فکر و نظر

کیا پڑوسی ممالک کے ساتھ نریندر مودی کے ’گیم‘ کو خراب کر رہا ہے چین؟

نریندر مودی  چاہتے ہیں کہ پڑوسی ممالک کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھا جائے اور پاکستان کے اردگرد حصار قائم کیا جائے۔مگر اب اس گیم میں چین دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کا کام کر رہا ہے، جس کی شہہ پر چھوٹے پڑوسی ممالک بھی  ہندوستان کی نو آبادیاتی طرز فکر کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

کیسی ستم ظریفی ہے کہ جنوبی ایشیاء کے تقریباً سبھی ممالک ایک کثیر جہتی اور جمہوری پڑوسی ملک ہندوستان کے بجائے ایک آہنی نظام کے ملک چین کے ساتھ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ ہونا تویہ چاہیے تھا کہ ہندوستان ان سبھی ممالک کے لیے مشعل راہ ہوتا اور اس کی مشفق خارجہ پالیسی ایک مہربان بڑے بھائی کی طرح ان کے مفادات کا خیال رکھ کر خطے کی تعمیر و ترقی کا ضامن بن جاتی۔

مگر برسوں سے ہندوستان کا رویہ اس خطے میں نوآبادیاتی طرز کا رہا ہے اور 2014میں نریندر مودی کے برسراقتدار میں آنے کے بعد اس میں مزید شدت آگئی ہے۔افریقی ملک ماریشس سمیت جنوبی ایشیا کے دو اہم ممالک کے بڑے میڈیا ادارے ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کی مرہون منت ہیں۔ ا ن ممالک میں ہندوستان نے لگاتار طبقہ اشرافیہ، آمرانہ نظام اور میڈیا کے چند اداروں پر مراعات کی بارش کرکے عوامی خواہشات و رجحانات کو نظر انداز کرکے اپنے مفادات کی تکمیل کی ہے۔جس کی حالیہ مثال نیپال ہے۔

جون 2015میں جب نیپال کی سبھی سیاسی جماعتیں متفقہ  طور پر آئین کے مسودہ پر رضامند ہوگئیں، تو ہندوستان نے اس پر سخت اعتراض جتایا۔ ہندوستانی حکومت کا موقف تھا کہ ترائی کے علاقے میں رہنے والے ہندوستان نژاد مدھیہشی اور تھاروز نسل کے افراد کو پارلیامنٹ میں متناسب نمائندگی دی جائے۔ اب کوئی ہندوستانی وزارت خارجہ سے پوچھے کہ یہ متناسب نمائندگی کا فارمولہ وہ خود ہندوستان میں نافذ کیوں نہیں کرتے، جہاں 195ملین کی مسلم آبادی، جو کل آبادی کا 15فیصد ہیں، کی پارلیامنٹ میں نمائندگی پانچ فیصد سے آگے بڑھ نہیں پارہی ہے؟

با وثوق ذرائع کے مطابق، دارلحکومت کھٹمنڈو کے جس کمرے میں سیاسی لیڈران آئین کے مسودہ پر غور و خوض کر رہے تھے، سبھی کے موبائل فون ایک ایک کرکے بجنے لگے۔ یہ کال کھٹمنڈو میں ہندوستانی سفارت خانے سے کی جارہی تھی، جہاں اس آئین کے مسودہ پر سیاسی جماعتوں کی رضامندی کی خبر پہنچ چکی تھی۔ یہ ان لیڈروں کے لیے سبکی تھی کہ ہندوستانی سفارت خانے کا کوئی افسر میٹنگ کے دوران ہی ان کو فون کرکے ہدایات دینا چاہتا تھا۔ ایک ایک کرکے سبھی نے اپنے فون بند کردیے۔

