فکر و نظر

لداخ: جو کبھی متحدہ ہندوستان، تبت، چین، ترکستان اور وسط ایشیا کی ایک اہم گزر گاہ تھا…

افغانستان کی طرح یہ خطہ بھی عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں یعنی گریٹ گیم کا شکار رہا ہے۔ مغلوں اور بعد میں برطانوی حکومت نے لداخ پر بر اہ راست علمداری کے بجائے اس کو ایک بفر علاقہ کے طور پر استعمال کیا۔

فوٹو: وکی پیڈیا

فوٹو: وکی پیڈیا

جموں و کشمیر کا دور افتادوہ اور پسماندہ لداخ خطہ، جہاں اس وقت چینی اور ہندوستانی فوج برسرپیکار ہے، ایک صدی قبل تک خاصا متمول اور متحدہ ہندوستان، تبت، چین، ترکستان و وسط ایشیاء کی ایک اہم گزرگاہ ہوتا تھا۔ خوبصورت ارضیاتی خدو خال، حد نگاہ تک رنگ برنگے اونچے ننگے پہاڑ، بنجر اور ویران لمبے چوڑے میدان،اس خطے کو خاصی حد تک پاکستانی صوبہ بلوچستان سے مماثلت کرواتے ہیں۔ پچھلے سال اگست میں ہندوستان نے اس خطہ کو جموں و کشمیرسے الگ کرکے ایک علیحدہ مرکز کے زیر انتظام خطہ بنایا۔

دو ضلعوں لہیہ اور کرگل پر مشتمل اس خطہ کا رقبہ نقشہ پر 97872مربع کلومیٹر ہے۔ مگر اکسائی چن علاقہ کے چین کے زیر تصرف ہونے کی وجہ سے اصل رقبہ صرف 58321مربع کلومیٹر ہی ہے۔ اکثر لکھاری اس خطے کو بدھ اکثریتی علاقہ گردانتے ہیں۔ جبکہ 2011کی مردم شماری کے مطابق اس خطے کی دو لاکھ 74ہزار کی آبادی میں 46.40فیصد مسلمان اور 39.65فیصدبدھ مت کے پیروکار ہیں۔لہیہ ضلع میں بدھ آبادی 66.39فیصد ہے۔مگر اس ضلع میں بھی 25مسلم اکثریتی گاؤں ہیں۔

اس خطے کی نامور شخصیت اور تاریخ دان عبدالغنی شیخ کے مطابق یہ علاقہ ایک صدی قبل تک دنیا سے اس قدر جڑا تھا کہ ترک یہاں کی دوسری زبان تھی۔ 19ویں اور 20ویں صدی کے اوائل تک یہ علاقہ برطانیہ، چین اور روس کی چپقلش کا مرکز رہا۔تاجروں، سیاحوں، جاسوسوں اور سپاہیوں کے لیے ترکستان یعنی سنکیانگ کے شہروں یارقند، خوتان اور کاشغر کے سفر کے لیے لداخ ایک اہم زمینی رابطہ تھا۔

لیہہ شہر میں بدھ خانقاہ نمگیال سیمو گمپا اور اس سے کچھ فاصلے پر تاریخی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے معمر افراد ترکستان کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اگر آپ نے ذرا ذکر چھیڑا تو وہ یارقند، کاشغر یا تبت کے دارلحکومت لہاسہ، گلگت،    بلتستان، ہنزہ و چترال  کی ڈھیر ساری کہانیاں سنائے بغیر نہیں جانے دیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ لہیہ کے بازار میں ایک معمر لداخی نے ایک بار بتایا کہ وہ عذاب الہی کے شکار ہوگئے  ہیں،کیونکہ ان کے بزرگوں نے نعمتوں کی قدر نہیں کی۔

لداخی محقق ریچن ڈولما  کے مطابق کشمیر کی طرح لداخ بھی 20ویں صدی میں وقوع پذیر سیاسی واقعات کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خطے کی بقاء،ترقی، اور عظمت رفتہ کی بحالی کا دارومدار قراقرم کے بند دروں کو دوبارہ تجارت اور راہداری کے لیے کھولنے میں ہی مضمر ہے۔ قدیم شاہراہ ریشم کی ایک شاخ اس خطے کے بلند و بالا پہاڑوں سے ہوکر گزرتی تھی۔

