ادبستان

گریش کرناڈ: جس نے تخیل اور اسطوری کلامیہ سے عصری مسائل کو نمایاں کیا

گریش کرناڈ کے ڈراموں میں بےحد خوبصورت توازن دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں وہ ہندوستان کے اور مبینہ سنہری ماضی  یا اسطوری دنیا کو خام موادکی طرح استعمال تو کرتے ہیں، لیکن اس کے پس پردہ عصری مسائل یا عصری  سماج کے تضادات کو نمایاں کرتے ہیں۔

گریش کرناڈ [مئی 1938- جون 2019] (فوٹو بہ شکریہ: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس)

گریش کرناڈ [مئی 1938- جون 2019] (فوٹو بہ شکریہ: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس)

ادب اپنی کسی بھی صنف  میں انسان اور معاشرت کے رشتوں  کو ہی منعکس  کرتا ہے اور اس پورے عمل  میں ادیب کو اپنے اظہار  سے زیادہ  تخلیقی نجات کی سرخوشی ملتی ہے۔بعض ایسی  ہی تخلیقی سرشاری کے عمل کو ہم گریش کرناڈ کی شخصیت اور تخلیق میں شرمندہ  تعبیر ہوتےدیکھتے ہیں۔ ورنہ ایسی تو کوئی خاص وجہ محسوس نہیں ہوتی کہ ریاضی کے طالبعلم کو اعدادوشمارکے ساتھ کھیلنے سے زیادہ لفظوں کے ساتھ تخیل کی اڑان میں اپنے وجودکا اثبات محسوس ہو۔

گریش کرناڈہندوستانی ڈرامائی ادب کے ایسےستون ہیں، جنہوں نے اپنے ڈراموں سے نہ صرف قارئین کے ساتھ ایک بامعنی مکالمہ  کیا بلکہ ہندوستانی رنگ منچ کو ایک ایسی توانائی سے فراہم کی کہ ملک اور بیرون ملک  میں ہندوستانی ڈراموں کو ایک نئی پہچان ملی۔مہاراشٹر میں پیدا ہوئے کرناڈ بچپن سے ہی عوامی ڈراموں کی روایت اور تھیٹروں کے ماحول  آشنا تھے۔

اپنے ایک انٹرویو میں کرناڈ کہتے ہیں کہ کیسے بچپن میں جب بجلی کی سہولت محدودتھی اور تاریکی روزمرہ  کا بڑا حصہ ہوا کرتی تھی، توتفریح  کا ایک واحد ذریعہ کہانیاں ہی  تھیں۔چاہے وہ بچوں کے آپس کی کہانیاں ہو یا گھر میں ماں یا دادی نانی والی کہانیاں، مطلب یہ ہے کہ تخیل اور اسطوری دنیا سےیادوں  کے موتی ڈھونڈ لانے کی تخلیقی خواہش کے پس پردہ کرناڈ کے بچپن کی یادوں  کا ایک اہم  رول  رہا۔

کرناڈ کی تخلیقی خواہش ایک ڈراما نگار کے ساتھ ہی کئی دوسری اصناف میں بھی نظر آتی ہے۔ ایک کامیاب اداکار، ہدایت کار، فلم نویسی، ٹیلی ویژن، شاعری اور بھی بہت کچھ…فلم  صنعت میں سن 1969 میں فلم سنسکار (مشہور کنڑ کہانی کار یو آر اننت مورتی کے ناول سنسکار  پرمبنی) میں برہمن  پرنسپل کے رول  میں کرناڈ نے داخلہ لیا تھا، جو آگے چل کر عظیم ہدایت کار شیام بینیگل کی منتھن اور نشانت جیسی فلموں کے لازمی  کرداروں میں بدل گئا۔

خود کرناڈ نے کئی فلموں جیسے اتسو، گودھولی میں کہانی لکھنےکے ساتھ ساتھ ہدایت کاری  بھی کی۔ ایک شاعرکے اپنے رول  کے بارےمیں کرناڈ نے بتایا تھا کہ شاعری  ان کے لیے بے حد شعوری کاوش تھی اس لیے ایک شاعرکےطور پر انہوں نےکبھی راحت محسوس  نہیں کی۔

حالانکہ یہ بات اور ہے کہ نوجوان  کرناڈ کو انگریزی کاشاعر بن کر انگلینڈ میں بسنے کی دلی تمنا تھی، لیکن جب لکھنے کاوقت آیا تو اس کونوشتہ تقدیرکہیں یا کوئی غیر مرئی منصوبہ ، انہوں نے کنڑ کو ہی اپنے تخلیقی اظہار کے لیے منتخب کیا۔زبان کے انتخاب کا یہ منصوبہ  خودکرناڈ  کے کنڑسےلگاؤ کی دلیل  ہے، کیونکہ مادری زبان  تو ان کی کونکنی تھی۔

