عالمی خبریں

کیوں چین کے ساتھ تجارت پر پابندی ہندوستان کے لیے منافع بخش نہیں ہے

ہندوستان اور چین کے مابین تجارتی پابندیاں عائدکرنے سے سب سے زیادہ نقصان متوسط طبقہ اورکم آمدنی والے لوگوں کوبرداشت کرنا پڑےگا۔ ہندوستان میں چین کے بنے سامانوں کی مانگ اس لیے زیادہ ہے، کیونکہ دوسرے ممالک کے سامانوں کے مقابلےیہ سستے اور ہندوستان کی بڑی آبادی کی صلاحیت  کے مطابق دستیاب ہیں۔

چینی صدر اور ہندوستان کے وزیراعظم۔ (فوٹو: رائٹرس)

چینی صدر اور ہندوستان کے وزیراعظم۔ (فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: حال ہی میں مشرقی  لداخ کی گلوان وادی میں چینی فوج کے ساتھ پر تشدد جھڑپ میں ہندوستان کے 20 جوان ہلاک ہو گئے۔اس کو لےکر ملک کی عوام  میں کافی غصہ ہے اور لوگ مطالبہ  کر رہے ہیں کہ ہندوستان میں چین کےسامانوں پرپابندی عائد کی جائے۔فی الحال مرکزی حکومت نے چین کے ساتھ تجارت بند کرنے یا چینی کمپنیوں کے سامان کو ملک میں بیچنے پر روک نہیں لگائی ہے، لیکن حکومت میں بیٹھے کچھ لوگ، کچھ رہنما اور اس سے وابستہ تنظیموں نے اس خیال سےاتفاق کیاہے۔

مرکزی وزیر رام داس اٹھاولے نے کہا ہے کہ ہندوستانی ریستوراں میں چائنیز فوڈ پرپابندی لگایا جائے۔کئی ٹی وی چینل بھی اس کی حمایت کرتے دکھائی دیے، اور اس بات کی پیروی کی کہ‘چین کو سبق’ سکھانے کے لیے اس کا سامان ہندوستان میں آنے سے روکا جائے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر ایسے ویڈیو کی کثرت ہے، جس میں لوگ مبینہ  طور پر چینی سامان مثلاً؛ فون، ٹی وی وغیرہ  کو توڑتے دکھائی دے رہے ہیں اور باقی لوگوں سے بھی ایسا ہی کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔

سرحد پر جوانوں کی ہلاکت سےملک کی عوام میں غصہ فطری ہے، لیکن کیا اس کو بنیاد بناکر دوممالک کے بیچ تجارت کوبند کرنا عقل مندی ہے؟ کیا ایسا کرنے سے ہندوستان کی عوام پر برا اثر نہیں پڑےگا؟ اعدادوشمار دکھاتے ہیں کہ یہ قدم ہندوستان، بالخصوص غریبوں کے مفادمیں نہیں ہے اور اس کی متعدد وجوہات ہیں۔

ہندوستان اور چین کے بیچ کتنی تجارت ہوتی ہے

امریکہ کے بعد چین ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے۔ سال 2019-20 کے دوران ہندوستان اور چین کے بیچ 5.50 لاکھ کروڑ روپے کی تجارت ہوئی، جو کہ ہندوستان امریکہ کے بیچ 5.85 لاکھ کروڑ روپے کی تجارت سے تھوڑا ہی کم ہے۔ ہندوستان کی  کل تجارت میں چین کی حصہ داری تقریباً11 فیصدی ہے۔

ڈپارٹمنٹ آف کامرس کے اعداد و شمار کے مطابق، ہندوستان نے مالی سال2019-20(اپریل فروری) کے دوران چین سے کل 4.40 لاکھ کروڑ روپے کاامپورٹ کیا۔ اس بیچ تمام ملکوں کو ملاکر ہندوستان کا کل امپورٹ 31.23 لاکھ کروڑ روپے کا رہا ہے۔اس طرح ہندوستان کےامپورٹ میں چین کی حصہ داری سب سے زیادہ14.08 فیصدی ہے۔

