ادبستان

ہندوستان اور چین کے دوستانہ تعلقات کی مثال ہے ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی

خواجہ احمد عباس کی سنیمائی زندگی اور ان کےتخلیقی استعداد کے بارے میں بہت سی باتیں کہی اورلکھی جا چکی ہیں، لیکن آج ہندستان اور چین کے بیچ جاری کشیدگی میں ان کےناول ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی کی اہمیت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔

(فوٹوبہ شکریہ: cinestaan.com)

(فوٹوبہ شکریہ: cinestaan.com)

جب دو پرانے دوستوں کے بیچ دشمنی پنپنے لگے، تو انہیں اپنی دوستی کے دنوں کو یاد کرنا چاہیے۔ یہ بات جب دو ملکوں کے درمیان ہو، تب تو ان کے لیے اپنے دوستی کے دنوں کو یاد کرنا اور اہم ہو جاتا ہے۔پرانے دوستوں کی نئی دشمنی سے نقصان ان کے چاہنے والوں کا زیادہ ہے۔ اسی طرح جیسے ادے پرکاش اپنی شاعری‘دو ہاتھیوں کی لڑائی’ میں کہتے ہیں –

دو ہاتھیوں کی لڑائی میں سب سے زیادہ کچلی جاتی ہے گھاس۔

ان دنوں چین کے بائیکاٹ کاچرچہ زوروں پر ہے۔ چینی سامانوں سے لےکر چینی موبائل ایپ تک سب اس کی زدمیں ہیں۔ ہندستان اور چین کی سرحد پر بھی اس بیچ کشیدگی دیکھی سنی گئی۔ دونوں ممالک کے بیچ رشتوں کا آج ایک دوریہ ہے، اور ایک زمانہ وہ بھی ہوا کرتا تھا، جو مجھے آج بہت یاد آ رہا ہے۔

وجہ یہ ہے کہ پچھلے دنوں ہندوستانی سنیما کی اس عظیم شخصیت کی سالگرہ تھی، جن کے بارے میں اگریہ بھی کہا جائے کہ سوویت یونین سمیت دنیا کے تمام سوشلسٹ ممالک میں راج کپور کو لےکر جو دیوانگی تھی اس میں راج کپور سے زیادہ  ان کی خدمات تھی، تو کم ہوگا۔ ان کا نام ہے خواجہ احمد عباس۔

یوں تو ان کی سنیمائی زندگی، ان کے تخلیقی استعدادکے بارے میں بہت سی باتیں کہی اورلکھی جا چکی ہیں، لیکن آج مجھے ان کی معنویت‘ہندستان اور چین’ کے بیچ جاری تلخ ماحول میں زیادہ  محسوس ہوتی ہے۔یہ ان کی معنویت ہی ہے جو مجھے ان کے سال1944 میں لکھے گئے مشہور ناول‘اینڈ ون ڈڈ ناٹ کم بیک’کی جانب کھینچ رہی ہے۔ دو ملکوں کے بیچ اس مشکل ساعت میں عباس صاحب کی  یہ ادبی دخل اندازی ایک ماحصل کی طرح ہے، جس کی طرف  ہمیں دیکھنا چاہیے۔

اس کے ہندی ترجمہ ‘ڈاکٹرکوٹنس کی امر کہانی’ پر اسی نام سے ہندوستانی اور انگریزی میں راج کمل کلا مندر کی جانب سے سے وی شانتارام نے مارچ، 1946 میں فلم بناکر ہندوستانی سنیما میں بایوپک فلموں کی شروعات کی تھی۔ خود وی شانتارام نے دونوں زبانوں کی فلم میں مرکزی رول  نبھایا تھا۔

کیا تھی کہانی

قصہ اس وقت کا ہے جب چین اور جاپان کے بیچ جنگ چل رہا تھا، چینی فوج  بڑی تعداد میں ہلاک  ہو رہے تھے۔زخمی فوجیوں کو علاج ملنا مشکل ہو رہا تھا، چین کے پاس ڈاکٹروں کی کمی تھی، چین نے اپنے کئی پڑوسی ممالک کے سامنے مدد کے لیے ہاتھ پھیلایا تھا۔ اسی مرحلے میں چین نے اس دوران برٹش انڈیا کی طرف بھی امید بھری نظروں سے دیکھا تھا۔

