فکر و نظر

ملک کی جیلیں خاتون قیدیوں کے لیے کتنی سازگار ہیں؟

دہلی فسادات کے معاملے میں گرفتار حاملہ صفورہ  زرگر  تہاڑ  جیل میں ہیں اور عدالت میں جیل سپرنٹنڈنٹ  کا کہنا تھا  کہ انہیں تمام ضروری سہولیات دی جا رہی ہیں۔ حالانکہ ملک کی جیلوں  کی صورتحال  پر  دستیاب اعداد  و شمار اور جانکاریوں  سے انکشاف ہوتا ہے کہ ہندوستانی جیلیں حاملہ خاتون قیدیوں کے لیے سازگار نہیں ہیں۔

ایک جیل میں خاتون قیدی۔ (فائل فوٹو: رائٍٹرس)

ایک جیل میں خاتون قیدی۔ (فائل فوٹو: رائٍٹرس)

گزشتہ چار جون کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالرصفورہ زرگر کی ضمانت عرضی کودہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے خارج کر دیا تھا۔فروری، 2020 میں نارتھ ایسٹ دہلی کے فرقہ وارانہ فسادات کے معاملے میں صفورہ ملزم ہیں۔ ان کے خلاف آئی پی سی کی سنگین دفعات کے ساتھ یو اے پی اے کے تحت بھی معاملہ درج کیا گیا ہے۔

نچلی عدالت نے ضمانت عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا، ‘یہ دکھانے کے لیے بادی النظر میں ثبوت ہیں کہ کم سے کم سڑک بند کرنے کے پیچھے سازش تو تھی۔’اس سے پہلے صفورہ کو 10 اپریل کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی، 13 اپریل کو انہیں ضمانت مل گئی تھی۔ لیکن پھر 20 اپریل کو ان کے خلاف یواے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔

وہیں،ان  کے وکیل نے ضمانت کے لیے ان کےحاملہ ہونے کو بھی بنیادبنایا تھا۔ صفورہ پانچ مہینے کی حاملہ ہیں۔ساتھ ہی ان کے وکیل نے بتایا کہ وہ  پالسٹک اوویرین ڈس آرڈر سے بھی جوجھ رہی ہیں۔ یہ ایک ہارمون سے جڑی بیماری ہے، جس کی وجہ سے پیریڈس کی مدت میں بے قاعدگی  ہو جاتی ہے۔ اس کا سہی علاج نہ ہونے پر دل کی بیماری اورشوگر ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

اس کے علاوہ جیل میں کووڈ 19 وائرس انفیکشن کو لے کر بھی خدشات ظاہر کیے گئے۔ ان باتوں کے جواب میں عدالت نے تہاڑ جیل سپرنٹنڈنٹ سےملزم کو طبی سہولیات اور راحت یقینی بنانے کو کہا۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق صفورہ کو ایک کمرے میں اکیلے ہی رکھا گیا ہے۔ ساتھ ہی، ان کی  صحت اور کھانے پینے کا بھی دھیان رکھا جا رہا ہے۔

حالانکہ،جس جیل(تہاڑ 6)میں انہیں رکھا گیا ہے، وہاں کی کل صلاحیت کے برابر قیدی بھی موجود ہیں۔ راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ تہاڑ جیل میں دو دسمبر تک کل 398 خاتون قیدی تھیں۔ اس خاتون جیل کی کل صلاحیت 400 ہے۔

ہندوستان میں جیلوں کی حالت،بالخصوص تہاڑ جیل کو لےکر‘تنکا تنکا تہاڑ’کتاب لکھنے والی صحافی ورتیکا نندہ  بتاتی ہیں،‘کورونا کے وقت جیلوں کو خالی تو نہیں کیا گیا ہے لیکن جو نئے قیدی آ رہے ہیں، انہیں کورنٹائن کرکے الگ رکھنا ہے۔ اب جیل میں تو پہلے کی طرح ہی اسپیس ہے، جگہ تو بڑی نہیں ہے۔ محدود جگہ میں ان ساری چیزوں کو کرنا ایک بہت بڑی پریشانی ہے۔’

وہ مزید کہتی ہیں،‘جہاں تک جیلوں کا سوال ہے۔ یہ جیل پر منحصر کرتا ہے کہ وہ کون سی جیل ہے اور کہاں کی جیل ہے۔ اسے کس طرح رکھا گیا ہے۔ تہاڑ نے کئی سالوں میں اپنے اسٹینڈرڈ کو مضبوط کرنے کا کام کیا ہے۔ ان میں کافی مارڈن سہولیات ہیں اور وقت کے ساتھ ان میں کافی اصلاحات کی گئی  ہیں۔’

ورتیکا نندہ کی مانیں تو دوسرے ملک کی جیلوں سے تہاڑ کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہندوستانی  جیلوں کی ایسی حالت ہے جہاں کسی حاملہ خاتون کی صحت کا پورا دھیان رکھا جا سکے؟ جس سے وہ  سازگار ماحول  میں اپنے بچہ کو جنم دے سکے یا پھر اس کی پرورش و پرداخت ممکن ہو۔