اپنے پہلے ناٹک ییاتی (1961)کے بعد بھی کنڑکےادبی سماج میں کرناڈ کی صلاحیت اور کنڑ پر ان کے عبور کو لےکر ایک تنازعہ  کی صورت بنی ہوئی تھی۔اس کے بارے میں خود کرناڈ نے کہا کہ کیسے جب انہو ں نےقرون وسطیٰ کے بھکتی سنت بسونا  (جدید کرناٹک حلقہ کے)اور لنگایت کمیونٹی  کو بنیاد بناتے ہوئے کنڑ میں تالیدنڈ لکھا، تب اس کے پیچھے یہ  بات بھی تھی کہ کنڑ ادبی سماج کے سامنے اپنی اس صلاحیت کا مظاہرہ کریں کہ وہ اسی سماج کے بارے میں انہی کی زبان کا ااستعمال  کرتے ہوئے لکھ سکتے ہیں اور بلاشبہ اچھا اور مصدقہ  لکھ سکتے ہیں۔

اپنے تمام کرداروں میں کرناڈ کو اصل میں جو چیز سب سے زیادہ  پسند تھی، وہ ڈراما لکھنا ہی تھا۔ باقی سب ان کے لیے محض گزر بسر کاذریعہ تھے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا؛

‘میں ایک اداکار یاہدایت کار نہیں بننا چاہتا۔ لیکن وہ سب میں صرف اپنے گزر بسرکے لیے کرتا ہوں… ایک ڈراما نگار کے طورپر بہت سارے تخیلاتی سلسلے ٹیلی ویژن  سیریل  کرنے کےعمل  میں ٹوٹ جاتے ہیں۔’

ایک ڈراما نگار کےطور پر کرناڈ کا جائزہ کئی معنوں  میں نہ صرف ان کی ادبی دلچسپی اور صلاحیت کی طرف توجہ دلاتی ہیں، بلکہ ان کے وقت  کے کچھ بےحدپیچیدہ  سماجی سیاسی سوالوں کو بھی سامنے لاتے ہیں۔جولیا لیسلی کرناڈ کے ڈراموں کے بارے میں لکھتی ہیں، ‘ایک پہلو جو کرناڈ کے تمام ڈراموں میں مسلسل نظرآتی ہے وہ ہے اپنے وقت کے کچھ بےحد اہم موضوعات کو سامنے لانا۔’

پھر جیسا کہ خودکرناڈ بھی یہ واضح کرتے ہیں، ‘ڈرامے کی اصل قدروقیمت اس بات میں چھپی ہے کہ کس طرح  سے یہ کسی نہ کسی سطح پر اپنے سماج کے مرکز میں پوشیدہ المیے اور تضادات کو نمایاں کرتا ہے اور اس کے بارے میں بات کرتا ہے۔’اور شاید یہی وجہ ہے کہ کرناڈ کے ڈراموں میں بیانیہ  کی بنیاد بھلے ہی اسطوری یا لوک کتھا یا تاریخ  رہتی  ہو،لیکن اس کے پس پردہ  عصری مسائل اورعصری سماج کے تضادات ہی ان کے موضوعات ہیں۔

یہ بڑا ہی خوبصورت توازن ان کے ڈراموں میں نظرآتا ہے جہاں وہ ہندوستان کے اورسنہری ماضی یا تاریخ کو خام مواد  کی طرح استعمال تو کرتے ہیں،لیکن ان کے بیانیہ کی تہیں موجودہ نسل  کو دھیان میں رکھ کر بنی گئی ہوتی ہیں۔اور اس کی سب سے خوبصورت مثال ان کے پہلے ناٹک ییاتی (1961) میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس ناٹک میں کرناڈ نے مہابھارت کے ایک واقعہ  کوبنیاد بناتے ہوئے  وجودی ڈسکورس کوپیش کیا۔

یہاں پر ییاتی، جس کو شکر منی کے غصے سےہمیشہ کے لیے بوڑھاہو جانے کا شراپ  ملا تھا، اپنے بیٹوں  سے جوانی کی درخواست کرتا ہے۔ دیکھنے میں تو یہ کہانی اسطوری کلامیہ کے ایک واقعہ  بھر کونمایاں کرتی نظر آتی ہے، لیکن کہیں گہرا ئی میں جاکر دیکھنے پر یہاں دو نسلوں کے بیچ کے تصادم  اور تذبذب  کو ڈراما نگار نے بڑی ہی کامیابی سےپیش کیا ہے۔

اس سے بھی آگے جاکر یہ کہانی عصرجدید کے نوجوانوں کے اپنے وجود کے اثبات کا مسئلہ بن جاتی ہے، جن میں مسلسل ذہنی اور اصولی  تصام جاری رہتا  ہے۔کرناڈ نے ییاتی کےلکھنے کی  دو دہائی بعد اس بارے میں لکھا تھا،