چین کے ذریعے  1949 میں مشرقی ترکستان یعنی سنکیانگ پر اور پھر 1950میں تبت پر قبضہ کے بعد آہنی دیوار کھڑا کرنے سے راہداریاں بند ہوگئیں۔ مگر سب سے زیادہ نقصان 1947میں تقسیم ہند اور تنازعہ کشمیر کی وجہ سے خطے میں پیدا ہوئی کشیدگی کی وجہ سے ہوا۔ 1962کی ہندوستان-چین جنگ سمیت، یہ خطہ پانچ جنگیں جھیل چکا ہے۔ہندوستان کی پاکستان اور چین کے ساتھ چپقلش نے اس پورے خطے کے تاریخی روابط منقطع کروا کے اس کو غربت اور افلاس میں دھکیل کر رکھ دیا ہے۔

جمو ں و کشمیر کے محکمہ سیاحت کے سابق سربراہ اور محقق سلیم بیگ کا کہنا ہے کہ کشیدگی اور سیاسی واقعات نے اس خطے کو مرکز سے دنیا کے ایک کونے میں لا کر کھڑا کرکے رکھ دیا۔اس خطے میں سرکاری ملازم اپنی تقرری کو سزا تصور کرتے ہیں۔  نویں صدی کی ا یک فارسی قلمی دستاویز  حدود عالم کے بقول وسط ایشیاء کے جو لوگ حج پر جاتے تھے،لداخ ان کےلیے ایک اہم پڑاؤ ہوتا تھا، ان روابط کی وجہ سے ترک زبان رابطہ کے ایک ذریعہ کے بطور رائج ہوگئی تھی۔ خود لداخی زبان میں کئی ترک الفاظ داخل ہوگئے۔ ترک تاجروں نے لداخ میں سکونت اختیار کرکے کشمیری اور لداخی عورتوں سے شادیا ں کی۔ ان کی نسل کو ارغون کہتے ہیں۔ دیگر نسلوں میں یہاں مون، منگول اور درد قابل ذکر ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ90 کی دہائی تک لداخ میں مسلم اور بدھ آبادی میں خاصا باہمی میل جول تھا۔ فرقہ وارانہ منافرت کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔مسلمان نام بھی مقامی یعنی محمد زیرنگ جیسے ہوتے تھے۔ مغل دور میں لداخ کے باج گذار نمگیال خاندان کے فرانروا خطوط و سکوں پر محمود شاہ یا اسی طرح کے مسلمان ناموں سے اپنے آپ کو کہلوانا پسند کرتے تھے۔  لداخی بدھ البتہ ڈوگرہ ہندوؤں کے تئیں خلش رکھتے تھے۔ وہ یہ بھول نہیں پار ہے تھے کہ جب 1841میں ڈوگرہ جنرل زور آور سنگھ نے لداخ پر فوج کشی کی تو ان کی عبادت گاہوں کو اصطبل بناکر ان کی بے حرمتی کی گئی۔

فوٹو: وکی پیڈیا

فوٹو: وکی پیڈیا

مگر جو ں جوں ہندوستانی سیاست کے عنصر لداخ میں پروان چڑھتے گئے، دونوں فرقوں کے درمیان محاذ آرائی بھی شروع ہوگئی۔ بدھ فرقہ کو بتایا گیا کہ ان کی پسماندگی کی وجہ سرینگر کے حکمران ہیں۔ چونکہ پوری ریاست میں ان کی آبادی سکھوں سے بھی کم یعنی 0.89فیصد تھی، تو ان کا مجموعی سیاسی وزن بھی کم تھا۔ اس لیے 90کے اوائل میں یہاں کی بد ھ آبادی نے اس خطے کو کشمیر سے الگ کرنے اور مرکز کا زیر انتظام علاقہ بنانے کےلیے ایجی ٹیشن شروع کی۔ مسلمانوں نے اس کی جم کر مخالفت کی۔