این سی آربی کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان  کے 1339 جیلوں میں 1732 خاتون قیدی اپنے 1999 بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ ان خاتون قیدیوں میں 1376 انڈرٹرائل ہیں۔وہیں، ہندستان ٹائمس کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ سال 2014 میں صرف دہلی کی تہاڑ جیل میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 120 تھی۔

جیلوں میں بچوں کی پیدائش کو لےکر ورتیکا نندہ کا کہنا ہے، ‘جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے رہنے کے لیے الگ سے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ وہ وہیں رہتا ہے، جہاں عورتیں رہتی ہیں۔ اس کو میں بہت بڑی پریشانی مانتی ہوں کیونکہ بچہ کا زندگی  سے جو پہلا تعارف ہوتا ہے، وہ بہت ناسازگارماحول میں ہوتا ہے۔’

ملک  میں جیلوں کی حالت کی بات کریں تو ہمیشہ یہ بحث کا مدعا رہا ہے کہ یہاں صلاحیت سے زیادہ قیدی ہیں اور بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ لیکن اس بحث میں خاتون قیدیوں کی مشکلات نہ کے برابر ہی جگہ حاصل کر پاتی ہیں۔این سی آربی رپورٹ کی مانیں تو پورے ملک میں کل 1339 جیلیں ہیں۔ ان میں کل قیدیوں کو رکھنے کی صلاحیت396223 ہے، لیکن 31 دسمبر، 2018 تک ان میں رہنے والی قیدیوں کی تعداد466084 تھی یعنی صلاحیت سے 17.6 فیصدی زیادہ۔

دوسری طرف ملک میں پانچ ریاستیں اتراکھنڈ، چھتیس گڑھ، اتر پردیش، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ ایسی ہیں، جہاں کی جیلوں میں صلاحیت سے زیادہ خاتون قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔وہیں،خاتون قیدیوں کو مردقیدیوں سے الگ رکھنے کے لیے خاتون جیل ہونے کی بات کہی گئی ہے، لیکن ان 1339 جیلوں میں خاتون جیلوں کی تعداد صرف24 ہے۔

یہ جیلیں ملک کی 15 ریاستوں/یونین ٹریٹری میں ہی واقع ہیں۔ ان کے علاوہ 21 ریاست/ یونین ٹریٹری ایسے ہیں، جہاں خاتون جیل کا کوئی نظم نہیں ہے۔ ان میں اکیلے تمل ناڈو میں ہی پانچ خاتون جیلیں ہیں۔ وہیں دہلی میں ان کی تعداد دو ہے۔این سی آربی کی رپورٹ کے مطابق سال 2018 کے آخر تک ان کی کل صلاحیت 648 تھی، جن میں 530 خاتون قیدی رہ رہی تھیں۔

حالانکہ راجیہ سبھا میں چار دسمبر، 2019 کو ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ دو دسمبر، 2019 تک ان جیلوں میں خاتون قیدیوں کی تعداد بڑھ کر 651 ہو گئی۔دوسری طرف ملک میں زیادہ آبادی والی ریاستوں اتر پردیش، مہاراشٹر اورمغربی بنگال میں صرف ایک ایک خاتون جیل ہے۔

یعنی ویسی ریاست جہاں خاتون جیل نہیں ہیں یا ان کی تعداد قیدیوں کے مقابلے کم ہے، وہاں خاتون قیدیوں کو نارمل جیل میں ہی رکھا جاتا ہے۔31دسمبر، 2018 تک پورے ملک میں ان کی تعداد 15999 تھی۔خاتون جیلوں کے بارے میں ورتیکا نندہ کہتی ہیں،‘یہ کہنا غلط ہوگا کہ اگرکوئی خاتون جیل ہے تو وہاں کی قیدیوں کی حالت اچھی ہوگی۔ یہ وہاں کے انتظامات پر منحصر کرتا ہے، لیکن خاتون جیلوں کے مقابلے عام جیلوں میں خواتین کے لیے چیلنجز زیادہ  ہیں۔’

جیل میں خواتین کو دی جانے والی سہولیات کو لےکر وہ کہتی ہیں، ‘تمام جیلوں میں ایک ہی طرح کے پیرا میٹر ہوتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ جیل میں جگہ کتنی ہے اور جیل کا اسٹاف قیدیوں کو کتنی سہولیات دیتا ہے، بہت سی چیزیں اس پرمنحصر کرتی ہیں۔’

(علامتی تصویر: رائٹرس)

(علامتی تصویر: رائٹرس)

جیل مینول میں انہیں مردقیدیوں سے الگ رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔عام جیل میں بھی خواتین کی الگ یونٹ ہوتی ہے۔حالانکہ، یہ عام تصور ہے کہ کسی بھی جیل کی بناوٹ مرد قیدیوں کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے کئی چیزوں کو لے کر خاتون قیدیوں کو کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے خاتون جیلوں کی حالت کو نسبتاً بہتر مانا جا سکتا ہے۔