ییاتی کو لکھتے وقت میں نے اس ناٹک کو بس اپنے حالات سے ہجرت  کی نظر سے دیکھا تھا، لیکن آج پیچھے مڑ کر دیکھنے پر لگتا ہے کہ ییاتی کے اس اسطور نے کتنی باریکی اور خوش اسلوبی سے میرے اپنےاندر کے تصادم اورخدشات کو نمایاں کیا تھا۔

ییاتی کے بیٹوں کی طرح ہی مجھ سے بھی اپنے مستقبل کی، اپنے نوجوان خوابوں کی قربانی کی امیدیں کی جا رہی تھیں، جس سے میرے بزرگوں کے دل کاسکون قائم رہے۔

آگے چل کر کرناڈ نے اپنے معروف ناٹک تغلق (1964) میں بھی تاریخ کے بوسیدہ اوراق  میں جاکر ایک ایسےکردار  کو منتخب کیاجو نہ صرف تاریخی  تھا بلکہ اپنے اظہاریہ میں کرناڈ کے وقت کے المیہ کی علامت تھا۔محمد بن تغلق، دہلی سلطنت کے ایسے سلطان کےطور پر جانے  جاتے ہیں جوانتہائی مثالیت پسندیکا شکار ہوئے بھی ایک حکمراں کے طور پر ناکام  رہے۔

دیکھا جائے تو بہت کچھ یہ تشخص شیکسپیئر کے ٹریجڈی ڈراموں کے کرداروں  کی طرح ہے، جو اکثر اپنی شخصیت کی کسی بڑی ہی معمولی  نقص کی وجہ سےبڑی  بھول کر بیٹھتا ہے اور آخرکار ایک المناک انجام  کے لیے ملعون  ہو جاتا ہے۔تغلق کےبیانیہ سے ڈراما نگار نے سلطان تغلق کےکردار میں ایک طرح  سے نہرو کے زمانے کی مثالیت کے دور اور اس کی  مبینہ ناکامی کے بعد کے مایوس کن حالات کو ایک علامت کےطورپرپیش کیا ہے۔خود کرناڈنے اس ناٹک کے بارے میں لکھا تھا:

‘جو بات مجھے تغلق کے تناظر میں سب سے مؤثر لگی وہ یہ تھی کہ کیسے آج کے تناظرات سے اس کے بیانیہ سے خوشگوارمماثلت دیکھنے کو ملتی ہیں۔

یہ تو ایک تاریخی سچ ہے کہ دہلی سلطنت کا سب سے مثالی اور  دانشمند حکمراں ہونے کے ساتھ ہی محمدبن تغلق دہلی سلطنت کی سب سے بڑی ناکامی بھی تصور کیا جاتا ہے۔لیکن اپنے اقتدار کے محض 20 برسوں کے اندر ہی، لامحدود امکانات اورصلاحیت سے بھرپور یہ سلطان، مٹی میں مل گیا۔

اور یہ شاید اس کی بے انتہا مثالیت پسندی کے ساتھ ہی  اس کی شخصیت کی بعض فیصلہ کن  خامیوں کے وجہ سے بھی ہوا، مثلاً اس کا صبروتحمل، بربریت، اس کا یہ عقیدہ تھا کہ صرف اسی کے پاس تمام مسائل کے صحیح حل ہیں وغیرہ۔

مجھے یہ محسوس ہوا کہ آزادی کے 20 سالوں کے بعد مطلب  1960 آتے آتے، ہم بھی کہیں نہ کہیں اسی راستے پر گامزن ہیں۔ گزرے ہوئے 20 سال تغلق کے 20 سالوں کے ہی مماثل لگتے ہیں۔’

اسی طرح اپنے دوسرےڈراموں یتھا ما نشاد(1964)،ہیودن (1971), انجملگے (1977)،بلی(1980)،ناگ منڈل(1988)، رکت کلیان (1990)،ٹیپو سلطان کے سوپن (1997) میں کرناڈ نے اسطور، لوک کتھا اور تاریخ  کو بنیادبناکر اپنے وقت  کے اہم سوالوں کو نمایاں کیا ہے۔

کرناڈ کے ڈراموں کی ایک اور سب سے اہم خصوصیت یا کامیابی عورت کے وجود کو حقیقی صورت میں جگہ دینے میں دیکھی جا سکتی ہے۔کرناڈ سے پہلے بھی کنڑ کے ڈراما نگاروں نے عورت کوکردار کے طورپرڈراموں میں جگہ تو ضرور دی تھی، لیکن عورت کےکردار  کو ایک خودمختار صورت  دینے اور اس کی آزادی کےسوالوں کو نمایاں کرنے کا کام بلاشبہ کرناڈ کے ڈراموں نے کیا۔

