشکیل دی، جس نے فوراً ہی لشکرطیبہ کوذمہ دار ٹھہرایا۔ لشکر نے سختی کے ساتھ اس کی تردید کی۔

نومبر 2018کو پولیس اور فوج نے بتایا کہ انہوں نے کلیدی مشتبہ ملزم نوید جٹ کو مقابلے میں ہلاک کیا  اور اسی کے ساتھ ہی کیس کو بھی داخل دفتر کردیا۔ قانون کا ایک ابتدائی طالب علم بھی جانتا ہے کہ جرم کا تعین کورٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ گرچہ ملزم کو موت بھی ہوجائے پھر بھی پولیس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کیس کا چارج شیٹ کورٹ میں پیش کرے اور قتل کی سازش کرنے والوں کے خلاف فرد جرم دائر کرے۔جن افراد نے ان کے قتل کا ماحول بنایا تھا، جعلی اکاونٹس سے ان کے خلاف مہم چلائی۔ ان کے خلاف بھر پور تحقیق ہو تی  ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عمل شروع کیا جاتا۔

آنجہانی راجیو گاندھی کو قتل کرنے والی تامل ٹائیگرز کی نلنی تو موقع پر ہی ہلاک ہوگئی تھی۔ پھر اس کیس میں بھی کسی تفتیش کی ضرورت نہیں تھی۔ 29شعبان کی شام جب عید کی تیاریوں کی وجہ سے سرینگر کے مرکز لال چوک میں سرگرمیاں عروج پر تھیں، تو  تین مسلح افراد کس طرح دندناتے ہوئے پریس انکلیو میں وارد ہوگئے؟  موٹر سائیکل جس پر و ہ سوار ہوکر آئے تھے کا مالک کون تھا؟ پولیس خود جائے واردات پر 20منٹ کے بعد کیوں پہنچی؟ پاس کے سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے بینکر سے کیوں کوئی کاروائی نہیں ہوئی؟ اس مرکزی علاقے کے سی سی ٹی وی کیمرہ کا م کیوں نہیں کر رہے تھے؟

اس سانحہ کے بعد ٹی وی چینلوں پر ایک آدمی دکھایا گیا، جو شجاعت کے ہلاک شدہ باڈی گارڈ کے جیب سے پستول نکال کر فرار ہو گیا تھا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اس شخص کو گرفتار کیا گیا۔ بعد میں اس شخص کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ ٹی و ی چینلوں پر اس وقت اس شخص کو مبینہ ملزم بتایا گیا تھا۔  افسوس ہے کہ شجاعت کا کیس بھی ایسے ہی کیسوں میں اب شامل ہوگیا ہے، جس کے ملزمین اب ہمیشہ کے لیے پردہ میں رہیں گے۔پولیس نے سازش کو بے نقاب کرنے اور کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ 1990میں سرینگر کے اس وقت کے کثیر الاشاعت روزنامہ الصفاء کے ایڈیٹرمحمد شعبان وکیل کو ان کے دفتر میں گولی مار کر ہلاک  کردیا گیا۔

ان کا قتل بھی ابھی تک معمہ ہے۔ 2002میں ایک مقامی نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر محمد سلطان پرواز کو قتل کیا گیا۔ معروف صحافی ظفر معراج اور این ڈی ٹی وی سے وابستہ ظفر اقبال تو موت کے منہ سے واپس آچکے ہیں۔ دونوں پر شدید نوعیت کے قاتلانہ حملے ہوئے ہیں۔ کشمیر اور بین الاقوامی صحافت کی ایک معتبر شخصیت یوسف جمیل پر سات بار قاتلانہ حملے ہوئے ہیں۔ ان کے دفتر میں ایک پارسل بم ارسال کیا گیا، جس سے ان کے فوٹو گرافر مشتاق علی ہلاک ہوگئے اور وہ خود شدید زخمی ہوگئے۔ اس کیس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ملوث ملزم کی شناخت کی گئی تھی۔ مگر اس کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے قانون ساز کونسل کا ممبر بنایا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں و ہ خود ہی مکافات عمل کا شکار ہوگیا۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

آخر شجاعت بخاری کی موت سے کس کو فائدہ پہنچا؟ یہ سوال ہنوز جواب کا طلب گار ہے۔ مگر حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس کی موت کشمیر میں اٹھائے گئے ان لامتناہی اقدامات کا ہی حصہ معلوم ہوتی ہے، جو 5اگست کو ریاست کو تحلیل کرنے پر منتج ہوئے۔ دہلی، سرینگر اور اسلام آباد کے درمیان بات چیت کے دروازے، جو شجاعت اپنی زندگی میں کھول کر رکھنا چاہتے تھے، بند کر دیے گئے۔ کشمیر میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا، جہاں ان کی شناخت، ادب، تہذیب، ثقافت و انفرادیت ہی اب داؤ پر لگی ہوئی ہے۔لائن آف کنٹرول کے اطراف کشمیریوں کو راہداری کی سہولیت، اورروابط استوار کرنے کے لیے شجاعت نے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔


یہ بھی پڑھیں:ہم نے کئی بار ساتھ میں موت کو دھوکہ دیا ، مگر آخر میں وہ اکیلا چلا گیا


ٹریک ٹو اور دیگر کانفرنسوں میں تنازعہ کشمیر میں کشمیری عوام کو مرکزیت دینے کے حوالے سے وہ دہلی میں اکثر ہدف تنقید بنتے تھے۔ اپریل 2005کو جب سرینگر میں جب لائن آف کنٹرول کے آر پار بس سروس کا آغاز ہو رہا تھا، تو دنیا بھر کی تھنک ٹینک، ٹریک ٹو سے وابستہ افراد اس کا کریڈیٹ لے رہے تھے۔اس رات شجاعت نے فون کرکے مجھے یاد دلایا کہ کس طرح تقریباً ایک دہائی قبل 1994میں دہلی میں ایک نجی گفتگو کے دوران ہم نے اعتماد سازی کے طور پر لائن آف کنٹرول کو عوامی آمد و رفت کے لیے کھولنے کا آئیڈیا پیش کیا تھا۔ میں نے دلیل دی تھی کہ 1977کے اسمبلی انتخابات کے دوران مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے شمالی کشمیر میں اس ایشو کو لےکر ووٹ بٹورے تھے۔

شیخ کے دست راست مرزا محمد افضل بیگ راولپنڈی روڑ کی طرف اشارہ کرکے جلسوں میں اپنی تقریر کا اختتام سبز رومال اور سرگودھا کی کانوں سے نکلنے والی معدنیاتی نمک کی ڈلی دکھا کر باور کرا نے کی کوشش کر رہے تھے، کہ ان کی حکومت خطے کے روایتی روابط بحال کرے گی۔ 1994میں امریکہ کی طرف سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط کو بڑھاوا دینے پر خاصا زور صرف کیا جا رہا تھے، دلیل تھی کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان روابط بڑھیں گے، تناؤ کم ہوگا اور پیچیدہ مسائل حل کرنے میں آسانی ہوگی۔ ہماری دلیل تھی کہ اگر اعتماد سازی کے ہی اقدامات اٹھانے ہیں تو  مرکزی تنازعہ کشمیر کو اس سے کیوں باہر رکھا جائے؟

اگلے دن شجاعت نے بتایا کہ اس نے اس معاملے میں امریکی سفارت خانے کی پالیٹکل کونسلر سے بات کی ہے اور وہ خاصی پرجوش دکھائی دی اور اس نے  شجاعت کے لیے دہلی میں حال ہی میں تعینات امریکی سفیر فرینک وائزنر سے ملنے کا وقت طے کیا ہے۔ شجاعت نے مجھے بھی اس میٹنگ میں شامل ہونے اور اس راہداری کی تاریخی اور سماجی افادیت سے امریکی سفیر کو روشناس کرانے کی درخواست کی۔ فون پر شجاعت نے ہنستے ہوئے کہا کہ اگر 1994میں ہم نے اس تجویز کو کسی دستاویز میں منتقل کیا ہوتا، تو شاید آج ہم بھی اس آئیڈیا کے خالق ہونے کا دعویٰ کرتے۔

شجاعت کا قتل نہ صرف امن مساعی بلکہ کشمیر میں صحافت کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا تھا، جس سے کشمیری صحافت ابھی بھی ابھر نہیں پا رہی ہے۔ جس طرح کی قدغنیں سرینگر میں میڈیا پر لگائی گئی ہیں، جس طرح اخبار مالکان و صحافیوں کے گلے پر چھری رکھی گئی ہے، و ہ شاید شجاعت کی موجودگی میں ممکن نہیں تھیں۔ آپنے آخر ی کالم میں شجاعت نے تحریر کیا تھا کہ ؛

مقامی طور پر عسکریت کی حمایت میں اضافہ ہورہا ہے۔ جب تک مسئلہ کو سیاسی طور پر اپروچ نہیں کیا جاتا، تشدد سرخیوں کی زینت بنتا  رہےگا۔ حکومت دہلی اور اس کی معاونت کرنے والی چنگاڑتی ٹی و ی چینلوں نے ماحول کو  بگاڑ دیا ہے اور شاید ہی کسی تبدیلی کے آثار نظر آتے ہیں۔

 دو سال بعد بھی جب کشمیر کے حوالے سے مجھے جانکاری کے حوالے سے مشکل درپیش آتی ہے، میری انگلیاں خود بخود شجاعت کا نمبر ڈائل کرنے لگتی ہیں۔ لاک ڈاؤن سے قبل جب سویڈن کی ایک صحافی کشمیر جانے کا منصوبہ بنارہی تھی، تو میں نے اس کو شجاعت کا نمبر دےکر کہا کہ بس یہ رابطہ سرینگر میں اس کے لیے کافی ہے۔ بعد میں  ادراک ہوا کہ شجاعت اب ہمارے درمیان نہیں ہے۔ کتنا مشکل ہے یہ یقین کرنا۔ اس کا نمبر ابھی میں میرے فون میں موجود ہے اوراس کو ڈیلیٹ کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں  ہے۔

میرے دوست…آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے…سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے۔