سال 1938 کی بات ہے۔انڈین نیشنل  کانگریس کے رہنما جواہر لال نہرو اور سبھاش چندر بوس کی  دخل اندازی  سے ہندوستان کی طرف سے ایک پانچ رکنی میڈیکل ٹیم کوچین بھیجا گیا۔ نہرو کاورلڈ ویو کچھ اس طرح تھا کہ وہ سامراجی طاقتوں کے خلاف لڑ رہے کسی بھی ملک کی مدد کے لیے کھڑے تھے۔

جاپان اس وقت اپنے سامراجی منصوبوں کو بڑھاتا چلا جا رہا تھا، اس وقت تک بوس کا رجحان بھی کانگریس کی پالیسیوں میں تھا۔

ڈاکٹر کوٹنس اور ہندوستانی میڈیکل ٹیم  کے ساتھی

چین کے یینان صوبے میں بھیجی گئی پانچ رکنی ٹیم  کے اراکین میں ڈاکٹر مدن موہن لال اٹل، ڈاکٹر چولکر، ڈاکٹر مکھرجی، ڈاکٹر بےجوائے کمار بسو اور ڈاکٹر دوارکاناتھ شانتارام کوٹنس تھے۔ڈاکٹر کوٹنس مہاراشٹر کے شولاپور میں پیدا ہوئے تھے، میڈیکل کے شعبے میں کم عمر میں ہی نام کمانے والے ڈاکٹر کوٹنس نے اعلیٰ درجے کے تحقیقی کام پورے کیے تھے اور جب انہیں اپنی پڑھائی کواصل میں شرمندہ تعبیر کرنے کا موقع ملا، تو انہوں نے وہاں بھی اپنی اہلیت  اور اپنے سروکار دونوں ثابت کیے۔

اپنے والدکو راضی کرکے وہ چین کے لیے نکل گئے، والدچاہتے تھے کہ کوٹنس خود کی کلینک کھول کر شولاپور میں ہی پریکٹس کریں، لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ پنڈت نہرو سے متاثر کوٹنس کو کوئی روک نہیں سکا۔عباس صاحب لکھتے ہیں کہ ،

وہ بہ مشکل سوتے تھے، زخمی فوجیوں کی دیکھ ریکھ میں وہ کسی کسی دن پورے بیس گھنٹے کام کرتے تھے۔ ان کے ساتھی ڈاکٹر ان کے لگاتار کام میں مشغول رہنے سے حیران ہوتے تھے۔

موت تک خدمت

ہندوستانی میڈیکل ٹیم میں چینی فوجیوں کی علاج میں مدد کے لیے چین کی ایک تربیت یافتہ نرس بھی شامل ہوتی ہے۔ نام تھا گؤ کنگلن  ڈاکٹر کوٹنس اور کنگلن ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور پھر شادی کر لی۔لیکن وقت پھر کروٹ لیتا ہے، چینی فوجیوں میں ایک پراسرار وبائی مرض  پھیلنے لگتا ہے، ہندوستانی ڈاکٹر جی جان سے انہیں بچانے میں لگ جاتے ہیں، جس کی قیمت آخرکار ان میں سے ایک ڈاکٹر کوٹنس کو ہی چکانی پڑتی ہے۔ وہ بھی اسی بیماری سے متاثر ہو جاتے ہیں۔

کوٹنس ایک ویکسین بنانے کی کوشش کر رہے تھے، جس کا تجربہ انہوں نے خود پر کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ آخرکار اپنے مقصد میں تو کامیاب ہو جاتے ہیں، ان کے کے ذریعے بنائی گئی ویکسین فوجیوں کو تیزی سے ٹھیک کرنے لگتی ہے، لیکن اس بیچ ان جان چلی گئی۔غورطلب ہے کہ9 دسمبر، 1942 کو جب ان کی موت ہوئی، تب انہیں چین آئے ہوئے لگ بھگ چار سال ہو گئے تھے، پسماندگان میں ان کی بیوی کنگلن تھیں اور ان کا ایک نو مہینے کا بیٹا، جس کا نام تھا ینہوا ۔