وہیں اس سے پچھلے سال 2018-19 میں ہندوستان نے چین سے 4.92 لاکھ کروڑ روپے کا سامان خریدا تھا۔ اس سال کل امپورٹ میں چین کی حصہ داری 13.68 فیصدی تھی۔اب ذرا ایک نظر ہندوستان کے ایکسپورٹ پر ڈالتے ہیں۔ ہندوستان نے مالی سال2019-20(اپریل فروری)کے دوران کل 20.58 لاکھ کروڑ روپے کا ایکسپورٹ کیا اور چین کو 1.09 لاکھ کروڑ روپے کا سامان ایکسپورٹ کیا ہے۔اس طرح چین کے ساتھ ہندوستان کاتجارتی فرق یا نقصان3.31 لاکھ کروڑ روپے کا ہے۔

2jXJx--e1592823619587

چین کے سامانوں پرپابندی لگانے کی مانگ کرنے والوں کے نزدیک اس کی اہم  وجوہات میں سے ایک تجارتی نقصان ہے۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تجارتی نقصان اچھی چیز نہیں ہے اور اس سے گھریلو معیشت  کمزور ہوتی ہے۔ حالانکہ حقائق  پر غور کرنے سے یہ بات درست معلوم  نہیں ہوتی۔

مثال کے طور پراگر ہم ہندوستان کے ساتھ تجارت کرنے والے ٹاپ 25ممالک کی فہرست دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان امریکہ، برٹن اور نیدرلینڈ کے ساتھ تجارت منافع(ٹریڈ سرپلس)بخش  ہیں۔ یعنی کہ ہندوستان ان ممالک سے جتناامپورٹ کرتا ہے، اس کے مقابلے کہیں زیادہ ایکسپورٹ کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہندوستان کی معیشت ان سے بہتر ہے۔

وہیں عراق، انڈونیشیا، نائجیریا، ویت نام،جنوبی افریقہ، تھائی لینڈ جیسے ممالک کے ساتھ ہندوستان کی تجارت نقصان  میں ہے۔ہندوستان کا عراق کے ساتھ تجارتی فرق 1.42 لاکھ کروڑ روپے،جنوبی کوریا کے ساتھ 70.20 ہزار کروڑ روپے، انڈونیشیا کے ساتھ 72.81 ہزار کروڑ روپے، نائجیریا کے ساتھ 42.16 ہزار کروڑ روپے، ویت نام کے ساتھ 14.64 ہزار کروڑ روپے اورجنوبی افریقہ کے ساتھ 16.21 ہزار کروڑ روپے ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہندوستان کی معیشت  ان سے بھی خراب ہے۔

تجارتی  نقصان کا مطلب ہے کہ ہندوستانی چینی سامان زیادہ خرید رہے ہیں، جبکہ اس کے مقابلےچین کے لوگ ہندوستان سے کم سامان لے رہے ہیں۔ حالانکہ یہ بری چیز نہیں ہے، کیونکہ یہ دکھاتا ہے کہ ہندوستانی صارفین نے اپنی صلاحیت کے مطابق جاپانی یا فرنچ یا ہندوستانی مصنوعات  کی جگہ چینی سامان کو ترجیح دی ہے۔

اس طرح دونوں طرف کے لوگوں یعنی کہ چین اور ہندوستانی خریداروں کو فائدہ ہوتا ہے۔حالانکہ لگاتار تجارتی نقصان میں اضافہ ہوناحکومتوں پرسوال کھڑے کرتا ہے کہ کیا وہ اپنے یہاں ایسانظام   نہیں بنا پائے، جو ملک کے لوگوں کی ضروریات اور ان کی خرچ کرنے کی صلاحیت کے حساب سے سامان تیار کر پائے۔

