ادبستان

قصہ 1899 کے ایک مشرقی کتب خانہ کا

تقسیم کے بعد  بہت سے لوگ پاکستان چلے گئے۔ جو ہندوستان میں رہے وہ فکر مند ہونے لگے کہ کتب خانے کا مستقبل کیا ہو۔ 1960  میں 16 بیل گاڑیوں میں کتب خانے کی  7914 جلدیں لادی جانے کے بعد وہ پٹنہ کے خدا بخش لائبریری لائی گئیں جہاں  وہ آج بھی محفوظ ہیں۔

فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹڑ

فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹڑ

آج کل ہندوستان میں متعدد کتب خانے، بالخصوص اردو کے کتب خانے، خستہ حال ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن ایک ایسا زمانہ ہوا جب نہ صرف بڑے شہروں میں بلکہ چھوٹے قصبوں میں بھی کتابیں بڑے شوق سے پڑھی، لکھی، اور اکٹھی کی جاتی تھیں۔ ایسے ایک کتب خانے کو لے کر میں نے انگریزی میں ایک مضمون لکھا؛باؤنڈ فار ہوم: بکس اینڈ کمیونٹی ان اے بہاری قصبہ ،جوساؤتھ ایشیا: جرنل آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز میں شائع ہوا ہے۔اس جرنل کے اسی نمبر میں جنوبی ایشیا کے الگ الگ کتب خانوں کے بارے میں کئی اور مضامین چھپے ہیں۔ میں اردو پڑھنے والوں کے لیے اپنے مضمون کا ایک خلاصہ یہاں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

بہار میں دیسنہ(یا دسنہ)نام کا ایک قصبہ ہے، بہار شریف سے 14کلو میٹر کے فاصلے پر۔ انیسویں صدی کے آخری ایام میں، اس قصبے میں کچھ نوجوانوں نے ایک ادارہ قائم کر کے اس کا نام انجمن الاصلاح رکھا۔ تقریباً ایک ہزار کی آبادی کے اس دور افتادہ قصبے میں، جہاں تک نہ ریل پہنچتی تھی نہ بس، اس انجمن نے ایک ایسا کتب خانہ (کتب کانہ الاصلاح)تعمیر کیا اور اس کو کتابوں سے بھر دیا جو بقول مولوی عبد الحق ؛

ایک ایسا اچھا کتب خانہ ہے جو بڑے بڑے شہروں میں بھی نہیں۔

یہ کیسے ہوا اور اس کے کیسے نتیجے نکلے، یہ میرے مضمون کا موضوع ہے۔

انجمن کے شروعاتی دنوں میں اس میں شاید کچھ خاص نہیں تھا۔ یعنی کہ 1899 میں ایک آدھ ناول اور قصے کی کتابیں جمع کر کے کچھ دوستوں نے ان کو ایک الماری میں رکھا جو عبد الحکیم نام کے ایک ممبر کے گھر میں تھی۔ مگر اس معمولی آغاز کے بعد دیسنہ کے بہتیرے لوگ، جوان اور بزرگ دونوں، انجمن کے کام میں جٹ گئے۔1904 تک کتب خانے میں کوئی آٹھ سو کتابوں کے علاوہ متعدد اخبارات اور رسائل جمع کیے گئے تھے۔30 کی دہائی تک، جب تک کتب خانے کے لیے ایک عمارت تعمیر کی گئی تھی، یہ تعداد تقریباً چار ہزار ہو گئی تھی، اور 1960 تک جب ساری کتابیں پٹنہ کے خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری بھیجی گئیں تو ان کی تعداد اس سے دگنی ہو گئی تھی۔

ان جلدوں کی ایک اکثریت اردو میں شائع کردہ کتابیں تھیں مگر ان کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی، اور ہندی میں چھپی ہوئی کتابیں بھی تھیں اور کوئی ڈیڑھ سو قلمی نسخے۔ انجمن کے کتب خانے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ جبکہ اس زمانے میں عموماً کتب خانے صرف کتابیں جمع کیا کرتے تھے، اس انجمن نے کتابوں کے ساتھ ساتھ رسالوں اور اخباروں کا بہت بڑا ذخیرہ اکٹھا کیا جس میں اردو کے بہت سارے اہم رسالوں کی مکمل فائل موجود تھی۔

