خبریں

دہلی تشدد: 19معاملوں میں پولیس کی دلیل، ملزم کو ضمانت دینے سے غلط پیغام جائے گا

گزشتہ 29  مئی کو دہلی ہائی کورٹ نے فساد کے ایک ملزم کو ضمانت دیتے ہوئے پولیس کی اس دلیل کو خارج کر دیا تھا کہ ضمانت دینے سے سماج میں غلط پیغام جائےگا۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ عدالت کا کام قانون  کے  مطابق انصاف  کرناہے، نہ کہ سماج کو پیغام دینا۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: پچھلے مہینے 29 مئی کو دہلی ہائی کورٹ نے قومی  راجدھانی میں فروری مہینے میں ہوئے فسادات کے سلسلے میں ایک ملزم کو ضمانت دیتے ہوئے پولیس کی اس دلیل کو خارج کر دیا تھا، جس میں اس نے کہا تھا کہ ضمانت دینے سے سماج میں غلط پیغام جائےگا۔کورٹ نے کہا تھا کہ اس کا کام انصاف کرنا ہے، نہ کہ سماج کو پیغام دینا۔حالانکہ اس کے باوجود دہلی پولیس ضمانت دینے سے منع کرنے کے لیے لگاتار یہی دلیل پیش کرتی آ رہی ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق اعدادوشمار سے انکشاف ہوتا ہےکہ دنگے سے جڑے 19 معاملوں میں دہلی پولیس نے یہی دلیل دی ہے اور ان میں سے 15 معاملے ہائی کورٹ کے29 مئی کے مشاہدےکے بعد کے ہیں۔اولڈمصطفیٰ آباد کے رہنے والے فیروز خان کو ضمانت دیتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا تھا، ‘جیل مجرموں  کو سزا دینے کے لیے ہے، نہ کہ زیرسماعت ملزم کو قید کرکے سماج کو پیغام دینے کے لیے۔ کورٹ کا کام قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے، نہ کہ سماج کو پیغام دینا۔’

اس کے بعد چھ جون کو ایک ضلع عدالت  نے خان کو چار دیگر معاملوں میں بھی اس بنیاد پر ضمانت دے دی کہ ہائی کورٹ کی طرف سے فیصلہ لیے گئے معاملے سے یہ معاملے الگ نہیں ہیں۔ دیال پور تھانے میں درج ہوئے کیس کے سلسلے میں فیروز خان کو تین اپریل کوعدالتی حراست میں بھیجا گیا تھا۔

حالانکہ دہلی پولیس باربار ‘سماج کو پیغام دینے’ والی دلیل کااستعمال کرکے ملزموں کو جیل میں رکھنا چاہ رہی ہے۔

مثال کے طور پر11 جون: کھجوری خاص میں درج ایک معاملے میں گرفتار کئے گئے امت نام کے ایک شخص کی جانب سےدائر ضمانت عرضی  پر 11 جون کو دہلی پولیس نے کہا، ‘عرضی گزار سماج میں غلط پیغام دے سکتا ہے اور ملک کی سیکولر امیج میں لوگوں کا یقین کمزور ہو سکتا ہے۔’

اس کے بعد ملزم کو ضمانت دینے سے منع کر دیا گیا۔اسی دن ایک دوسرے ملزم اشونی کے خلاف کراول نگر میں درج چار معاملوں کےسلسلے میں دائر ضمانت عرضی کو پولیس نے اسی بنیاد پر خارج کرنے کی مانگ کی۔ حالانکہ اشونی کو سبھی معاملوں میں ضمانت مل گئی۔

نوجون: اسی طرح 9 جون کو چار ملزمین آشوتوش (ایک معاملہ، کھجوری خاص)، مٹھن (ایک معاملہ، کھجوری خاص)، سریندر(ایک معاملہ، نیو عثمان پور)اورشعیب(ایک معاملہ، بھجن پورہ)- کی ضمانت عرضی کی پولیس نے ‘غلط پیغام’ دینے کی بنیاد پر مخالفت کی۔ صرف آشوتوش کو ضمانت ملی۔

چارجون: دہلی پولیس نے 4 جون کو ملزم آصف کی ضمانت عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، ‘اتنی جلدی ضمانت دینے سے سماج میں غلط پیغام جائےگا اور ملک کی سیکولر امیج میں لوگوں کا بھروسہ کمزور ہوگا۔’آصف کے خلاف کھجوری خاص میں دو معاملے درج ہیں۔ ایک دوسرےملزم تاسیم کے معاملے میں بھی پولیس نے یہ دلیل دی۔ حالانکہ کورٹ نے ان تینوں معاملے میں دونوں کو ضمانت دے دی۔

تین جون: اس دن پولیس نے دیپک اور راج کمل نام کے دو ملزموں کی ضمانت عرضی خارج کرنے کی مانگ کی اور کہا کہ اس سے ‘غلط پیغام’ جائےگا۔ دیپک کے خلاف ویلکم علاقے میں دو معاملے اور راج کمل کے خلاف ایک معاملہ درج ہے۔ کورٹ نے دونوں کو ضمانت دینے سے منع کر دیا۔

بائیس(22)مئی: نیو عثمان پور میں منیش کے خلاف درج تین معاملوں میں جانچ افسر نے ضمانت کی مخالفت کی تھی۔افسرکی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس وقت ملزم کو ضمانت دینے سے سماج میں غلط پیغام جائےگا۔ حالانکہ عدالت نے تینوں معاملوں میں ضمانت دے دی۔

تین مئی: اسی طرح جعفرآباد میں گل فشا ں کے خلاف درج معاملے میں بھی جانچ افسر نے دوسری دلیلوں کے ساتھ یہ دلیل دی تھی کہ ضمانت دینے سے سماج میں غلط پیغام جائےگا۔ اس کے بعد ضمانت سے انکار کر دیا گیا۔

بہرحال، عرضی گزاروں  کے وکیلوں نے ہائی کورٹ کےتبصرےکو بنیاد بناکر ضمانت دینے کی مانگ کی۔ حالانکہ اس پر ملا جلاردعمل ملا۔ کسی معاملے میں ضمانت مل گئی تو کسی معاملے میں عرضی خارج کر دی گئی۔