فکر و نظر

سابق ڈی جی پی کی قلم سے–حراست میں تشدد اور ہندوستانی پولیس کا مکروہ چہرہ

یوں تو روزانہ سینکڑوں لوگوں کو ٹارچرکرنے کی بات کہی جاتی ہے لیکن غریب،پسماندہ اور اقلیت ان کے خاص نشانے پر ہوتے ہیں۔

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

حال میں ہی تمل ناڈو میں ایک باپ بیٹے کو پولیس کے ذریعے بڑی بےدردی سے پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے کا الزام لگا۔ کنبہ کے افراد کا کہنا ہے کہ بیٹے بینکس کومقعدمیں لاٹھی ڈالنے سے اتنا خون بہہ رہا تھا کہ اس کو کئی  بار اپنی لنگی بدلنی پڑی تھی۔ان کا قصور؟ لاک ڈاؤن کرفیو کے دوران اپنے موبائل کی دکان کھولے رکھنا۔ گرفتاری کے بعد ان کے اوپر پولیس اہلکاروں کو دھمکانے اور سرکاری کام میں رکاوٹ ڈالنے کے جھوٹے الزام جوڑ دیے گئے۔

غریب،بے سہارا، پسماندہ اور اقلیت پولیس تشدد کے خاص شکار

آپ کو فروری کے دہلی فسادات کے دوران رونما  ایک واقعہ یاد ہوگا، جس میں پانچ مسلم نوجوانوں کو زمین پر گراکر کچھ پولیس والوں کے ذریعے سڑک پر پیٹا جا رہا ہے، گالیاں دی جا رہی ہیں اور زمین پر پڑے پڑے ہی زبردستی قومی ترانہ  گانے کو بولا جا رہا ہے۔اس واقعہ  کا ویڈیو موجود ہے۔ اس میں بےہوش پڑے فیضان(23)کی بعد میں موت  ہو گئی۔ چار مہینے بعد بھی ویڈیو میں دکھ رہے پولیس والوں کے نام ایف آئی آر میں بطور ملزم درج نہیں کئے گئے ہیں۔

الزام ہے کہ فیضان کی61 سالہ ماں پر پولیس بیان بدلنے کا دباؤ بنا رہی ہے۔ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ پولیس ایسا سلوک  ان کے ساتھ نہیں کرتی، جواقتدارکے قریب ہونے کی وجہ سے طاقتورہیں۔اس طرح  کےامتیازی تشدد کی معاشرتی وجہ  سیدھی سی ہے۔ پولیس کو معلوم ہے کہ سیاسی  اوراکثر مالی اعتبارسے بھی کمزور لوگوں کے حق میں تھوڑا بہت احتجاج  بھلے ہو جائے، ایسا مشکل سے ہی ہوتا ہے کہ ان کے کیس آخر تک لڑے جا سکیں اور قصوروارپولیس والوں کو سزا دلوائی جا سکے۔

پولیس صاحب اختیارکی باندی  ہوتی ہے۔مقامی سیاست اورطاقت کے کھیل میں جو طاقتور ہوتا ہے پولیس اس کے اشارے پر کسی بھی کمزور طبقہ  یاکمیونٹی  کوہراساں کرنے  کوتیار رہتی ہے۔

پولیس تشدد کا نفسیاتی تجزیہ

پولیس کے ذریعے ٹارچر کرنے کے تین نفسیاتی اسباب ہیں۔ پہلا یہ کہ پولیس والوں کو حقیر یا کمزور لوگوں کو پیٹ کر اپنی وردی کی طاقت کا احساس ہوتا ہے اور ان کی انا کو تسکین ملتی ہے۔دوسری وجہ  ان کاتلذذ یاجنسی تلذذ میں مبتلاہونا ہے۔تیسرا،اقتدار سے وابستہ ہونے کی وجہ سےپولیس والے مان لیتے ہیں کہ وہ جنہیں ٹارچر کرتے ہیں، وہ اتنے حقیر لوگ  ہوتے ہیں کہ ان کےبارے میں کسی طرح  کے احساس جرم  میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔

آپ اس ذہنی رویے پرحیرانی کا اظہاریہ نہ کریں۔ یہ رویہ  مجرموں  میں اکثر پایا جاتا ہے۔ لیسلی اڈون نام کی برطانوی خاتون  فلمساز(‘انڈیاز ڈاٹر’ کی ہدایت کار)نے تہاڑ جیل میں نربھیا معاملے کے ملزم مکیش کے علاوہ ایک اور قیدی گورو سے بھی بات کی تھی۔اس نے ایک پانچ سال کی بچی کاریپ اورمرڈر کیا تھا۔ اڈون نے اس سے پوچھا کہ وہ ایسا کیسے کر پایا۔ اس پر اس نے اڈون کو یوں دیکھا کہ کیا احمقانہ سوال پوچھ رہی ہے۔

