خبریں

جموں و کشمیر کی نئی میڈیا پالیسی پریس کی آزادی کو متاثر کر نے والی ہے: پریس کاؤنسل

جموں وکشمیر انتظامیہ نے گزشتہ دنوں ریاست کی نئی میڈیا پالیسی کو منظوری دی ہے، جس کے تحت وہ شائع اورنشرہونے والےمواد کی نگرانی کرےگا اور یہ طے کرےگا کہ کون سی خبر ‘فیک، اینٹی سوشل یا اینٹی نیشنل رپورٹنگ’ہے۔ پریس کاؤنسل نے اس بارے میں انتظامیہ سے جواب مانگا ہے۔

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: پریس کاؤنسل آف انڈیا(پی سی آئی)نے جموں وکشمیر کی نئی میڈیا پالیسی پر منگل کو وہاں کی حکومت سے جواب مانگا اور کہا کہ اس کے اہتمام پریس کی آزادی کو متاثر کرنے والے ہیں۔یونین ٹریٹری کی انتظامیہ نے اس مہینے کی شروعات میں ‘میڈیا پالیسی 2020’ کو منظوری دی تھی۔ پالیسی میں مذکور‘فرضی جانکاری’کے اہتماموں کا پی سی آئی نےاز خود نوٹس لیا ہے کیونکہ یہ معاملہ پریس کی آزادی کو متاثر کرتا ہے۔

اس پالیسی کے تحت جموں وکشمیر حکومت نے حکام کو مجاز بنایا ہے کہ وہ پرنٹ، الکٹرانک اور دیگر میڈیا میں ‘فرضی جانکاری’ کے مندرجات پر فیصلہ کریں گے اور صحافیوں اور میڈیا تنظیموں کے خلاف آگے کی کارروائی کریں گے۔پی سی آئی نے بیان جاری کرکے کہا کہ جموں وکشمیر کے چیف سکریٹری اور محکمہ اطلاعات کے سکریٹری  سے بھی جواب مانگا گیا ہے۔

یونین ٹریٹری کے ایک افسر نے پہلے کہا تھا کہ اس پالیسی کے تحت کوشش  ہوگی کہ فرضی جانکاری، غلط خبر کو دور کیا جائے اور ایسا نظام بنانے کی کوشش کی جائے کہ قومی سلامتی، خودمختاری اورملک کی سالمیت کو کمتر کرنے کے لیے میڈیا کے استعمال کی کسی کوشش کومتنبہ کیا جا سکے۔

بتا دیں کہ دو جون کو جاری اس نئی میڈیا پالیسی کے تحت کہا گیا تھا کہ انتظامیہ فیک نیوز کے لیے ذمہ دار صحافیوں اور میڈیا اداروں کے خلاف قانونی کارروائی کرےگی، جس میں سرکاری اشتہارات پر روک لگانا اور ان سے متعلق جانکاریاں سکیورٹی  ایجنسیوں کے ساتھ شیئر کرنا شامل ہے تاکہ آگے کی کارروائی ہو سکے۔

پچاس صفحات  کی اس پالیسی، جو اکثرمیڈیا اداروں کو سرکاری اشتہارات دیےجانے سے متعلق ہوتی ہے، میں کہا گیا ہے، ‘جموں وکشمیر میں نظم ونسق اورسلامتی سےمتعلق اہم خدشات  ہیں، یہ سرحدپار سے حمایت یافتہ پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایسی حالت میں یہ بےحد ضروری ہے کہ امن و امان  کوبگاڑنے والے غیر سماجی اور ملک دشمن عناصر کی کوشش  کوناکام کیا جائے۔’

نئی پالیسی کے تحت سرکاری اشتہارات کے لیے لسٹ کرنے سے پہلے اخباروں کے پبلشرز، مدیران اور اہم اسٹاف کے پس منظر کی جانچ لازمی کر دی گئی ہے۔اس کے علاوہ کسی بھی صحافی  کومنظوری  دیے جانے سے پہلے جموں وکشمیر پولیس کی سی آئی ڈی کے ذریعے اس کا سیکورٹی کلیرنس ضروری ہوگا۔ ابھی تک ریاست میں اس طرح کا کلیرنس صرف کسی اخبار کے آراین آئی کے رجسٹریشن سے پہلے کیا جاتا ہے۔

نئی پالیسی کےمطابق، ‘سرکار اخباروں اور دوسرے میڈیا چینلوں میں شائع مواد کی نگرانی کرےگی اور یہ طے کرےگی کہ کون سی خبر ‘فیک، اینٹی سوشل یا اینٹی نیشنل رپورٹنگ’ ہے۔ ایسے کاموں میں شامل پائے جانے پر نیوز اداروں کو سرکاری اشتہارات نہیں دیےجا ئیں گے، ساتھ ہی ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائےگی۔

گزشتہ کچھ وقتوں  میں جموں وکشمیر کے کئی صحافیوں  کو ان کے کام کے لیے پولیس کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان میں فوٹوگرافر مسرت زہرا اورصحافی -قلمکارگوہر گیلانی شامل ہیں، جن پر ان کی سوشل میڈیا پوسٹس کے لیے یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

 (خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)