اس کے رد عمل میں بد ھ تنظیموں نے مسلمانوں کے سوشل بائیکاٹ کی کال دی، جو 1994تک جاری رہا۔یہ شاید دنیا کی تاریخ میں کسی بھی فرقہ کے خلاف طویل ترین ترک موصلات ہوگا۔ 1994میں جب کشمیر میں گور نر راج نافذ تھا تو گفت و شنید کے بعد لداخ پہاڑی ترقیاتی کونسل تشکیل دی گئی۔ اس کو بجٹ بنانے کا  اختیار دیکر مقامی انتظامیہ کو اس کے ماتحت کردیا گیا۔ بعد میں 2003میں وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے پاس کے مسلم اکثریتی کرگل ضلع کے لئے بھی اسی طرح کی کونسل کی منظوری دے دی۔ 2012میں اس ضلع کے بد ھ اکثریتی تحصیل زنسکار میں بدھ آبادی نے مسلمانوں کے مکانوں و دکانوں پر دھاوا بول دیا۔

وجہ تھی کہ بدھ فرقہ کے 22افراد مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔چونکہ ہندو مت کی طرح لداخی بدھوں میں بھی ذات پات کا عنصر سرایت کر گیا ہے، اس لیے نچلی ذات کے بدھ خاصے نالا ں رہتے ہیں۔ زنسکار بد ھ ایسوسی ایشن نے اس واقعہ کے بعد عرصے تک مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کردیا۔ اگر کوئی بدھ کسی مسلم تاجر سے کوئی بھی چیز خریدتا ہو ا پایا جاتا تو اس پر باقاعدہ جرمانہ عائد ہوجاتا تھا۔ جو کونسل کے سرکاری خزانہ میں جمع کیا جاتا تھا۔

لداخ کا خطہ کئی عجیب و غریب رسم و رواج کی وجہ سے بھی خاصا مشہور ہے، مگر آہستہ آہستہ وہ اب معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ کئی مؤرخوں نے درد نسل کو اصل اور مستند آرین نسل قرار دیا ہے۔ 1979میں دو جرمن خواتین کو اس خطہ میں چند ممنوعہ علاقوں میں گھومنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔  بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خواتین مرد ساتھیوں کی تلاش میں تھیں، تاکہ اصیل آرین نسل پیدا کر سکیں۔ابھی بھی متواتر ایسی خبریں آتی ہیں کہ مغربی ممالک کی نسل پرست خواتین علاقے میں مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات کرنے آتی ہیں۔ جرمن بھی اپنے آ پ کو مستند آرین نسل تصور کرتے ہیں۔

اس علاقے میں کئی دیہاتوں میں ابھی بھی ایک عورت کے کئی شوہر ہوتے ہیں، گو کہ اس رسم پر 1950میں قانونی طور پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ اکثر ایک خاندان میں دو بھائیوں کی مشترکہ بیوی ہوتی ہے، تاکہ زرعی زمین کی تقسیم روکی جاسکے۔ پورے خطے میں زرعی زمین کا رقبہ محض 620مربع کلومیٹر ہے۔کئی دیگر رسوم بد ھ کلچر کا حصہ ہیں۔ نوبرہ تحصیل کے نمبردار زیرنگ نمگیال کے مطابق اکثر خاندان سب سے چھوٹے بیٹے کو لاما بنانے کے لیے خانقاہ بھیجتے ہیں۔ لاما لداخیوں کی زندگی کا اہم جز ہوتا ہے۔ تقریباً سبھی دیہاتوں میں ایک یا دو بدھ خانقاہیں ہیں، جن کا انتطام و انصرام لاماؤں کے سپرد ہوتا ہے۔

خطے کے روابط منقطع ہونے کا سب سے زیادہ نقصان مسلم اکثریتی کرگل ضلع کو اٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ ہندوستان-پاکستان جنگوں میں اس ضلع کے کئی دیہات کبھی ادھر تو کبھی ادھر چلے آتے تھے۔ 1999کی کرگل جنگ کے بعد جب لداخ کے پہلے کور کمانڈر جنرل ارجن رائے کی ایما پر دیہاتوں کی سرکاری طور پر پیمائش وغیرہ کی گئی، تو معلوم ہوا کہ ترتک علاقے کے کئی دیہات تو سرکاری ریکارڈ میں ہی نہیں ہیں۔ اس لیے2001کی مردم شماری میں پہلی بار معلوم ہوا کہ لداخ خطے میں مسلم آبادی کا تناسب 47فیصد ہے اور بدھ آبادی سے زیاد ہ ہے۔