اس نے جو جواب دیا وہ آپ کو حیران  کر دےگا،‘وہ ایک بھکارن تھی۔ اس کی زندگی کی کیا اہمیت ہے بھلا؟’یہی ذہنیت  ٹارچر کرنے والے پولیس والوں میں پائی جاتی ہے۔ ان کے خیال سے غریب، بے سہارا، پسماندہ، دلت، اور مسلمان یا دوسری اقلیت‘ہیومن’ نہ ہوکر اس سے کم ‘سب ہیومن’ ہوتے ہیں، جن کے ساتھ بے جھجھک تشدد کیا جا سکتا ہے۔

پولیس ٹارچر کے مروجہ  طریقے

امریکی سینٹرل انٹلی جنس ایجنسی(سی آئی اے)اور اسرائیل کے موساد نے تو ٹارچر کو مکمل سائنس ہی بنا دیا ہے۔ سی آئی اے والے انہیں پیار سے ‘ان ہانسڈ انٹروگیشن ٹیکنیکس’ کہتے ہیں۔سی آئی اے کے بدنام زمانہ واٹر بورڈنگ نام کے ٹارچر کے بارے میں آپ نے سنا ہوگا۔ انہوں نے سونے نہ دینا یا سلیپ ڈیپرویشن پر بھی خوب ریسرچ کیا ہے۔

آپ نے شاید‘چائنیز واٹر ٹارچر’کے بارے میں سنا ہوگا۔ دوسرے ملکوں میں اور بھی طریقے فروغ دیے گئے ہیں جو کوئی نشان نہیں چھوڑتے، پر بہت تکلیف دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں پولیس والے اتنی جھنجھٹ میں نہیں پڑتے۔لو وولٹیج  (لگ بھگ 80 وولٹ) کرنٹ  لگانا ٹارچر کا بےحد معروف طریقہ ہے۔ مردوں  کے شرمگاہوں  پر کرنٹ لگانا دوطرفہ مار کرتا ہے۔

اگر اس کی شادی ہو گئی ہے تو کہا جائےگا کہ اب تو تم بیوی کے کام کے نہیں رہوگے۔ اگر شادی نہیں ہوئی ہے تو کہیں گے کہ اب تم شادی کے لائق ہی نہیں رہوگے۔ اس کی تصدیق  کشمیری قلمکار بشارت پیر نے بھی اپنی کتاب‘کرفیوڈ نائٹ’میں کی ہے۔اس کے علاوہ  مردوں  کے مقعدمیں مرچی، پٹرول، کیروسین، پتھر، ڈنڈے وغیرہ  ڈالے جاتے رہے ہیں۔

گوٹا چڑھانے کے ٹارچر میں فرد کو چت لٹاکر اس کی جانگھوں پر ایک لکڑی کا لٹھا یا رولر پھیرا جاتا ہے۔ رولر پر وزن ڈالنے کے لیے اس پر ایک دو پولیس والے کھڑے بھی ہو جاتے ہیں۔ اس سے ریبڈومایولسس ہو جاتا ہے اورموت ہو سکتی ہے۔زخم  کا نشان نہ چھوٹنے پائے اس لیےفرد کو زمین پر بٹھاکر، ٹانگیں  سامنے پھیلاکر انہیں دائیں بائیں بغل کی طرف کھینچنا، ہاتھوں کو پیچھے موڑنا یا پیچھے موڑکر اوپر اٹھانا یا مرے جانور کی طرح بانس سے لٹکانا بھی مروج ہے۔

یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس طرح الٹا لٹکانے سے سر میں خون جمع ہونے سے موت بھی ہو سکتی ہے۔سپریم کورٹ نے سی بی آئی بنام کشور سنگھ اور دیگر(2010)کےکیس میں پایا کہ پولیس والوں نے حراست میں ایک شخص کا عضوتناسل ہی استرے سے کاٹ دیا تھا۔