ملک میں مہارت، سائنس اور تکنیک اور روزگار کے موقع فراہم  کرائے بنا اچانک سے تجارت پر روک لگانا ان لوگوں کے لیے بحران پیدا کرنا ہے، جو سستے دام میں سامان خرید کر اپنی ضروریات  کو پورا کر پاتے ہیں۔اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان اچھی خاصی  تعداد میں چین کو اپنے یہاں کا سامان ایکسپورٹ کرتا ہے اور اگرتجارت پر روک لگائی جاتی ہے تو ہندوستان کو اس خمیازہ بھگتنا پڑےگا۔

ہندوستان اپنےکل ایکسپورٹ کا 5.32 فیصدی حصہ چین کو ایکسپورٹ کرتا ہے۔یہ امریکہ کو 16.92 فیصدی ایکسپورٹ اور یو اے ای کو 9.31 فیصدی ایکسپورٹ کے بعد چین ہندوستان کے ذریعے ایکسپورٹ کے لیے تیسرا سب سے بڑاملک ہے۔حالانکہ پابندی سے چین پر خاص اثر پڑنے کا امکان نہیں ہے۔

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، چین اپنے کل ایکسپورٹ کا صرف تین فیصدی حصہ ہندوستان کوایکسپورٹ کرتا ہے۔وہیں چین اپنےکل امپورٹ کا صرف 0.9 فیصدی ہندوستان سے امپورٹ کرتا ہے۔یہ ہندوستان کے ذریعےانگولا سے کیا جانے والا 0.75 فیصدی، کنیڈا سے 0.82 فیصدی، میکسیکو سے 0.86 فیصدی،نیدرلینڈ سے 0.71 فیصدی،عمان سے 0.72 فیصدی اور تائیوان سے 0.84 فیصدی امپورٹ سے صرف تھوڑا زیادہ ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرہندوستان چین کے ساتھ تجارت بند کرتا ہے تو چین کو تین فیصدی امپورٹ اور ایک فیصدی سے کم ایکسپورٹ کا نقصان ہوگا، جبکہ ہندوستان کو پانچ فیصدی ایکسپورٹ اور 14 فیصدی امپورٹ کھونے کا خمیازہ بھگتنا پڑےگا۔

ہندوستان اور چین کے بیچ کس طرح  کے سامان کی تجارت ہوتی ہے

عام طور پر لوگوں میں یہ تصور ہے کہ ہندوستان، چین سے بنا بنایا سامان خریدتا ہے، اس لیے لوگ چینی سامان کو توڑکر اپنی مخالفت کا اظہار کرتےآ رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان زیادہ تر ایسی چیزیں چین سے منگاتا ہے، جس کی بنیاد پر ہندوستان میں سامان تیار کیا جاتا ہے، جسے یا تو ہندوستان میں بیچا جاتا ہے یا پھر ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔

مالی سال2019-20(اپریل-فروری)میں ہندوستان نے چین سے سب سے زیادہ 1.28 لاکھ کروڑ روپے کی الکٹرانک مشنری، آلات اور اس کے الگ الگ  پارٹس خریدے ہیں۔ چین سےکل امپورٹ میں اس کی 29 فیصدی حصہ داری ہے۔

uHU4s--e1592823694699

اس کے بعد دوسرے نمبر پر ایٹمی ری ایکٹر ، بوائلر اور اس سے متعلق مشینیں ہیں، جسے ہندوستان نے چین سے 90.17 ہزار کروڑ روپے میں امپورٹ کیا ہے۔ چین سے کل امپورٹ میں اس کی 20.50 فیصدی حصہ داری  ہے۔تیسرے نمبر پر نامیاتی کیمیا ہیں، جسے 53.09 ہزار کروڑ روپے میں امپورٹ کیا گیا ہے اور چین سے کل امپورٹ کا یہ 12 فیصدی ہے۔ وہیں 18.19 ہزار کروڑ روپے کا پلاسٹک امپورٹ کیا گیا ہے جو کہ امپورٹ کا چار فیصدی ہے۔