اپنے بیٹے کے اس نام کو رکھنے کے پیچھے بھی ڈاکٹر کوٹنس کا ایک پیغام  چھپا ہوا تھا جو آج ہندستان اور چین کو یاد کرنا چاہیے۔ یہ دونوں ممالک کے نام کو ایک ساتھ لیے جانے کی علامت ہے۔ ڈاکٹر کوٹنس کی موت کا ماتم  اس چین کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ماؤ نے بھی منایا تھا۔

چین نے ہندوستان کی مدد کو کبھی بھلایا نہیں

اس کے بعد پانچ سال تک زخمی چینی فوجیوں کا علاج ہندوستانی ڈاکٹر کرتے رہے۔ اگست، 1943 میں ڈاکٹر بے جوائےکمار بسو ہندوستان لوٹ آئے، ان کے واپس آتے ہی ہندوستانی طبی مشن مکمل ہو گیا۔ڈاکٹر کوٹنس کی بیوی کی دوسری شادی پارٹی کے دباؤ میں کرا دی گئی۔ چین نے سال 1976 میں ہیبیئی صوبےکے شیجیاجوانگشہر میں واقع نارمن بیتھن انٹرنیشنل پیس ہاسپٹل میں ڈاکٹر کوٹنس کے نام پر ایک میموریل ہال کی تعمیر کروائی۔

سال 1987 میں ڈاکٹر بسو کی یاد میں بھی ایک میموریل  بنوایا گیا۔ اس مشن کے پچاس سال پورے ہونے کے موقع پر چین کے اسی شہر میں ہندوستانی ٹیم کے پانچوں ڈاکٹروں کومعنون ایک‘میموریل ہال’ بنوایا گیا۔ یہاں تک کہ  چین اور ہندوستان دونوں ممالک کی حکومتوں  نے ڈاکٹر کوٹنس کے نام ایک اسٹامپ بھی جاری کیا۔

جب خواجہ احمد عباس کو ملا وی شانتارام کا ساتھ

اس طرح خواجہ احمد عباس کی تخلیق ہندوستان اور چین کے بیچ رشتوں  پر بات چیت کرتے وقت ضرور یاد کی جانی چاہیے۔ وی شانتارام نے جب ڈاکٹرکوٹنس پر فلم بنائی تو انہوں نے عباس سے اسکرین پلے بھی لکھنے کو کہا۔عباس نے کوٹنس پر کتاب لکھنے کے بعد شانتارام کو جب پڑھنے کے لیے دی، تو شانتارام کوٹنس کی کہانی سے پوری طرح پرجوش ہو گئے تھے، انہوں نے فوراً ہی کوٹنس پر فلم بنانے کی ٹھان لی۔ ان کے اس کام میں ڈاکٹربسو نے بھی مدد کی تھی، بالخصوص اس وقت کی حقیقی  تصویریں دستیاب کرانے میں۔

شانتارام نے پنڈت نہرو، وجئےلکشمی پنڈت اور یہاں تک گاندھی جی کو بھی اس بارے میں خط لکھا تھا کہ وہ کوٹنس پر فلم بنانا چاہ رہے ہیں۔ نہرو احمد نگر جیل میں ہونے کی وجہ سے جواب نہ دے سکے تھے۔اس کے بعد شانتارام نے ڈاکٹر کوٹنس پر اپنی فلم کی اسکریننگ جب لاہور میں کی، تب انہیں کئی چٹھیاں ملیں جس میں انجینئرنگ کے طلبا نے کہا کہ انہوں نے اس فلم کو دیکھ کر میڈیکل کی پڑھائی چنی۔

اس طرح پہلے خواجہ احمد عباس اور پھر وی شانتارام کی کوشش سے ایک ایسی سنیمائی حصولیابی ہندوستانی فلم صنعت میں موجود ہے، جس کے ذریعے آج کے ہندستان اور چین اپنے دوستانہ ماضی پر نظر ڈال کر مستقبل  سے متعلق فیصلے لے سکتے ہیں۔

(مضمون نگارالہ آبادیونیورسٹی  میں ریسرچ اسکالر ہیں۔)