پولیس حراست میں اموات پر سپریم کورٹ کاسخت  رخ

سن 1988میں ہی سپریم کورٹ نے موہن لعل شرما بنام اسٹیٹ آف اتر پردیش کے کیس میں پولیس کسٹڈی میں ہو رہی موت کے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔سن2009میں دلبیر سنگھ بنام اسٹیٹ آف یوپی اور دیگر کے کیس میں سپریم کورٹ نے پولیس کے تشدد کی بڑے سخت لفظوں  میں مذمت کی تھی۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ دودہائی سے بھی پہلے رگھوبیر سنگھ بنام سٹیٹ آف ہریانہ کے کیس میں جن خدشات  کا اظہارکیا گیا تھا اس پر کوئی کان نہیں دیا گیا ہے۔سن2011میں پرتھی پال سنگھ وغیرہ  بنام اسٹیٹ آف پنجاب کے کیس میں سپریم کورٹ کی ڈویژن بنچ نے پولیس تشدد کی پھر سے سخت مذمت  کی تھی۔

اس کیس میں پنجاب پولیس کے ذریعے دہشت گرد مخالف مہم کے نام پر کم سے کم 2097 لوگوں کو ٹارچر کے بعد بے رحمی سے قتل  کرکے لاشوں کو جلا دینے کی تصدیق  ہوئی تھی۔پولیس کے اعلیٰ حکام  کی لعنت ملامت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا، ‘باوجود اس کے کہ یہ معاملہ اعلیٰ  حکام کی جانکاری میں لایا گیا تھا، پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ کورٹ نے کہا کہ پنجاب پولیس کے افسر اپنے ساتھیوں/ملزمین کو بچانے کے لیے ایک ناپاک رشتے(ان ہولی الائنس)میں بندھ گئے کیونکہ اس کیس سے پنجاب پولیس کی امیج خراب ہوتی۔

پھر بھی سسٹم میں کمی کہاں ہے؟

پولیس ٹارچر کے معاملوں میں انصاف ملنے میں دورکاوٹیں ہیں۔ پہلی یہ کہ بہت کم لوگ ہی کیس لڑنے کا خرچ اٹھا سکتے ہیں۔دوسری رکاوٹ  اورسسٹم کی سب سے کمزور کڑی ہے پوسٹ مارٹم رپورٹ یا میڈکو لیگل سرٹیفیکٹ میں دھاندلی کروا لینا۔دراصل پولیس کے دباؤ میں ڈاکٹر اور فارینسک ایکسپرٹ اکثررپورٹ میں جیسا وہ کہیں ویسی ہیراپھیری کر دیتے ہیں۔ اس طرح  کی دھاندلیوں کا ایک نمونہ نوئیڈا کے معروف آروشی-ہیم راج مرڈر کیس میں تھا، حالانکہ وہ پولیس ٹارچر کا کیس نہیں تھا۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے دکھایا کہ سی بی آئی کے ذریعے اس معاملے میں بڑاگناہ کیا گیا تھا۔ حیدرآباد کے سینٹر فار ڈی این اے فنگر پرنٹنگ اینڈ ڈائگناسٹکس(سی ڈی ایف ڈی)پر دباؤ ڈال کر رپورٹ میں دوسرے ہی شخص کا ڈی این اے دکھوا دیا گیا۔اس بات کو بتانے کامقصودیہ ہے کہ جب ایسے ہائی پروفائل کیس میں دھاندلی ہو سکتی ہے تو پھر ضلعوں کی پولیس تو ڈاکٹروں سے کیا نہ کروا لے!

اس سلسلے میں پولیس کی نئی ایجاد ہے ‘زیرو پولیس’یا ‘ٹارچر کی آؤٹ سورسنگ۔’ان کا راز کھلا مہاراشٹر کے سانگلی ضلع سے، جہاں انکت کوٹھالے نام کے نوجوان کی ٹارچر کے دوران موت ہو گئی تھی۔اس معاملے میں ایک پرائیویٹ آدمی بھی پکڑا گیا، جسے‘زیرو پولیس’کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یعنی وہ پرائیویٹ شخص جو پیسوں یادوسری کسی طرح کی مدد کے بدلے پولیس کے گناہوں میں ان کی مدد کرتا ہو۔

ٹارچر کا کام زیرو پولیس کے سپرد کرکے چالاک پولیس والے ریکارڈ پر اپنی موجودگی کہیں اور دکھا دیں گے۔دلیل دی جائےگی کہ جب ہم تھانے میں تھے ہی نہیں تو ہم نے ٹارچر کیا کیسے؟

بچاؤ میں پولیس کی جھوٹی دلیلیں

ٹارچر کے الزاموں پر اپنے بچاؤ میں پولیس والوں کی ایک اسٹینڈرڈ دلیل ہوتی ہے کہ ہم تو کیس سلجھانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔آپ ملک کے کسی کونے میں پوچھ لیں، ہر جگہ پولیس افسر آپ کو ایک ہی مثال دیتے پائے جائیں گے-کہ مان لیجیے کوئی مشتبہ دہشت گرد پکڑا گیا، جس کے بارے میں جانکاری ملی ہے کہ اس نے کہیں کوئی بم لگا رکھا ہے۔ اب اس کو ٹارچر نہیں کیا گیا تو بم پھٹنے کے پہلے کیسے بتائےگا؟


