خبریں

لاک ڈاؤن: دی ہندو نے 20 صحافیوں کو نکالا، بند ہو سکتا ہے ممبئی ایڈیشن

کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے میڈیا میں نوکریوں کے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ سوموار کو دی  ہندو کے ممبئی بیورو کے 20 صحافیوں کو ایچ آر کی جانب  سے استعفیٰ دینے کو کہا گیا ہے۔

(فوٹو: رائٹرس/السٹریشن: د ی وائر)

(فوٹو: رائٹرس/السٹریشن: د ی وائر)

نئی دہلی: کووڈ 19 اور مہینوں کے لاک ڈاؤن کا اثرملک  کی معیشت  کے ساتھ مختلف طبقوں  پر دیکھنے کو مل رہا ہے اور میڈیا بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے۔لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے ڈھیروں صحافیوں کی تنخواہ میں کٹوتی کی گئی ہے، کئی لوگوں  کی نوکری جا چکی ہے۔ اس کی تازہ مثال دی  ہندو ہے، جہاں اخبار کے ممبئی بیورو میں 20 صحافیوں کو استعفیٰ دینے اور بیورو کی مدیرانہ ذمہ داریاں کم کرنے کو کہا گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ 142 سال پرانے اس اخبار کا ممبئی ایڈیشن چرچ گیٹ علاقے میں دی  ہندو گروپ  کی ایک عمارت میں 2015 میں دو درجن کے قریب صحافیوں کے ساتھ شروع کیا گیا تھا۔ ان میں اکثر  سینئر سطح کے صحافی تھے، جو ممبئی کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر بھی کور کرتے تھے۔

گزشتہ 22 جون کو نکالے جا رہے صحافیوں کو ایچ آر کی جانب  سے کہا گیا کہ انہیں تین مہینےکی تنخواہ  اور ڈی اے دیا جائےگا۔

دی  ہندو کے صحافیوں کو ایچ آر کی جانب سے  بھیجا گیا خط۔

دی  ہندو کے صحافیوں کو ایچ آر کی جانب سے  بھیجا گیا خط۔

اس سے پہلے پچھلے ہفتے ممبئی بیورو کے زیادہ ترصحافیوں کوزبانی طور پر بیورو چیف کی جانب سے نوکریاں جانے کے بارے میں بتایا گیا تھا اور یہ صلاح دی گئی تھی کہ وہ خود استعفیٰ دے دیں۔ایک سینئر صحافی، جنہیں نوکری چھوڑنے کو کہا گیا تھا، انہوں نے بتایا، ‘تحریری طور پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔’ چونکہ کوئی خط نہیں دیا گیا تھا، تو بیس میں سے 14 صحافیوں نے اپنی نوکری کے بارے میں وضاحت کے لیے انتظامیہ  کو لکھا تھا۔

انہوں نے لکھا، ‘چھٹنی اور ممبئی ایڈیشن کے بند ہونے کی قیاس آرائیوں کے بیچ ہم آپ سے وضاحت چاہتے ہیں۔ ہم سبھی کے لیے اپنی نوکریاں بچانا بےحد اہم ہے۔ ہم سبھی کو اپنے کام پرفخرہے اور ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے اقدار 140 سال پرانے د ی ہندو کی ایمانداری اورمثالیت پسندی  سے میل کھاتے ہیں۔’

اس کے بعد سبھی صحافیوں کو رسمی طور پر ٹرمنیشن لیٹر بھیج دیے، گئے، جس میں انہیں سروس ختم  ہونے پر ملنے والے فائدے کا نقصان نہ ہو، اس لیے استعفیٰ دینے کامتبادل  دیا گیا۔ پریس کاؤنسل نے اس بارےمعاملے میں از خود نوٹس لیتے ہوئےدخل اندازی کی اور اچانک اسٹاف کو نکالنے کے اس فیصلے کے بارے میں مدیران  سے جواب مانگا۔

دی  ہندو کے صحافیوں نے اس بات کی تصدیق  کی ہے کہ ایسا ہی فیصلہ اخبار کے کرناٹک اور تلنگانہ بیورو میں بھی لیا گیا ہے۔کرناٹک دفتر کے ایک صحافی  نے بتایا کہ وہاں کم سے کم نو صحافیوں سے استعفیٰ دینے کو کہا گیا ہے۔وہیں تلنگانہ دفتر میں تقریباً دس لوگوں سے نوکری چھوڑنے کو کہا گیا ہے۔ ان میں حیدرآباد دفتر کے اسٹاف اور کئی ضلعوں کے رپورٹر شامل ہیں۔

جب سے ملک  میں بڑھتے کو روناانفیکشن  کی وجہ سے لاک ڈاؤن لگا ہے، تب سے اس اخبار کی جانب سے اسٹاف  کی  تنخواہ  میں کٹوتی کی جا چکی ہے۔ 22 جون کو ایچ آر سے خط بھیجے جانے سے پہلے ممبئی دفتر کے اسٹاف  کو امید تھی کہ حالات  بدلیں گے۔ایک صحافی  نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘ہم گزشتہ کچھ مہینوں سے بہت محنت سے کام کر رہے تھے۔ بھلے ہی ہم کسی بھی بیٹ کے رہے ہوں، لیکن ہم نے کووڈ 19 کو لےکر جتنی ہو سکتی تھی، اتنی جانکاری دینے کی کوشش کی ہے۔ اب ہمیں نہیں پتہ کہ آگے کیا کیسے ہوگا۔’

کورونا وبا کی وجہ سے‘کاسٹ کٹنگ’ یعنی خرچے کم کرنے کی قواعد کرنے والے میڈیا اداروں میں دی ہندو اکیلا نام نہیں ہے۔گزشتہ تین مہینوں میں اکانومک ٹائمس کی جانب سے اپنے مختلف  بیورو میں خوب چھٹنی کی گئی ہے۔ ٹائمس آف انڈیا نے بھی اپنے کئی ایڈیشن  بند کیے ہیں۔

مہاراشٹر کے اسکال ٹائمس نے اپنے پرنٹ ایڈیشن کو بند کرتے ہوئے 50 سے زیادہ اسٹاف  کو نوکری سے نکالا۔ اسی طرح دی ٹیلی گراف نے بھی اس کے دو بیورو بند کیے اور تقریباً پچاس اسٹاف  کو نوکری چھوڑنے کو کہا۔اس کے علاوہ ہندستان ٹائمس میڈیا گروپ نے بھی ڈیڑھ سو کے قریب اسٹاف  کو کام سے نکالا تھا۔ ڈیجیٹل میڈیا ادارے دی کوئنٹ نے اس کے کئی اسٹاف کو بنا تخخواہ کے چھٹی پر بھیج دیا ہے۔

اپریل مہینے میں جب سے میڈیا اداروں  میں چھٹنی کی شروعات ہوئی تھی، تین صحافی  تنظیموں دی  نیشنل الائنس آف جرنلسٹس، دہلی جرنلسٹ یونین اور برہن ممبئی جرنلسٹ یونین نے چھننی اور تنخواہ  میں کٹوتی کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا اور انہیں ‘غیر انسانی’ اور ‘غیرقانونی’ بتایا تھا۔

حالانکہ یہ پہلی بار ہے کہ کسی ریگولیٹری اکائی (پریس کاؤنسل) کی جانب سے چھٹنی کے فیصلے پر میڈیا ادارے کو نوٹس دیا گیا ہے۔