وہیں اگر جیل میں طبی سہولیات کی بھی بات کریں، تب بھی صورتحال بہتر نہیں دکھتی۔ دسمبر، 2018 تک 3220 کی جگہ صرف 1914 میڈیکل اسٹاف ہی ان جیلوں میں تعینات تھے، جو کل صلاحیت کی تقریباً دو تہائی حصہ سے بھی کم ہے۔اس کے علاوہ پورے ملک کی 1339 جیلوں میں صرف667 ایمبولینس ہی دستیاب ہے۔ آسام، سکم اور اروناچل پردیش سمیت چھ ریاستوں/یونین ٹریٹری کی جیلوں میں ایک بھی ایمبولینس نہیں ہے۔

این سی آربی کی رپورٹ کے مطابق سال 2018-19 میں پورے ملک میں قیدیوں پر 1776 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ جو کل خرچ (5283.7 کروڑ) کا صرف33.61فیصد حصہ ہے۔ ان 1776 کروڑ روپے میں سے بھی صرف76.5 کروڑ روپے ہی قیدیوں کی صحت پر خرچ کیے گئے۔

ان باتوں سے یہ تو صاف ہوتا دکھتا ہے کہ ایک حاملہ خاتون کے لیے جیل میں صحت مند بچہ کو جنم دینا آسان نہیں ہے۔اس کے علاوہ جیل حکام  کا ان خاتون قیدیوں کے ساتھ سلوک  بھی ان کی مشکلات کو کم کرنے یا بڑھانے والا ثابت ہو سکتا ہے۔سابق وزیر اعظم  راجیو گاندھی قتل معاملے کی ملزم نلنی شریہرن کو جب گرفتار کیا تھا، اس وقت وہ بھی حاملہ تھیں۔

انہوں نے اپنی بیٹی ارتھرا کو جیل میں ہی جنم دیا تھا۔ انہوں نے ان واقعات کو اپنی خودنوشت‘راجیو اسسنیشن: ہڈن ٹروتھ اینڈ دی میٹنگ بٹ ون نلنی اینڈ پرینکا’ میں ذکر کیا ہے۔اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ انہیں قتل معاملے کے لیے بنی خصوصی جانچ ٹیم  نے 50 دنوں کی حراست میں رکھا تھا۔ اس دوران انہیں پیٹا گیا، جس میں چھاتی پر مکے مارنا بھی شامل تھا۔

اس کے علاوہ انہیں پولیس اہلکاروں کے ذریعے گینگ ریپ کی  دھمکی بھی دی گئی۔ وہیں، دوسروں کے سامنے ہی اپنے شوہر وی شریہرن عرف مرگن کے ساتھ جسمانی رشتہ قائم کرنے کو کہا گیا۔نلنی کی مانیں تو انہیں 5×5 فٹ کے کمرے میں کئی ہفتوں تک رکھا گیا تھا۔ ان حالات سے گزر نے کے باوجود انہوں نے جیل میں بیٹی کو جنم دیا تھا۔

حالانکہ، جیل مینول میں کہا گیا ہے کہ جب کسی خاتون کو جیل میں رکھا جاتا ہے تو پریگنینسی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حاملہ ہونے پر ان کی ضرورت کی بنیادی چیزیں بھی مہیا کرانے کی بات کہی گئی ہے۔آئین کے مطابق جیل اسٹیٹ کا موضوع ہے۔ یعنی اس سے متعلق ساری چیزیں الگ الگ سرکاریں اپنی ریاستوں میں طے کرتی ہیں۔ اس لحاظ سے الگ الگ ریاستوں کی جیلوں میں قیدیوں کے لیے الگ الگ سہولیات اورپریشانیاں ہیں۔

حالانکہ، اس کے باوجود جیلوں میں جو ایک بنیادی سہولت ہونی چاہیے، وہ اکثر جیلوں سے غائب ہی دکھتی ہیں۔ ان میں رہنے کی جگہ سے لےکر طبی سہولیات شامل ہیں۔وہیں، ان کے فقدان میں قیدیوں میں سب سے زیادہ مشکلوں کا سامنا کسی حاملہ اور نوزائیدہ کی ماں کو کرنا ہوتا ہے۔

حاملہ قیدی کا معاملہ صرف صفورہ کا ہی نہیں ہے۔ عدالت اور جیل حکام کی مانیں تو صفورہ کو ضرورت کی ساری چیزیں مہیا کرائی جا رہی ہیں۔لیکن اعداد وشماراور جانکاریوں سے پتہ چلتاہے کہ ہر سال ملک میں سینکڑوں حاملہ خواتین کو بھی یہ سہولیات حاصل ہوتی ہوں گی، اس بارے میں زیادہ  امید نہیں کی جا سکتی ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)