یہ بھی پڑھیں:پولیس حراست میں ہرروز پانچ موت، ہلاک ہو نے والوں میں بیشتر غریب، پسماندہ، دلت، قبائلی اور مسلمان: رپورٹ


ایک استثنائی مثال سے ان کے لاکھوں دوسرے گناہوں کوجواز عطا نہیں کیا جا سکتا۔ملک میں روز ہزاروں لوگوں کو پولیس کے ہاتھوں ستایا جا رہا ہے۔ اتنے تو دہشت گرد ہی پوری دنیا میں نہیں ہیں!اور وہ مثال بھی مدلل نہیں ہے۔ مان لیجیے ٹارچر کے بعد مشتبہ فردبے قصورنکلا تو؟ یا آپ کی مبینہ جانکاری  ہی جھوٹ نکلی تو؟

اگر آپ اس دلیل کو قبول  کر لیں، تو امریکہ کی بدنام زمانہ گوانتانامو بے حراستی کیمپ اور ابوغریب جیل میں کیے گئے غیر انسانی مظالم کو بھی آپ کوصحیح ماننا پڑےگا، جن کی پوری دنیا نےمذمت کی ہے۔

خود کوعظیم دکھانے کی بےجا خواہش

ٹارچر کے واقعات کے بڑھتے جانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ آج کل پولیس افسران  نے خودہی مان لیا ہے کہ ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی کیس کو آناًفاناً میں سلجھا لیں گے۔وہ میڈیا سے یہ سننا چاہتے ہیں اورمقامی صحافیوں  کی قلم سے یہ لکھا دیکھنا چاہتے ہیں کہ صاحب تو بڑے تیز طرار افسر ہیں، چٹکیوں میں کیس سولو کر دیتے ہیں، ‘بھائی صاحب کی پکڑ میں آنے پر تو گونگے کے منھ میں بھی زبان آ جاتی ہے، اچھے اچھے بولنے لگتے ہیں۔’

بس، صاحب چنے کے جھاڑ پر چڑھ جاتے ہیں اور نتیجہ ہوتا ہے ٹارچر! لیکن جو بات یاد رکھنے لائق ہے وہ یہ کہ ‘پربھو!آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ یہ واضح کریں کہ ایسی کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہوتی جس سے کوئی کیس گھنٹوں میں سلجھا لیا جائے۔’

بدعنوانی

پولیس ٹارچر کے بہت سے معاملےبدعنوانی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ پکڑے گئے شخص نے پیسے دے دیے تو یا تو اسے چھوڑ دیا جائےگا یا ہلکے سیکشن لگائے جائیں گے۔مان لیجیے کوئی چوری یا ڈکیتی کا کیس ہے۔ اب یہاں ٹارچر کا اہم مقصد ہوتا ہے کہ ری کوری یا برآمدگی ہو جائے۔پچاس لاکھ ری کور ہوئے تو چالیس لاکھ رکھ لیے جا ئیں گے اور دس لاکھ کی ہی ری کوری دکھائی جائےگی۔

پولیس کے بدعنوان افسروں کے ذریعے مجرم  پولیس والوں پر نرمی برتنے یا ان پر کوئی کارروائی  نہ کرنے کی  سیدھی وجہ ہے کہ ان کی کروڑوں روپیوں کی کالی کمائی کا ایک بڑا حصہ ایسے ہی پاپی پولیس والوں کےگناہوں کے ذریعے آتا ہے اور جو آپ کے لیے اتنے پیسے لا رہے ہوں، ان سے کچھ محبت تو نبھانی پڑتی ہے نہ!

آپ جتنا سمجھتے ہیں پولیس تشدد کی سچائی اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔ حقائق  کا پتہ یا توجھیلنےوالوں کو ہوتا ہے یا ‘ان سائیڈرس’ کو۔سچ یہ ہے کہ سمجھنا ہوگا کہ بدلاؤ کے لیے پورے نظام میں ہی سر سے پیڑتک تبدیلی کی ضرورت ہے۔

(مضمون نگار ریٹائرڈ آئی پی ایس افسرہیں اور کیرل کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور بی ایس ایف و سی آر پی ایف میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل رہے ہیں۔ یہ مضمون جزوی طور پر ان کی کتاب  خاکی میں یہ درندے پر مبنی ہے۔)