لائبریری کی کتابوں کو چھوڑ کر ایک اور بات قابلِ ذکر ہے اور وہ ہے ان کتابوں کو فراہم کرنے کا طریقہ۔ اس دور کے دوسرے قصبوں کے رہنے والوں کی طرح دیسنوی بھی ہندوستان کے الگ الگ شہروں میں کام کے سلسلے میں بس گئے تھے۔ اس صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لائبریری کے ناظم عبد الحکیم نے ایک ترکیب سوچی۔ دیسنہ میں بیٹھے ہوئے جب کوئی کتاب اس کو دلچسپ لگی تو وہ ناشر کو لکھا کرتے تھے کہ فلاں شخص کے پاس وی پی کی جائے، اور اس کا یہ ذمہ تھا کہ اگلی بار جب دیسنہ آئے تو کتاب لے کر آئے۔ شہاب الدین دیسنوی کے مطابق،

اس طریقہ کار کا دلچسپ نتیجہ کبھی اس طرح ظہور میں آتا کہ چھٹیوں میں کوئی پیشکار صاحب بغل میں فلسفہ کی کتاب دبائے ہوئے یا پولیس کے حوالدار صاحب تاریخِ ہسپانیہ لئے ہوئے یا وکیل صاحب تاریخ الاطبّا لے کر لائبریری میں داخل ہوتے دکھائی دیتے۔ یہ کتابیں رجسٹر میں درج ہو جاتیں اور ’کیفیت‘ کے کالم میں لکھا جاتا ’عطیہ منجانب…‘ بس یہی دو الفاظ اس کتاب کی قیمت تھی جو اس کے خریدنے اور لانے والے کو لائبریری کی طرف سے ادا کی جاتی۔ یہ نسخہ آزمودہ تھا جو کبھی فیل نہیں ہوا۔ کیونکہ ’حکیم چچا‘ یا ’حکیم بھائی‘ کے اس حکم کو ماننے سے انکار کرنا، دیسنہ کو وطن ماننے سے انکار کر دینے کے مُترادف سمجھا جاتا تھا۔

دیسنویوں کے لئے یہ لفظ ”وطن“ کافی اہم ہوتا تھا اور لائبریری اس کا ایک بہت بڑا حصہ تھا۔ ان کا قصبہ نہ صرف ایک گاؤں تھا بلکہ بہت گہرے سماجی تعلقات کا مرکز بھی تھا جو آج بھی ہندوستان، پاکستان، اور دوسرےملکوں میں پھیلے ہوئے دیسنوی قائم رکھتے ہیں۔ دیسنہ کئی مقبول اہلِ قلم کا وطن تھا مثلاً سید سلیمان ندوی، شہاب الدین دیسنوی، نجیب اشرف ندوی، عبد القوی دیسنوی، اور صباح الدین عبد الرحمٰن۔ لیکن ایسے جانے پہچانے اشخاص کے علاوہ اور بھی بہت ایسے لوگ تھے جنہیں ہم ”معمولی اہلِ علم“ کہہ سکتے ہیں یعنی ایسے اہلِ علم جو مشہور نہ ہوتے ہوئے بھی علم و ادب کے چاہنے والے ہیں۔

تقسیمِ ہند کے بعد دیسنہ کے بہت سے لوگ پاکستان چلے گئے۔ جو ہندوستان میں رہے وہ فکر مند ہونے لگے کہ کتب خانے کا مستقبل کیا ہو۔ نتیجتاً1957 میں جب ذاکر حسین بہار کےگورنر ہوئے تو شہاب الدین دیسنوی، جو اس وقت بمبئی میں مقیم تھے، کتب خانے کے لیے سہارا مانگنے کی غرض سے اس کو خط لکھنا شروع کیا۔ بالآخر1960 میں16 بیل گاڑیوں میں کتب خانے کی 7914 جلدیں لادی جانے کے بعد وہ پٹنہ کے خدا بخش لائبریری لائی گئیں جہاں وہ آج بھی محفوظ ہیں۔

(ڈیوڈ بوئیک،نارھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف ایشین لنگویجز اینڈ کلچرمیں اسسٹنٹ پروفیسر آف انسٹرکشن ہیں۔)