اس آئین کو پارلیامنٹ میں مباحثہ کے لیے پیش کرنے سے روکنے کے لیے اگلے دو ماہ تک ہندوستان نے خوب تگ و دو کی اور ستمبر میں سکریٹری خارجہ سبرامنیم جے شنکر(موجودہ وزیر خارجہ) کھٹمنڈو آن پہنچے۔ نیپال کے ایک سینئر سیاسی تجزیہ کار کنک منی ڈکشت کے مطابق جے شنکر کا رویہ خاصا ہتک آمیز اور غیر سفارتی تھا۔ وزیر اعظم مودی کی ایما ء پر ایک طرح سے وہ نیپالی لیڈروں کے لیے دھمکی بھراپیغام لےکرآئے تھے، جس کو نیپالی کانگریس کے ہندوستان نواز لیڈروں نے بھی رد کرکے جے شنکر کو بے رنگ لوٹنے پر مجبور کردیا۔

مودی کے حواری اور ہندو قو م پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس  مدھیہشیوں کے حقوق سے زیادہ اس بات پر ناراض تھی کہ آئین میں نیپال کو سیکولر ملک قرار دیا گیا تھا۔ اس سے قبل راج شاہی دور میں نیپال دنیا کا واحد ملک تھا، جہاں سرکاری مذہب ہندو مت تھا۔ہندوستان کی خفیہ ایجنسیاں برسوں سے نیپال کے ترائی علاقے کو خود مختار علاقہ بنانے کی تگ و دو کرتی رہی ہیں، تاکہ کھٹمنڈو اور ہندوستان کے درمیان ایک طرح کا بفر زون بنایا جائے۔جو خود مختاری یا حق خود اختیاری ہندوستان مدھیشی عوام کے لیے تو چاہتی ہے، مگر خود اسی اختیار کو پچھلے سال اگست میں ہندوستانی پارلیامنٹ نے کشمیر میں کاالعدم قرار دیا۔

جے شنکر کی دہلی واپسی کے بس پانچ دن بعد ہی نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی کی گئی۔ حتیٰ کہ نیپال نے اقوام متحدہ میں اس کی شکایت کی۔ خشکی سے محصور ملک کے لیے ا س سے بڑی کیا سزا ہوسکتی ہے کہ اس کی ناکہ بندی کردی جائے۔ مہینوں تک نیپال میں پٹرول پمپ خشک ہوگئے تھے۔ ہندوستان کی کولکتہ بندرگاہ نیپال کی ایک اہم گذرگا ہ ہے۔ اس بندر گاہ سے نیپالی اشیاء کی ترسیل روک دی گئی۔1989میں بھی تجارت اور راہداری معاہدہ کی تشکیل نو کے وقت  ہندوستان نے  نیپال سرحد سے ملحق 21میں سے 19راہداریاں بند کردی تھیں، تاکہ اس معاہدہ کو ہندوستان کے موافق بنانے کے لیے دباؤ بنایا جاسکے۔

یہ ایک ایسے ملک کے ساتھ ہندوستان کا رویہ ہے، جو پاکستان یا چین کی طرح کسی بھی طرح اس کی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ایک طرح سے دونوں ملکوں کے درمیان روٹی اور بیٹی کا رشتہ ہے اورہندو اکثریت میں ہیں۔  نیپالی شہری ہندوستانی فوج میں ملازمت کرتے ہیں۔ ہندوستانی فوج کی چھ رجمنٹ گھورکھا اور نیپالی سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ ان کی تنخواہیں، پنشن وغیرہ ہندوستان سے آتی ہیں۔ مودی حکومت نے جب 2016میں نوٹ بندی کا اعلان کردیا، تو ان لوگوں کو سب سے زیادہ نقصان ہوا۔

ایک اندازہ کے مطابق ملک میں 7بلین ہندوستانی نقدی پھنسی ہوئی ہے، جس کا متبادل ہندوستان نے  ابھی تک مہیا نہیں کروایا۔ نیپال کے سینٹربینک میں ہی سات کروڑ روپیہ کی ہندوستانی کرنسی پھنسی ہوئی ہے، جس کو ہندوستانی ریزرو بینک لینے سے منع کررہا ہے۔ نیپالی آرمی کا سربراہ ہندوستانی فوج کا اعزازی جنرل ہوتا ہے۔ اسی طرح ہندوستانی فوج کا سربراہ بھی نیپالی فوج کا اعزازی جنرل ہوتا ہے۔