اسی طرح ہندوستان نے چین سے 12.73 ہزار کروڑ روپے کے کھاد اور 10.89 ہزار کروڑ روپے کے لوہےیا اسٹیل کے سامان امپورٹ کیے ہیں۔ ہندوستان کے ذریعے چین سے کل امپورٹ میں ان کی حصے داری بالترتیب تین اور 1.5 فیصدی ہے۔وہیں اگر ایکسپورٹ دیکھیں تو 2019-20 میں ہندوستان نے چین کو سب سے زیادہ 18.13 ہزار کروڑ روپے کا نامیاتی کیمیاایکسپورٹ کیا ہے، جو کہ کل ایکسپورٹ کے مقابلے17 فیصدی ہے۔ دوسرے نمبر پر خام دھات، لاوا وغیرہ  ہیں، جو کہ کل 15.08 ہزار کروڑ روپے کا ایکسپورٹ کیا گیا ہے۔

ہندوستان نے 14.48 ہزار کروڑ روپے کے منرل ایکسپورٹ کیے ہیں جو کہ کل ایکسپورٹ کا 13 فیصدی ہے۔ اس کے علاوہ 5.72 ہزار کروڑ روپے کے پلاسٹک کا بھی ایکسپورٹ کیا گیا ہے۔

متوسط طبقہ  اورکم آمدنی والے لوگ ہوں گے متاثر

ہندوستان اور چین کے بیچ تجارت پرپابندی لگانے پر سب سے زیادہ نقصان متوسط طبقہ  اورکم آمدنی والے لوگوں کو ہی جھیلنا پڑےگا۔ اس کی وجہ بالکل صاف ہے۔ ہندوستان میں چینی سامانوں کی مانگ اس لیے زیادہ ہے، کیونکہ دوسرے ممالک کے سامانوں کے مقابلےیہ سستے اور ہندوستان کی بڑی آبادی کی آمدنی کے مطابق رہتے ہیں۔

اس کے برعکس یہاں پر ابھی تک ایسامضبوط سسٹم یا مارکیٹ نہیں تیار ہو پایا ہے جو سستی شرح  پر غریبوں کو سامان مہیا کرا پائے۔موبائل، ٹی وی، فین، کمپیوٹر، اےسی، کولر، واشنگ مشین جیسے ڈھیروں چینی سامانوں کی قیمت دوسرے ممالک کے مقابلے کافی کم ہے۔

ikK8N--e1592823748390

اس کے علاوہ تجارت پرپابندی لگانے سے اس سیکٹر میں کام کرنے والے ہندوستانیوں پر بھی کافی اثر پڑےگا۔امپورٹ،ایکسپورٹ اورکمپنیوں پر اس کا برا اثر پڑےگا۔ عام طور پر چھوٹے دکاندارچینی سامانوں کو دور دراز علاقوں میں لے جاکر بیچتے ہیں، اس لیےپابندی سے ان کے روزگار کو بھی کافی خطرہ پہنچےگا۔

غیرملکی سرمایہ کاری پر خطرہ

اس طرح اچانک تجارت پرپابندی لگانے سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے دل میں ہندوستان کی امیج کافی خراب ہو سکتی ہے۔ معلوم ہو کہ لاک ڈاؤن کے دوران بدتر معاشی حالات سے نکلنے کے نام پر جب مختلف ریاستی حکومتیں لیبر سے متعلق قوانین میں ڈھیل دے رہی تھیں تو انہوں نے یہ دلیل دی تھی کہ اس سے وہ ریاست میں سرمایہ کاری کوبڑھانے میں کامیاب  ہوں گے۔

حالانکہ کوئی بھی سرمایہ کار، بالخصوص غیرملکی، اس رویے پر اتفاق نہیں کرےگا کہ آناًفاناً میں ملک تجارتی معاہدے کو توڑ دے اور ایک جھٹکے میں اپنی پالیسیوں کو بدل دے۔اس سے تجارت کی آسانی(ایز آف ڈوئنگ بزنس)کی رینکنگ بھی متاثر ہو سکتی ہے۔چونکہ ملک اس وقت شدید معاشی بحران  کی حالت سے گزر رہا ہے، ایسے میں اس طرح کی کوئی پابندی ہندوستان کے لیے بہت بڑی پریشانی کھڑی کر سکتی ہے۔