ورنہ اس سے قبل اس خطے کو بدھ اکثریتی علاقہ مانا جاتا تھا اور اکثر لکھاری ابھی بھی پرانے اعداد شمار کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ کرگل اسکردو تحصیل کا حصہ ہوتا تھا۔ اس لیے یہاں کی زمینوں و جائیداد کے ریکارڈ ابھی بھی اسکردو کے محافظ خانے میں موجود ہیں۔ کسی عدالتی مقدمہ یا تنازعہ کی صورت میں ابھی بھی ریکارڈ اسکردو سے ہی منگوایا جاتا ہے۔ لداخ کو باقی دنیا سے ملانے والے دو راستہ سرینگر کی طرف زوجیلا درہ اور ہماچل پردیش کی طرف روہتانگ درہ چھ ماہ کےلیے بند ہوجاتے ہیں۔ کرگل اسکردو کے درمیان 192کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور یہ پورا سال کھلا رہتا تھا۔ نوبرہ میں کھردنگلہ کے مقام سے کاشغر، خوتان اور یارقند کو جانے والے راستے بھی مسافروں اور قافلوں کا پچھلی کئی دہائیوں سے انتظار کر رہے ہیں۔

ریٹائرڈ اسکول ٹیچر حاجی عبدالرزاق کا کہنا ہے کہ ان کے والد اکثر یارقند اور کاشغر تجارت کی غرض سے جاتے تھے۔ نوبرا وادی میں وسط ایشیا اور دشت گوبی کی پہچان یعنی دو اونٹ والے کوہان ملتے ہیں، گو کہ ان کی آبادی اب خاصی کم ہو گئی ہے چند برس قبل سلیم بیگ، عبدالغنی شیخ اور لیہہ میں مقیم کئی احباب نے تاریخی سا سوما مسجد کی تجدید و تزوین کرکے اس کے متصل تین منزلہ میوزم بنایا۔ یہ میوزم اس خطے کے ترکستان اور وسط ایشیاء کے درمیان تاریخی روابط کا شاہکار ہے۔

ترک ارغون خاندانوں نے نوادرات و مخطوطات کا ایک خاصا بڑا ذخیرہ اس میوزم کی نذر کیا۔ قدیمی یارقندی قالین، اور کئی مخطوطات  جامع مسجد سے یہاں منتقل کئے گئے۔ 17ویں صدی میں جب اس مسجد کی تعمیر کی گئی تھی، تب بدھو ں کی سب سے مقدس خانقاہ ہمپس خانقاہ کے ہیڈ لاما ستساگ راسپا نے لکڑی کی ایک چھڑی مسجد کے امام صاحب کی نذر کی۔ جو مسجد کے اندر ہی ایک فریم میں رکھی گئی تھی۔ مسجد کا فرش ترک تاجروں نے فراہم کیاتھا۔

فی الوقت چینی اور ہندوستانی فوجوں کے کشمکش کا مرکز گلوان وادی بھی ایک ترک ارغون غلام رسول گلوان کے نام سے موسوم ہے، جو ایڈونچر کے شوقین برطانوی سیاحوں کے لیے گائیڈ کا کام کرتے تھے۔ غورطلب ہے کہ 1892میں ایرل آف ڈیمور کی قیادت میں سیاحوں کے قافلہ کو جب و ہ گائیڈ کر رہے تھے، تو یہ قافلہ برفانی طوفان میں گھر کر بھٹک گیا۔ اپنی کتاب”لداخ کی تہذیب و ثقافت“میں عبدالغنی شیخ میں لکھتے ہیں کہ گلوان نے متبادل راستے کو دریافت کرکے اس قافلہ کو صحیح وسلامت منزل تک پہنچایا۔