اتنے گہرے تعلقات کے باوجود نیپال میں عوامی سطح پر ہندوستان کے تئیں خاصا غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ خود نیپالی وزیر اعظم کے پی شرما اولی الزام لگا چکے ہیں کہ ہندوستان میں ان کے تختہ پلٹ کی تیاریا ں ہو رہی ہیں۔ نیپال نے جس طرح پارلیامنٹ میں اتفاق رائے سے آئین میں ترمیم کرکے ملک کا نیا نقشہ جاری کرکے متنازعہ سرحدی علاقوں کو اس میں شامل کیا، اس قدم سے ہندوستان میں سخت ناراضگی ہے۔

چند ماہ قبل ہندوستان نے بھی کچھ اسی طرح کا قدم اٹھا کر جموں و کشمیر کے لیے نیا نقشہ ریلیز کیا تھا۔ 2018  میں بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کو عوامی غیض و غضب سے بچانے اور واپس اقتدار میں لانے کے لیے ہندوستان نے خاصا کردار ادا کیا تھا۔ ان انتخابات میں استعمال ہوئی الکٹرانگ ووٹنگ مشینیں ہندوستان کے گجرات صوبہ سے آئی تھیں۔ جن کو خود ہندوستان میں ہی شک وشبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

 بھوٹان کے وزیرا عظم جگمے تھنلے نے 2012  میں جب  برازیل میں چینی ہم منصب وین جیابو سے ملاقات کی، تو ہندوستان نے ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی روک دی۔ اگلے سال 2013میں تھنلے کو اقتدار سے بے دخل کروایا۔ اسی طرح سری لنکا میں سنہالا بد ھ قوم پرست گوٹا بایا راج پکشانے بھی چند سال قبل الزام لگایا تھا کہ 2015میں ہندوستانی خفیہ ایجنسی نے ان کو انتخابات میں ہرانے میں کردار ادا کیا تھا۔


یہ بھی پڑھیں:مودی کی خارجہ پالیسی:پڑوسی ممالک کے لیے عطیہ یا عفریت؟


سری لنکا تو  1971کی ہندوستان-پاکستان جنگ کے بعد ہی ہندوستانی خفیہ اداروں کے نشانہ پر آگیا تھا۔ کانگریس پارٹی کے اہم  عہدیدار نے چند برس قبل راقم کو بتایا تھا کہ 1984ء میں اگر وزیر اعظم اندرا گاندھی کو سکھ باڈی گارڈ ہلاک نہ کرتے تو بنگلہ دیش کی طرز پر سری لنکا کے شمالی علاقہ جافنا پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت وجود میں آگئی ہوتی۔ ان کے مطابق مسزگاندھی نے سری لنکا کو1971ء کی جنگ میں پاکستان کی معاونت کرنے پر کبھی معاف نہیں کیا۔

سر ی لنکا نے پاکستانی فضائیہ اور ڈھاکہ جانے والے سویلین جہازوں کے لئے کولمبو میں ایندھن بھرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے فوراً بعد آنجہانی مسزگاندھی اور ان کے رفقا نے تامل علیحدگی تحریک کا رخ سری لنکا کی طرف موڑتے ہوئے تامل ناڈوکو مستقر بنا کر تامل انتہا پسندوں کوگوریلا جنگ کے لئے تیارکرنا شروع کردیا تھا۔