کرناڈ کے ڈرامہ ' دی فائر اینڈ دی رین ' کا منظر،فوٹو بہ شکریہ،bhisham pratap padha/Flickr (CC BY 2.0

کرناڈ کے ڈرامہ ‘ دی فائر اینڈ دی رین ‘ کا منظر،فوٹو بہ شکریہ،bhisham pratap padha/Flickr (CC BY 2.0

ان کے ڈراموں میں بھلے ہی عورت کے کردار کتنے بھی وقت  کے لیے کیوں نہ آئے ہوں، اس کی تشکیل کرناڈ نے ایک آزاداور باشعور کردارکےطور پر کی، جو اپنے پدری سماج میں بھی سوچ  اورعملی سطحوں  پرآزاد ہے۔مثلاً، کرناڈ کے ناٹک ہیودن (سنگیت ناٹک اکادمی اور بھارتیہ ناٹیہ سنگھ کے کملا دیوی ایوارڈ یافتہ) میں بنیادی سوال  کتھاسرت ساگر کی کہانی سے ماخوز عقل  اور جسم  کے انتخاب سے متعلق  ہے، جہاں پر فاتح  عقل  کو ہی مانا گیا ہے کیونکہ انسان بدن  سے نہیں بلکہ عقل  سے پہچانا جاتا ہے۔

لیکن اس ناٹک میں بنیادی طور پر پدمنی کے ذہنی اورجسمانی خواہشات کو پیش کیا گیا ہے۔ برہمن دیودت کیذہانت اور دانش مندی پدمنی کوتسکین نہیں دےپاتی اور اس کی کشش مسلسل فولادی جسم اور مردانگی  سے بھرپور کپل کے لیے بنی رہتی ہے۔اپنے شوہر سے الگ کسی دوسرے مردکے لیے یہ کشش  صرف  پدمنی میں ہی نہیں بلکہ، ناگ منڈل کی رانی اور بلی ناٹک کی جین راجکماری میں بھی ہے۔

اپنی اس کشش کو ہمیشہ کے لیے پا لینےکی خواہش میں یہ عورتیں کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار رہتی ہیں۔ کرناڈ کے تحریر کی خصوصیت یہاں اس بات سے ابھر کر آتی ہے کہ کہیں بھی وہ ان عورتوں کےکردار پر تنقیدی فیصلہ نہیں سناتے۔اس کےبرعکس  ان  کی  کردار نگاری  کی خصوصیت ہی ہے کہ قاری  یاناظر ان عورت کرداروں  کے لیے ہمدردی محسوس کرتا ہے۔

دیکھا جائے تو ان ڈراموں میں عورت کردار کے اس جنسی شعوراور خواہش سے ہی بیانیہ  کی نمو پذیزی کو دکھلایا جاتا ہے اور اس طرح کرناڈ ایک ڈراما نگار کےطور پر ان عورت کرداروں کو ان کی مکمل شخصیت اور وجود دیتے ہیں، یوں کہیں کہ ایک طرح سے ایجنسی دیتے ہیں۔اسی تناظر میں ایک اور بات جو نمایاں ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان عورتوں  کا جس مردکے لیے غیر متوقع کشش دکھلایا جاتا ہے، وہ مرداکثر پسماندہ، غیر برہمن کمیونٹی  سےآتے ہیں۔اس طرح  کرناڈ ڈراموں میں ذات پات اورجنس کے مسائل  کو ایک ساتھ اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو ان کے ڈراموں کو تہہ داراور حقیقت پسندانہ بناتے ہیں۔

مجموعی طور پر غور کرنے سے کرناڈ کی زندگی اور ان کی تخلیقی دنیا کی ایک بڑی ہی دلچسپ بات جو سامنے نکل کر آتی ہے  وہ یہ کہ کرناڈ کو جادو یا جادوئی دنیا جیسےتصورات بہت پسند تھے۔اپنی ساتھی اوردوست ارندھتی ناگ کو دیے  ایک انٹرویومیں، کرناڈ کہتے ہیں، ‘مجھے جادوئی تخیلات میں بہت دلچسپی ہے۔ کاش کہ میں ایک جادوگر ہوتا۔ جادو ہمیں اس بات کا یقین  دلاتی ہے کہ ایک بےحد ہی خوبصورت اور حیرت انگیز دنیا کی تخلیق یا اس کاتصورممکن ہے۔’

اور دیکھا جائے تو کرناڈ نے اپنی حیرت انگیز تخلیقی صلاحیت  اور اپنی کہانیوں سے  قارئین کے لیے،ناظرین کے لیے، اسٹیج  پر اس جادو کی دنیا کو ہی توشرمندہ تعبیر  کیا تھا۔

(آدتی بھاردواج دہلی یونیورسٹی  میں ریسرچ اسکالرہیں۔)