ایرل آف ڈیمور نے اس وادی، جس کو انہوں نے دریافت کیا تھا، گلوان کے نام سے موسوم کیا۔ اسی طرح دولت بیگ الدائی کا وسیع و عریض میدان ترک سردار سلطا ن سعید خان المعروف دولت بیگ کے نام سے موسوم ہے۔ 16ویں صدی میں لداخ اور کشمیرپر فوج کشی کے بعد سعید خان کا قافلہ واپس یارقند جا رہا تھا تو وہ برفانی طوفان میں گھر کر ہلاک ہوگیا۔ تین صدی بعد جب برطانوی سرویر جنرل والٹر لارنس اس علاقے میں پہنچا، تو وہا ں انسانی اور جانوروں کی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں۔ اس کو بتایا گیا کہ یہ اولدی قبیلہ کے دولت بیگ اور اس کے قافلہ کی باقیات ہیں، تو اس نے ریکارڈ میں اس  میدان کا نام دولت بیگ اولدی درج کردیا۔

افغانستان کی طرح یہ خطہ بھی عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں یعنی گریٹ گیم کا شکار رہا ہے۔ مغلوں اور بعد میں برطانوی حکومت نے لداخ پر بر اہ راست علمداری کے بجائے اس کو ایک بفر علاقہ کے طور پر استعمال کیا۔ عبدالغنی شیخ کے مطابق 1872کو ڈوگرہ مہاراجہ رنبیر سنگھ نے گوالیار اور نیپال کے حکمرانوں کو ساتھ ملاکر زار روس الیکگزندر دوم کو خط لکھ کر ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے زار روس کو یقین دلایا کہ اس کے حملہ کی صورت میں سبھی ریاستوں کے والی برطانوی راج کے خلاف بغاوت کرکے روسی فوج کا ساتھ دیں گے۔

یہ خط فرغانہ کے روسی گورنرکے توسل سے زار روس کو بھیجا گیا تھا۔ مگر فرغانہ میں اس خطہ کے مندرجات برطانوی جاسوسوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ برطانوی حکومت نے مہاراجہ رنبیر سنگھ کی گوشمالی کرکے لداخ میں اپنا ایک مستقل نمائندہ مقرر کردیا۔ دیگر ریاستوں کے حکمرانوں پر بھی غیر ممالک کے ساتھ سفارتی راہ رسم بڑھانے پر پابندی عائد کی گئی۔ شیخ کے بقول زار روس نے اپنے جواب میں لکھا تھا کہ وہ فی الحال ابھی ترکی کے ساتھ بر سر پیکار ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔

استنبول فتح کرنے کے بعد دو سال تک آرام کرنے کے بعد وہ ہندوستان کا رخ کرےگا۔ 1877میں روس نے ترکی کے خلاف محاذ کھولا،جس کے نتیجے میں بلغاریہ، رومانیہ، سربیا اور مونٹینگرو ترکی کے ہاتھ سے نکل گئے۔مگر زار کا استنبول تک پہنچنا بس خواب ہی رہ گیا۔

لداخ کے پہاڑوں کے پیچ و خم سے بل کھاتے ہوئے دریائے سندھ اور اس کی معاون ندی نالوں سے پچھلی ایک صدی کے دوران کافی پانی بہہ چکا ہے۔ خطے میں مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان وہ اب پہلی سی الفت نہیں رہی۔ مگر ماضی اور عظمت رفتہ کی یادیں  قدر ے مشترک ہیں۔ پوری آبادی اب ایک الگ تھلگ اور ایک کونے میں زندگی گذارنے سے عاجز آچکی ہے۔

جب لداخ کو کشمیر سے الگ کیا گیا، تو سرکاری ملازمت اور پولیس میں لداخ کے مکینوں کو لیہہ اور کرگل پوسٹنگ کے لیےبھیجا گیا، تو تقریباً سبھی نے جانے سے انکار کردیا۔ زور زبردستی سے ان کو اس مرکز کے زیر انتظام علاقہ کے کیڈر میں شامل کیا گیا۔ لداخی محقق ڈولما کے مطابق ہندوستان، چین اور پاکستان لداخ کی تزویراتی افادیت کو تسلیم تو کرتے ہیں، مگر فوجی نقطہ نظر سے آگے نہیں دیکھ پاتے ہیں۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ خط ایک بار پھر تجارت، روابط اور تہذیبوں کے ملن کا مرکزبن سکے۔ اس کےلیے اشد ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی پر امن حل تلاش کیا جائے تاکہ اس خطے کو کشیدگی سے نجات حاصل ہو اور یہ ایک بار پھر مسکراہٹوں اور آسودگی کا گہوارہ بنے۔