فکر و نظر

پرتشدد جھڑپ کے بعد چین نے کئی دہائیوں بعد پہلی بار گلوان گھاٹی پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا

ہندوستان نے گلوان کو ہمیشہ سے اس علاقے کےطور پر دیکھا ہے، جہاں لائن آف ایکچول کنٹرول کو لےکر کوئی تنازعہ ہی نہیں رہا۔

گلوان گھاٹی کی سٹیلائٹ تصویر جہاں گلوان ندی شیوک ندی سے ملتی ہے۔ (فوٹو: دی  وائر/گوگل میپس)

گلوان گھاٹی کی سٹیلائٹ تصویر جہاں گلوان ندی شیوک ندی سے ملتی ہے۔ (فوٹو: دی  وائر/گوگل میپس)

نئی دہلی: مشرقی  لداخ میں ہوئے پرتشدد جھڑپ پر چینی فوج کے بیان میں چین نے کئی دہائیوں کے بعد پوری گلوان گھاٹی پر اپنی خودمختاریت  کا دعویٰ کیا ہے۔ہندوستانی فوج نے کہا ہے کہ گزشتہ15جون کی رات کو گلوان علاقے میں چینی فوجیوں کے ساتھ ہوئی پرتشدد کارروائی میں 20 ہندوستانی فوجی مارے گئے تھے۔

اس سے چھ ہفتے پہلے آمنے سامنے آنے کے بعدکشیدگی کو کم کرنے کی کاررائی  میں لگے دونوں ممالک کے بیچ تناؤ بڑھنے کے اشارے ملے ہیں۔ چینی وزارت خارجہ اور فوج دونوں نے کہا کہ ہندوستانی فوج نے ان کی سرحد کو عبور کرکے تشدد کے لیے اکسایا۔رپورٹ کے مطابق، چین کی فوج پیپلس لبریشن آرمی(پی ایل اے)کے ویسٹ تھیٹر کمانڈ کے ترجمان کرنل جھانگ شوئیلی نے کہا، ‘وادی گلوان کے علاقے پرخودمختاریت ہمیشہ چین سے متعلق  رہی ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ 1962 کے چینی نقشےمیں اس کی سرحد شیوک ندی تک جاتی ہے جو کہ آج ہندوستان کے لیے متنازعہ علاقہ ہے۔ حالانکہ، ہندوستان نے گلوان گھاٹی کو ہمیشہ ایسے علاقےکے طور پر دیکھا ہے، جہاں لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی)پیانگونگ تس کی طرح متنازعہ نہیں رہی ہے۔

ہندوستان نے پہلی بار مئی کی شروعات میں چینی فوجیوں کو گلوان گھاٹی کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا جس کے بعد 5-6 مئی کی رات کو پہلی بار دونوں فوج کا آمنا سامنا ہوا تھا۔ہندوستانی فوجی ذرائع نے کہا تھا کہ گلوان میں چینی فوج کی تشکیل غیر متوقع تھی کیونکہ یہ عام طور پر پی ایل اے کے لیے کنگیشور اور زیدیلا میں اپنے روایتی میدانوں  پر مشق کرنے کا موسم تھا۔

ہندوستان نے دعویٰ کیا تھا کہ اپنے فوجیوں کو روایتی پریکٹس سائٹ تک محدود نہ کرکے چین نے سرحدی معاہدے کی روح کی خلاف ورزی  کی تھی۔بتا دیں کہ ہندوستان-چین تنازعہ میں گلوان کا اہم رول  رہا ہے کیونکہ یہ پہلا ہندوستانی پوسٹ تھا، جسے چین نے 1962 کی گرمیوں میں پار کیا تھا اور یہیں سے پہلی لڑائی کی شروعات ہوئی تھی۔

ہندوستانی فوجی ذرائع  کے مطابق، اس کے بعد سے گلوان ایل اے سی کاپرامن  علاقہ بنا رہا، جہاں دوسرے متنازعہ علاقوں کی طرح ہندوستانی اور چینی گشتی پارٹی آمنے سامنے نہیں آئے، لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ 1962 کے 50 سال بعد گلوان ندی گھاٹی پر قبضہ پی ایل اے کوہندوستان  کی دربوک شیوک دولت بیگ اولڈی (ڈی ایس ڈی بی او)روڈ کی حالت پر اسٹریٹجک تسلط فراہم کرتا ہے، جو لیہہ کو درہ قرا قرم  سے جوڑتا ہے۔

ڈی ایس ڈی بی اورڈ پر ہندوستان نے سال 2001 میں کام شروع کیا تھا، لیکن یہ آخرکار پچھلے سال شیوک ندی کے کنارے کے ایک حصہ کی تعمیر نو  کے بعدمکمل ہوا۔بتا دیں کہ مشرقی لداخ کے پیانگونگ تس، گلوان گھاٹی، ڈیم چوک اور دولت بیگ اولڈی علاقے میں ہندوستانی اور چینی فوج کے بیچ تصادم چل رہا ہے۔ پیانگونگ تس سمیت کئی علاقے میں چینی فوجیوں نے سرحد میں تجاوزکیا ہے۔

مئی میں دونوں فوج کے آمنے سامنے آنے کے بعد چین کی طرف  سے ڈی ایس ڈی بی او روڈ کی بات اٹھائی گئی تھی، جبکہ ہندوستانی فریق  اس کو لےکر تذبذب میں تھا۔ موجودہ بحران  کو لےکر 6 جون کو چشل میں ملٹری کی ہائی لیول میٹنگ ہوئی تھی، جہاں لیہہ کارپس کمانڈر کے لیفٹننٹ جنرل ہریندر سنگھ اور جنوبی شنجیانگ صوبے کے میجر جنرل لیو لن کے بیچ بات چیت ہوئی تھی۔

غورطلب ہے کہ 10 جون کو دی  وائر میں شائع  ایک مضمون میں دفاعی امور کے ماہر اجئے شکلا نے بتایا تھا کہ پی ایل اے کے ثالثوں نے گلوان گھاٹی میں ان کے فوجیوں دستوں کے تجاوزات کے بارے میں بات کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا اور پورے علاقے پر اپنی ملکیت جتائی  تھی۔

گزشتہ 6 جون کو ہوئی بات چیت میں چین نے یہ کہتے ہوئے کہ،انہیں جب سے یاد ہے، تب سے پہاڑی کے ساتھ ندی بھی ان کے کنٹرول میں ہے، پوری گلوان گھاٹی پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا تھا۔شکلا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈی ایس ڈی بی او روڈ پر اپنا حق جتاتے ہوئے چین دیپ سانگ علاقے کو الگ تھلگ کرنے میں کامیاب ہوا، جہاں پہلے سے ہی اس کی نمایاں موجودگی دیکھی گئی تھی۔