پچھلے 70سالوں سے ہندوستان صرف سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ سمندری اور زمینی حدود کا تعین کرسکا ہے، جو اس کی سفارتی اہلیت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ حتیٰ کہ بھوٹان کے ساتھ بھی سرحدوں کا حتمی تعین نہیں ہوسکا ہے۔دوسری طرف چین نے 14میں سے 12پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدی تنازعوں کو حل کرلیا ہے۔ اور ان میں سے اکثر معاہدوں میں چین نے ہی ایک بڑا ملک ہونے کے ناطے  دعویٰ واپس لےکر اور کچھ زمین چھوڑ کر امن کا دامن تھام لیا ہے۔ ساؤتھ چینا سمندر میں اس کے سمندری حدود کا قضیہ، اس علاقے میں امریکی مفادات کی وجہ سے ہنوز تعطل کا شکار ہے، جس میں ہندوستان اب ایک فریق کے بطور ابھر رہا ہے۔

 گو کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے نام پر مودی نے جنوبی ایشیائی تعاون تنظیم سارک کی احیاء نو کی کوشش کی، مگر پچھلے چھ سالوں سے ہندوستان نے اس تنظیم کی بیج کنی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کے نام پر اس کے مقابل نیپال، بھوٹان، برما، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ اور سری لنکا پر مشتمل  بیمسٹیک یعنی تنظیم بنائی گئی۔ اس کے علاوہ سارک کے اندر ہی ایک اور ذیلی تنظیم برما، بنگلہ دیش، ہندوستان اور نیپال پر مشتمل بی بی آئی اینتنظیم بنائی گئی۔

اسی طرز پر مالدیپ اور سری لنکا پر دباؤبنایا جا رہا ہے کہ وہ بھی ہندوستان کو شامل کرکے ایک ذیلی تنظیم بنالیں۔ پاکستان کے مغرب میں ایران کے چاہ بہار پورٹ کو مرکز بنا کر ایران، افغانستان اور چند دیگر وسط ایشیائی ممالک کو باور کرایا جا رہا ہے کہ وہ بھی ہندوستان کو ساتھ ملاک کر ایک ذیلی تنظیم بنالیں۔ سارک کے حوالے سے ہندوستان کو 2014سے تشویش لاحق ہو گئی ہے، جب کھٹمنڈو سربراہ کانفرنس کے دوران نیپال نے چین کو اس تنظیم میں شامل کرنے کی تجویز دی، جس کی ہندوستان نے سخت مخالفت کی۔

سن1977 میں جب جنتا پارٹی اقتدار میں آئی تواس وقت کے وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی نے پڑوسی ممالک کے ساتھ اشتراک کی تجویز رکھی تھی مگر اس حکومت کا جلد ہی خاتمہ ہوگیا۔ اس پالیسی کا اعادہ 1996ء میں اندر کمارگجرال نے کیا تھا مگر وہ ایک کمزور حکمران تھے۔ دو سال بعد واجپائی ایٹمی دھماکہ کرکے کشیدگی کو نقطہ انتہا تک لے گئے، چند ماہ بعد ہی انہیں ادراک ہوگیا کہ ایٹم بم اپنی جگہ مگر اشتراک کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

اپنے چھ سالہ دورمیں پارلیامنٹ حملہ اور کارگل کے ہوتے ہوئے بھی وہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کوشاں رہے اور دیگر پڑوسی ممالک کا خوف دور کر کے یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ ہندوستان ایک غیر متوازن پاور نہیں بلکہ ان کی ترقی میں معاون بن سکتا ہے۔ نئی دہلی میں اکثر حکومتیں خطے میں ہندوستان کو ایک بارعب پاورکے طور پر منوانے کی کوششوں میں مصروف رہیں ہیں مگر یہ بیل کبھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔

مودی اسی روش پر چل پڑے ہیں، یعنی پڑوسی ممالک کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھا جائے اور پاکستان کے اردگرد حصار قائم کیا جائے۔مگر اب اس گیم میں چین دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کا کام کر رہا ہے، جس کی شہہ پر چھوٹے پڑوسی ممالک ہندوستان کی نو آبادیاتی طرز فکر کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ جمہوری روایات کا پاس رکھتے ہوئے ہندوستان اس خطے میں شفقت مند اور بااعتماد لیڈرشپ کا رول ادا کرکے تنازعوں کو سلجھا کر مودی کے نعرہ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کو واقعی عملی جامہ پہنا لیتا۔